درس نہج البلاغہ ( نوارنی حکمتیں، کلمات قصار)
تیسرا درس
حکمت 4
موضوع: عجز کی مذمت، صبر ، زھد کی فضیلت، ورع کیا ہےاور اسکی اہمیت،انسان کا بہترین ساتھی
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ
حکمت نمبر 4
وَ قَالَ امیر المؤمنین علی علیہ السلام
الْعَجْزُ آفَةٌ، وَ الصَّبْرُ شَجَاعَةٌ، وَ الزُّهْدُ ثَرْوَةٌ، وَ الْوَرَعُ جُنَّةٌ، وَ نِعْمَ الْقَرِينُ الرِّضَى
حضرت امیرالمونینؑ نے فرمایا:
“اور عجز و ناتوانی مصیبت ہے، اور صبر شجاعت ہے، اور دنیا سے بے رغبتی بڑی ثروت ہے، اور پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے، رضایت پروردگار بہترین ساتھی ہے۔””
عجز و ناتوانی
عجز سے مراد کہ انسان جسمانی لحاظ ، مالی لحاظ سے فکری اور عملی لحاظ سے کمزور ہو جائے جو کہ انسانی زندگی کی سب سے بڑی آفات میں سے ہے ، جس سے وہ معاشرے میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔
اسی لیے اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ خود سے ایسی ہر قسم کی کمزوری دور کریں کیونکہ اللہ نے ہمیں طاقت دی ہے جس سے ہم یہ کمزوریاں دور کر سکتے ہیں۔
لیکن کبھی تمام کوششوں کے باوجود یہ ناتوانی و عجز ختم نہیں ہوتا۔
کبھی بیماری ختم نہیں ہوتی، کبھی دھوکے کی وجہ سے مالی نقصان ہوا۔ لیکن عام طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ زندگیاں نظم و ضبط سے خالی ہیں اور ہماری اپنی کوتاہیاں ان کمزوریوں اور عجز کا سبب بنتی ہیں۔
امیر المونینؑ اصول کافی میں فرماتے ہیں کہ :
” چیزیں جو آپس میں اکھٹی ہوتی ہیں ( شادی کرتی ہیں) اور سستی اور ناتوانی اکھٹی ہوتی ہیں جس کا نتیجہ غربت اور فقر ہے”
صبر شجاعت ہے
صبر و شجاعت سے مراد انسان اللہ کی راہ میں زمانے کی تمام سختیوں پر صبر کرے اور یہی شجاعت ہے۔
وہی شجاع ہے جو بدی اور برائی کے مدمقابل کھڑا ہو۔
پیغمبر ؐ اسلام ، امیرالمونینؑ اور اصحاب (رح) کی زندگیاں ہمارے لیے نمونہ ہیں ۔ کہ دشمنان اسلام نے کتنی ہی سختیاں کیں لیکن سب نے صبر و شجاعت کا مظاہرہ کیا۔
اور شجاعت کے ساتھ اور ایمان کی استقامت کے ساتھ ان تمام مراحل سے گذرے۔
مثلاً
شعب ابی طالب کی ہجرت،ہجرت حبشہ، ہجرت مدینہ، غزوہ احد و بدر، خندق ،جنگ جمل و صفین ہر جگہ اگر غور کریں تو رسولؐ اللہ اور امیرالمونینؑ اور اصحاب نے صبر و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بلخصوص بعد از رسولؐ خدا طویل عرصہ جو گذرا اس میں امیرالمونینؑ اور ان کے باوفا اصحاب نے کتنے ہی مسائل دیکھے
رسول ؐ اللہ فرماتے ہیں
“صبر تین قسم کا ہے: ایک تو وہ صبر ہے جو مصیبت کے وقت انسان کرتا ہے” یعنی تحمل کرتا ہے اپنا ایمان جانے نہیں دیتا حالات کا مقابلہ کرتا ہے۔ اور اللہ کی اطاعت میں صبر ہے اور معصیت و گناہ کے مقابل صبر ہے۔
یعنی انسان کی عظمت اور مقام ان تین مقام پر حاصل ہوتا ہے۔
دنیا سے بے رغبتی (زہد) ثروت ہے:
