تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)
(۳)مومنین کی آزمائش اور ان کا خالص کیا جانا:
پیغمبروں کی بعثت سے لیکر اب تک ایک سنت الھی لوگوں کو امتحان و آزمایش میں ڈالنا ہے جیسا کہ پروردگار قرآن مجید میں فرماتا ہے : وما کان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب (آل عمران ص ۱۷۹)
پروردگار ایسا نہیں ہے کہ مومنین کو اس حال میں کہ جیسے تم ہو چھوڑ دے (بلکہ ان کی ضرور آزمایش کرے گا) تاکہ نجس کو پاک سے جدا کیا جائے پروردگار کی آغاز دین سے یہی سنت جاری ہے اور جاری رہے گی حتی یمیز الخبیث من الطیب تاکہ وہ دنیا سے لو لگائے مادیت میں غرق ہوکر آلودہ لوگوں کو خیر و آخرت کی طرف سبقت کرنے والے پاکیزہ لوگوں سے جدا کرے۔
امام مہدی علیہ السلام کہ جنہوں نے اپنے جانثاروں کے ساتھ مل کر جہان میں ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں لانی ہیں کہ اقوام عالم کو ظلم و ستم کی زنجیروں سے آزاد کرکے جہان عدل و حق میں لانا ہے تو ضروری ہے کہ آپ اور آپ کے جانثاروں کو اتنی بڑی آزمایش غیبت اور اس زمانہ غیبت میں اسلامی وظائف ادا کرنا کا سامنا کرنا پڑے تاکہ امام زمانہ کی فوج میں شامل ہوکر اتنے بڑے امور انجام دینے کے لئے پاکیزہ لوگ تیار ہوکر آئیں ۔
ہم اگر غور کریں تو قرآن نے انتہائی شفاف انداز سے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اس سے ہم بہتر طریقے سے اس الھی سنت کو اور اس کے پس پردہ نورانی مقاصد کو سمجھ سکتے ہیں، پروردگار فرماتا ہے: و تلک الایام نداولھابین الناس ولیعلم اللہ الذین امنوا یتخذمنکم شھداء واللہ لایحب الظالمین و لیمحض اللہ الذین امنوا و یمحق الکافرین (آل عمران آیت ۱۴۰، ۱۴۱)
اور ہم تو زمانے کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں تاکہ اللہ صاحب ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمین کو پسند نہیں کرتا اور اللہ صاحبان ایمان کو چھانٹ کر الگ کرنا چاہتا ہے اور کافروں کو مٹا دینا چاہتا ہے ۔
اگرچہ ہر دن انسان کو لئے امتحان ہے، لیکن غیبت کبری کا زمانہ مومنین کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے کہ جو ا پنے امام کے عشق و بابصیرت ایمان کے ساتھ بہت بڑی عدالت کے تحقق کے لئے انتظار کررہے ہیں اور یہ حق و ایمان کے عاشقوں کو معلوم ہے کہ یہ انتظار کس قدر ھمت و حوصلہ کا کام ہے اور ایک مقام پر پروردگار فرماتا ہے: الم احسب الناس ان یقولوا امنا وھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا و لیعلمن الکاذبین (عنکبوت آیات ۱ تا ۳)
آیا لوگ سمجھتے ہیں کہ امنا و صدقنا کہنے سے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا بغیر اس کے کہ انہیں فتنوں میں آزمایا جائے ؟ ہر گز نہیں ہم نے تو پچھلی امتوں کو بھی آزمایا تھا کہ اللہ تعالی ضرور پہچان لے ان لوگوں کو جنہوں نے سچ کہا اور ضرور پہچان لے گا جھوٹے لوگوں کو۔
ایک حدیث میں صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھتے ہیں :یا رسول اللہ وللقائم من ولدک غیبتہ ؟ قال ای و ربی لیمحض اللہ الذین آمنوا و یمحق الکافرین (معجم الاحادیث الامام المھدی ص ۱۱۳)
اے رسول اللہ آیا آپ کے فرزند قائم (مہدی علیہ السلام ) کے لئے غیبت ہے ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا : ہاں پروردگار کی قسم اور یہ غیبت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اس دورانیہ میں چاہتا ہے کہ مومنین کو خالص کرے اور کافروں کو نابود کرے ،
یعنی مومنین مختلف حوادث ، مشکلات اور بے عدالتی کے گرداب میں پھنس کر جہاد کرتے ہیں اور آلودہ میلانات اور نفسانی خواہشات سے اپنے دامن کو چھڑا کر پاکیزہ ہوتے رہتے ہیں تاکہ آخر الزمان میں مصلح الھی کی ہدایت تلے انسانوں کی ظلمت بھری راہوں میں راہنمائی کا چراغ بنیں.
پروردگارا ہمیں ان مومنین میں سے قرار دے جو آزماٰئش میں خالص ایمان کے ساتھ سرافراز ہوں اور انہیں یوسف زھراء عج کی ہمراہی کا شرف حاصل ہو.آمین.
( جاری ہے…..)