عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ درس نہج البلاغہ/فتنہ و فساد ، حرص، اظہار پریشانی اور زبان کو کھلا چھوڑنے سے بچیں

n00452664-b
مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ درس نہج البلاغہ/فتنہ و فساد ، حرص، اظہار پریشانی اور زبان کو کھلا چھوڑنے سے بچیں

سلسلہ درس نہج البلاغہ تیسرا حصہ: 480حکمات (کلمات قصار)

پہلا درس
حکمت اول اور دوم
موضوع: فتنہ و فساد ، حرص، اظہار پریشانی اور زبان کو کھلا چھوڑنے سے بچیں

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

حکمت نمبر 1
قَالَ (امیر المونینؑ علیه السلام ) : کُنْ فِی الْفِتْنَةِ کَابْنِ اللَّبُونِ لَا ظَهْرٌ فَیُرْکَبَ وَ لَا ضَرْعٌ فَیُحْلَبَ .
فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جا سکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے

خلاصہ
عرب میں اونٹنی کا یہ بچہ جو حالت پرورش میں ہو اس سے کسی قسم کا استفادہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یعنی نہ تو اس پر سواری ممکن ہے اور نہ ہی اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جا سکتا ہے۔

امیرالمونینؑ نے یہ مثال اس لیے دی کہ فتنہ و فساد میں انسان کو اس طرح رہنا چاہیے کہ کوئ بھی اس سے استفادہ نہ کرسکے یعنی اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔

فتنہ و فساد وہاں ہوتا ہے جہاں دونوں طرف باطل ہو۔ اور دونوں جانب شر ہو ۔ جبکہ حق و باطل میں فتنہ و فساد نہیں ہوتا بلکہ حق و باطل قانونی جنگ ہے جس میں انسان کو چاہیے کہ حق کا ساتھ دے ۔ اور باطل کے مد مقابل کھڑا ہو۔ مثال کے طور پر: اسلامی جنگیں اور ملت کی جنگیں چاہے وہ لفظی ہو ، جسمانی ہو، ٹیکنالوجی کی ہو۔ سوشل میڈیا کی ہو۔ یا پھر محلے یا گھر کی ہو تو ہمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہیے۔

لیکن اگر دونوں جانب شر ہو، خواہشات کی پیروی ہو ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ ہو ، دونوں جانب شیطان ہو تو چاہیے کہ انسان ان ہنگاموں اور فتنوں سے دور رہے۔ تاکہ تباہ کاریوں سے بچا رہے تاکہ دونوں گروہ اس انسان کو ناکارہ سمجھیں اور اس سے کوئی استفادہ نہ کریں۔

حکمت نمبر 2

قال امیر المومنین:

اَزرَی بِنَفسِهِ مَنِ استَشعَرَ الطَّمَعَ وَرَضِیَ بِالذُّلِ مَن کَشَفَ عَن ضُرِّهِ وَهَانَت عَلَیهِ نَفسُهُ مَن اَمَّرَ عَلَیهَا لِسانَهُ
ترجمہ:
جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا، اس نے اپنے کو پست کیا۔ اور جس نے اپنی پریشانی (حاجت، ضرورت) کو آشکار کیا، وہ ذلت و خواری پر راضی ہوگیا۔ اور جس نے اپنی زبان کو خود پر حاکم بنایا، اس نے خود کو پست کیا۔
اس میں 3 موضوع ہیں
طمع:1️⃣
یعنی دیگر انسانوں کے مال میں حرص رکھنا۔ طمع مادی چیزوں میں ہوتا ہے۔
سورہ حجر میں پروردگار عالم آیت نمبر 88 میں فرماتا ہے کہ 🪶
اور تو اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھ جو ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو استعمال کے لیے دے رکھی ہیں اور ان پر غم نہ کر اور اپنے بازو ایمان والوں کے لیے جھکا دے۔

رب العزت نے منع فرمایا ہے کہ آپ کفار کے مال و دولت سے غمگین نہ ہو۔ یہ طمع ہے اور اہل ایمان کی یہ صفت نہیں یہ دنیا عارضی ہے اور پروردگار عالم اُس جہاں میں مومن کو بہت نعمات سے نوازے گا جو انسان کی خواہشات سے بڑھ کر عطا فرمائے گا اگر یہاں کمی ہے تو وہ آزمائش ہے۔

سورہ بقرہ آیت نمر 96 میں پروردگار عالم نے یہودیوں کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ🪶
اور آپ انہیں زندگی پر سب لوگوں سے زیادہ حریص پائیں گے، اور ان سے بھی جو مشرک ہیں، ہرایک ان میں سے چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار برس عمر ملے، اور اسے عمر کا ملنا عذاب سے بچانے والا نہیں، اور اللہ دیکھتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

یہودی دنیا میں حریص ترین لوگ ہیں ۔

2۔ امیرالمونینؑ اس حکمت میں پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو اپنی پریشانی بتائی تو وہ ذلت پر آمادہ ہو گیا۔

