مہدوی بچے
مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات تیسری قسط
حجت الاسلام والمسلمین استاد علی اصغر سیفی
ج : بچے کی راہمائی میں اسراف سے کام نہیں لینا چاہئے اور ایسے تربیتی اسلوب کو اپنانا چاہئے کہ جس کا سرچشمہ ثواب وعقاب ہو چنانچہ آئمہ غضب کے ساتھ تربیت کرنے سے منع کرتے ہیں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
لاادب مع غضب۔
”غضب کے ساتھ کوئی ادب نہیں ہے“
[غرر الحکم جلد 2 صفحہ 274]۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ غضب ایسی حالت ہے جو عقل کے بجائے جذبات کو بھڑکاتی ہے اور اس کی وجہ سے تربیتی عمل کے مطلوبہ ثمرات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے اسی صبر،انتظار اور عمدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کی دیرینہ بیماریوں کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
پس بچہ مسلسل عقلی راھنمائی کا نیازمند ہے اوریہ غضب اور جذبات سے حاصل نہیں ہوتی اوراس طرح تربیتی عمل بھی اپنے مطلوبہ اہداف کھو دیتا ہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا۔
مکتب اہل بیت میں ایسی احادیث ملتی ہیں جو مارنے والا اسلوب اختیارکرنے کا حکم دیتی ہے جیسے حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے
ادب صغار اھل بیتک بلسانک علی الصلاة والطھور فاذا بلغوا عشرسنین فاضرب ولاتجاوزثلاثا
”اپنے بچوں کونماز اورطہارت کے آداب سکھاؤ اور جب دس سال کا ہوجائے تواسے مارو لیکن تین سے تجاوز نہ کرو“
[تنبیہ الخواطر، صفحہ 390]۔
لیکن اس کے مقابلے میں ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جو مارنے والے اسلوب سے منع کرتی ہیں ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس اپنے بچے کی شکایت کی توآپ نے فرمایا:
لاتضربہ ولاتطل
”نہ اسے مارو اور نہ اسے آزاد چھوڑ“
[بحارالانوارجلد102صفحہ72]۔
ان دونوں قسم کی احادیث کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلتاہے کہ شروع سے ہی مارنے کی روش کے اچھے نتائج نہیں ہوتے لیکن بعض مخصوص حالات میں یہ ضروری ہے خاص طور پر نماز اور روزے جیسے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں البتہ ضرورت کی حدتک جیساکہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
فاضرب ولاتجاوز ثلاثا
”مارو لیکن تین دفعہ سے تجاوز نہ کرو“۔
اس بناپر حتی الامکان بچوں کو مارنے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ یہ چیز مفید ہونے کی بجائے ان کی شخصیت پر منفی اثرڈالتی ہے لیکن خاص حالات میں ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسے آٹے میں نمک۔
جاری ہے