زہد بے نیازی ہے۔ زاہد شخص وہ ہے جو ساری خلق خدا سے بےنیاز ہے۔ یعنی دنیاکے زرق و برق اور شہرت سے خود کو بے نیاز کرنا۔
زاہد یعنی دنیا کی چیزوں کو استعمال کرتا ہے لیکن ان سے وابستہ نہیں ہے۔ اس کا دل اور ایمان خدا ہے ۔ وہ دین ہے۔
زاہد سب سے بڑا غنی ہے۔ زاہد ہونے کے لیے امیر ہونا ضروری نہیں۔
پیغمبر ؐ اسلام، امیرالمومنینؑ سے فرماتے ہیں:
یاعلی، اللہ تعالیٰ نے تجھے ایک ایسی زینت سے آراستہ کیا ہے کہ اپنے کسی بندے کو اس سے بہتر زینت سے آراستہ نہیں کیا اور وہ زینت دنیا میں تجھے زہد سے آراستہ کیا ہے۔
ایک اور مقام پر امام صادقؑ فرماتے ہیں
” تمام نیکیاں جو کسی ایک گھر میں قرار دی جائیں تو ان کی چابی زہد ہے۔ ”
تقویٰ (پرہیزگاری) ایک بڑی سپر ہے:
“تقوی پرہیزگاری کی صفت ہے ورع عام طور پر تقوی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اصل میں یہ تقوی کہ آخری حد ہے یعنی “کمالِ تقوی” کہ انسان شروع میں صرف حرام چیزوں سے پرہیز کرتا ہے یہ تقوی کا پہلا درجہ ہے، پھر آہستہ آہستہ مکروہات سے پرہیز کرتا ہے اور یہ بلند ترین پاکیزگی کی حالت ہے جو انسان پر اس کے وجود پر آتی ہے اور اس کا سر چشمہ خدا کا خوف ہے۔
ایک جگہ رسول پاک ص فرماتے ہیں کہ! “ہر چیز کی ایک اساس ہے اور ایمان کی اساس ورع ہے”🪷 یعنی یہی بلند ترین ورع۔🪷
امیرالمونینؑ فرماتے ہیں
آپ پر واجب ہے کہ ورع والی حالت اختیار کریں۔ یہ ان مخلصین کی سیرت ہے کہ جن پر شیطان حملہ کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے۔
رضایت پروردگار بہترین ساتھیہے
ہہترین ہمنشین وہ ھے کہ جس سے انسان کے وجود کو سکون ھو آرام ھو وہ ہر قسم کے درد رنج اور مصیبت سے وہ پرسکون اور آرامش کے ساتھ تحمل کرتا ھوا مشکل سے نکلے وہ ساری چیزیں جو ھیں وہ اللہ کی قضا پر خدا کی طرف سے طے شدہ ھو اس پر راضی ھو۔بعض دفعہ انسان بہت ھاتھ پاؤں مارتا ھے بہت کوشش کرتا ھے لیکن وہ خاصا تھک جاتا ھے ،وہ رزق کے معاملے میں خاصا تھک جاتا ھے ،اولاد کے معاملے میں خاصا تھک جاتا ھے بہت ساری چیزیں جہاں ھم اپنی پوری کوشش کے باوجود بعض چیزیں حاصل نہیں کر پاتے تو وہاں خدا کی رضا اور خدا کی قضا پر راضی ھونا یہ بہترین ساتھی ھے یہ صفت جو انسان کو سکون دیتی ھے۔
البتہ یہاں ہرگز یہ معنی نہیں کہ وہاں سے نکلنے کی کوشش نہ کرے، پوری کوشش کرے لیکن اگر آپ دیکھے کہ یہ اب میری طاقت سے بات خارج ھے تو سمجھ لیں کہ یہ پروردگار کی قضا ھے۔اس نے یہ میری تقدیر میں لکھا تھا تو لہذا اب یہاں
بے تابی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ کی رضا پر راضی ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بدلے اللہ نے بہترین اجر دینا ہے۔
ایک روایت ہے
حضرت موسیٰؑ ؑ نے عرض کی کہ مجھے ایک ایسا عمل بتا کہ اگر میں اسے انجام دوں تو مجھے تیرے رضا حاصل ہو۔
تو پروردگار عالم نے فرمایا: میری رضا یہی ہےکہ تو میری قضا پر راضی ہو۔”
اور یہ تمام صفات منتظرین امام کی صفات ہیں۔
والسلام۔