شریعت نے اس بات سے منع نہیں کیا کہ اگر انسان پریشانی میں کسی سے مدد مانگے اور وہ اس کی مدد کرے تو گویا اس نے خدا کی مدد کی۔ یہ درست ہے ۔ لیکن روایات یہ کہتی ہیں کہ اپنی مشکلات دوسروں کو بیان نہ کریں کہ وہ ایک انسان کی روحانی اور معنوی تربیت میں بہت برا اثر ڈالتی ہیں۔

انسان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ اس کے کمال کے لیے ہیں اور اگر کوئی مشکلات آتی ہیں تو اللہ کی بارگاہ میں پیش کریں اور اس سے مدد طلب کریں۔

رسول ؐ اللہ نے فرمایا
اے علی! اللہ غربت اور فقر کو اپنے بندے کے پاس بعنوان امانت رکھتا ہے۔
یعنی اگر کوئی بندہ فقیر ہے تو اس کے پاس اللہ کی امانت ہے اور اگر وہ اس فقر اور غربت کو بیان نہیں کرے گا اور دوسروں سے پوشیدہ رکھے گا تو اللہ اسے اس روزے دار جیسا اجر دے گا کہ جو دن میں روزہ رکھتا ہے اور اللہ کی عبادت کرتا ہے۔

امیر المونینؑ فرماتے ہیں کہ :
تین چیزیں جنت کے خزانوں میں سے ہیں
1۔👉 صدقے کو پوشیدہ رکھنا
2۔ 👉مصیبت کو پوشیدہ رکھنا
3۔ 👉بیماری کو پوشیدہ رکھنا۔

بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اپنی بیماری کو دوسرے لوگوں سے تین دن پوشیدہ رکھیں۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں کہ مصیبت پر صبر بذات خود ایک بہت بڑی نیکی ہے۔

امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ اللہ اس شخص پر رحمت کرے جو اپنی حاجت دوسروں کو بیان کرنے سے روکتا ہے۔
اس فرمان کے مطابق اپنی حاجت فقط اللہ کی بارگاہ میں بیان کرنی چاہیے۔ کیونکہ وہ بے نیاز کرتا ہے۔

اور امیر المونینؑ نے تو ایک مقام پر فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی کافر سے اپنی مشکلات بیان کرتا ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے کہ اس نے اللہ کی شکایت کی۔

3۔ جس نے اپنی زبان کو خود پر حاکم بنایا، اس نے خود کو پست کیا۔
سب سے زیادہ یہ زبان آخرت میں رسوا کرے گی۔
روایت میں ہے کہ روز قیامت جو انسان کی سب سے بڑی خطائیں ہیں جو موجب عذاب ہونگی وہ زبان کی ہیں۔

رسول ؐ اللہ فرماتے ہیں ” کہ آیا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے کہ لوگ اپنی زبان کی وجہ سے روز قیامت جہنم میں جائیں گے۔ ”

ایک مقام پر رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ” انسانوں کی اکثر خطائیں ان کی زبان کی وجہ سے ہیں”۔
پھر فرمایا: ” اللہ تعالیٰ انسان کے بدن میں زبان کو اتنا عذاب کرے گا کہ انسان کے بدن میں دیگر اعضا اتنا عذاب نہیں لیں گے۔ (اصول کافی)۔

امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں کہ ” ہر روز انسان کی زبان اور دیگر اعضائے بدن ایک دوسرے کا حال پوچھتے ہیں تو اعضائے بدن زبان کو کہتے ہیں کہ خدارا! تو اپنے آپ کو روک کر رکھ کہ تیری وجہ سے ہمیں بھی مصیبتیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ اے زبان تو اللہ سے ڈر ہمیں کچھ نہ کہہ کیونکہ تیری وجہ سے ہمیں اجر ملے گا یا پھر عذاب۔ ”

رسولؐ خدا فرماتے ہیں کہ انسان کے بدن میں اگر کوئی چیز نحوست رکھتی ہے تو وہ زبان ہے۔

پھر فرمایا آپؐ نے کہ بہترین صدقہ ، صدقہ زبان ہے۔ یعنی زبان کے ذریعے اچھے کام کرنا ۔ لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ۔ لوگوں کے کام نکالنا۔ مریض کی عیادت کرنا۔ پریشان کو تسلی دینا۔
نہ کہ زبان سے دوسروں کے دلوں پر زخم لگانا۔ نہ کہ صحت مند کو بیمار کرنا اور بیمار کو موت کے منہ میں پہنچانا۔ زبان سے لڑائی کے بجائے صلح کرائ جائے یہ زبان کا صدقہ ہے۔

اور بچوں کی تربیت میں بہترین تربیت زبان ہے۔
آئمہ ؑ نے مومن کی زبان کی جو خوبیاں بیان کیں ان میں تربیت گاہ زبان ہے۔
روز محشر سب سے زیادہ جہنمی وہ ہیں جن کی زبان کنٹرول نہیں تھی۔
اور منتظر امام زمانہؑ عج کا بہترین صدقہ اس کی زبان ہے۔
والسلام ۔
ترتیب و پیشکش: سعدیہ شہباز

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید