مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات چوتھی قسط
مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات چوتھی قسط
مہدوی بچے
مکتب اہلبیت علیہم السلام میں بچوں کی تربیت پر نکات چوتھی قسط
حجت الاسلام والمسلمین استاد علی اصغر سیفی
مکتب اہل بیت کی طرف سے یہ بھی ہدایت ہے کہ بجے کو طاقت سے زیادہ ایسی تکلیف نہ دی جائے جواس پر شاق گزرے حلبی امام صادق سے اوروہ اپنے والدگرامی سے روایت کرتے ہیں :
انا نامرصبیاننابالصلاة،اذا کانو بنی خمس سنین، فمروا صبیانکم بالصلاة اذ اکانوا بنی سبع سنین۔ ونحن نامر صبیاننا بالصوم اذا کانوا بنی سبع سنین بما اطاقوا من صیام الیوم ان کان الی نصف النھار او اکثر من ذلک او اقل، فاذا غلبھم العطش والغرث افطروا حتی یتعودا الصوم و یطیقوہ، فمروا صبیانکم اذاکانوا بنی تسع سنین بالصوم ما استطاعوا من صیام الیوم، فاذا غلبھم العطش افطروا۔
حوالہ: فروع کافی ، صفحہ 409
ہم اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں نماز کاحکم دیتے ہیں اور تم اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور ہم اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں ان کی طاقت کے مطابق روزے کا حکم دیتے ہیں آدھا دن یااس سے کچھ کم یا زیادہ اوران پر پیاس یا بھوک کا غلبہ ہوجائے تو افطار کرلیں تاکہ روزے کے عادی اور اس کے متحمل ہوجائیں اور تم بھی اپنے بچوں کو نوسال کی عمر میں ان کی طاقت کے مطابق روزے کا حکم دو اور جب ان پر پیاس کا غلبہ ہوجائے تو افطار کرادو“۔
اسی دوران بہترہے کہ بچے کواس کی طاقت کے مطابق گھر کے دیگر کاموں کو انجام دینے کا حکم دیاجائے جیسے بستر کا مرتب کرنا، چیزوں کا صاف کرنا، کوڑے کرکٹ کو پھینکنا، دسترخوان پر کھانے اور برتنوں کا سجانا، گھر کے باغیچے کا خیال رکھنا اوران کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے کام جو بچے کے اندر ذمہ داری اور چستی کی روح کو بیدار اور ان میں اعتماد پیدا کرسکیں۔
علم و تعلیم کی اہمیت
تعلیم بھی بچے کا حق ہے اوریہ تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے اور علم بھی تربیت کے مثل ایک پاکیزہ وراثت ہے اور علم نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے، لیکن مال چوری وغیرہ کی وجہ سے ضائع ہوسکتاہے۔
حضرت علی فرماتے ہیں :
لاکنزانفع من العلم ۔
حوالہ: بحار الانوار جلد 1 صفحہ 165
کوئی بھی خزانہ علم سے بڑھ کرنفع بخش نہیں ہے۔
جاری ہے