کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟ پہلی قسط
تحریر:حجت الاسلام ڈاکٹر محمود حسین حیدری مرحوم
تمہید:یہ بات واضح ہے کہ امام مہدی موعود(عج) ایک مخصوص ومعین فرد ہیں جو کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے گیارہویں امام ، حسن العسکری (ع) الخالص کے فرزند ارجمند بلافصل ہیں ، اور پندرہ (۱۵)شعبان ۲۵۵ھ یا ۲۵۶ھ کو سامراءمیں پیدا ہوئے اور ۲۶۰ھ تک اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسن عسکری (ع) سے تربیت حاصل کرتے رہے ، ایک قول کے مطابق چار ۴ سال کی عمر میں امامت وخلافت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے .
کچھ لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ اگر حضرت امام مہدی(ع) اپنے والد کے وفات کے وقت طفل تھے جن کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی ، اوروہ اس عمر میں اپنے والد سے فکری اور دینی تربیت حاصل نہیں کرسکتے تھے تو اپنی دینی فکری اور علمی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے وہ کیسے تیار ہوئے ؟؟
دوسرے لفظوں میں ” کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوسکتا ہے ؟
ہمارا جواب:
جو لوگ سوچتے ہیں کہ ایک کمسن بچے کا امامت وخلافت کے مرتبہ پر فائز ہونا صحیح نہیں ہے ، یہ لوگ اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار ہیں. وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ پیغمبر اولیاءالہیٰ اور ائمہ ہدیٰ عام لوگوں کی طرح ہیں یعنی انہیں بھی بالغ ہونا چاہئے تاکہ مقام نبوت وامامت کے لائق ہوسکیں یہ ان کی کم علمی ہے.
کیونکہ مقام نبوت وامامت کے لئے بلوغ شرط نہیں ہے ، مشاہدے کی بات ہے کہ ہزاروں لوگ اس دنیا میں بالغ ہوتے ہیں اورہوتے رہیں گے ، لیکن بالغ ہوکر بھی ایک بچے کی حدتک فہم وادراک نہیں رکھتے ادھر نہ جانے کتنے ایسے نابالغ بچے ہیں جو عقل وفراست میں کسی رشید سے کم نہیں ۔
مختصر یہ کہ بلوغ وبزرگی شرط امامت ونبوت نہیں ہے ۔ لہذا اس قسم کے استبعاد یاوہم وگمان کا راستہ باالکل مسدود ہے بلکہ قرآن مجید کی بھی مخالفت ہے .
کیونکہ قرآن مجید کی نظر میں یہ انتخاب کبھی بلوغ کے بعد یابزرگی کے زمانے میں ہوتا ہے، تو کبھی عہد طفولیت میں ، جیسا کہ حضرت عیسی(ع) نے گھوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی اور کہا:
” انّی عبداللّہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیّاً “ میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اورنبوت عطا کی ہے میں جہاں بھی رہوں گا بابرکت ہوں اور تاقیامت مجھے نماز وزکوٰة کی وصیّت کی ہے !! (مریم/30)
اس آیہ مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع)بچپنے ہی سے نبی اور صاحب کتاب تھے اسی بناپرکہ پانچ سال کے بچے کا عالم غیب سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام جیسی عظیم ذمہ داری کے لئے منصوب ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس امامت کے عہدہ برآہونے اور اپنی پوری ذمہ داری کو ادا کرنے کی الہیٰ طاقت رکھتے ہیں ۔
اسی سورہ مبارکہ کی آیت 12میں ایک اور پیغمبرخدا کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
یایحیٰ خذالکتاب بقوة وآتیناہ الحکم صبیاً و حناناً من لدنا وزکوٰة وکان تقیّاً۔
اے یحیٰ کتاب ( تورات ) مضبوطی کے ساتھ لو اورہم نے انہیں بچپنے ہی میں اپنی بارگاہ سے نبوت اور رحمدلی اور پاکیزہ گی عطا فرمائی اور وہ خود بھی پرہیز گار تھے ۔
آپ ہی فیصلہ کیجئے آخر اس میں کیا فرق ہے کہ خداوند متعال اپنے ایک بندہ کو بچپنے میں نبوت عطا کرے ، اورایک کو امامت ، علماءاوراہل سنت کے بزرگ دانشمند بھی ہماری اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ(ع) اور حضرت یحیٰ(ع) کو بچپنے میں نبوت عطا ہوسکتی ہے تو حضرت امام مہدی(ع) یادوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام کو منصب امامت کے عطا ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں اسی لئے امام مہدی(ع) کے بارے میں پانچ سالہ سن وسال میں درجہ امامت پر فائز ہونے کا صریحاً اقرار کیا ہے ۔
جاری ہے