گیارھواں کتابچہ ” عصر ظہور”
درس 15
امام کی سیرت کا تجزیہ
نکتہ: امام زمانہ عج کی سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المومنین ع کے مشابہ ہے۔
استاد مہدویت علامہ علی اصغر سیفی صاحب
ہماری گفتگو عصر ظہور میں سیرت امام زماں عج کے حوالے سے مختلف موضوعات اور روایات میں جاری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام زمانہؑ عج بلآخر خلیفہ ء پروردگار ہیں اور وصی رسولؐ اللہ ہیں۔ ان کی حکومت کا مقصد دنیا پر اقتدار حاصل کرنا نہیں ہے۔ مولا ؑ عج اس لیے حکومت نہیں کریں گے کہ پوری دنیا کو اپنی رعایا قرار دیں اور ان پر حکومت کریں ۔ جس طرح عام طور پردنیا کے حاکموں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ فقط حکومت کریں چاہے کسی بھی طریقے سے کیونکہ اس میں طاقت اور ان کی خواہشات کی تکمیل ہے۔
امام زماں ؑ عج کی حکومت ان حکومتوں جیسی نہیں بلکہ امام ؑ عج کی حکومت ایسی حکومت ہے جیسی رسولؐ اللہ کی حکومت تھی اور امیرالمومنین ؑ کی حکومت ہے۔
اسی لیے ضروری ہے کہ روایات کے اندر تجزیہ ہو کیونکہ ان کے اندر حق و باطل جمع ہیں ان میں کچھ روایات صحیح ہیں اور کچھ ضعیف ہیں۔
پہلی بات جو ہماری حل ہونی چاہیے کہ امامؑ عج طاقت اور اقتدار کی خاطر حکومت نہیں کریں گے۔ بلکہ امامؑ عج کا ہدف عدالت الہیہ کا اجرا کرنا ہے۔ اس امام زماں عج اپنی حکومت میں منطق اور تدبیر کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور اپنے دشمنوں کو بھی دعوت حق دیں گے اور ان کے ساتھ بھی گفتگو اور مذاکرات کریں گے۔ لیکن اگر دنیا کے ظالم، ستمگار اور شرپسند لوگ اگر کسی صورت بھی کلمہ حق سننے کے لیے تیار نہیں ہونگے تو پھر وہاں واحد علاج یہی ہے کہ ان ظالمین کو طاقت کے زور پر ان کا اصلی مقام دکھانا تاکہ باقی دنیا ان شر پسند عناصر سے محفوظ رہے۔
جیسا کہ ہم رسولؐ اللہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں اسی طرح ہم امیرالمومنینؑ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ آپؑ نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں کتنا عرصہ گفتگو کی اور انتظار کرتے رہے کہ جنگ نہ ہو اور لوگ صلح و صفائی کے ساتھ حق کی جانب آئیں۔ لیکن جب کوئی چارہ ہی نہیں ہے تو پھر حکم خدا سے جہاد ضروری ہے۔
جناب فضل ابن زبیر سے نقل ہوئی ہے جو کہتے ہیں کہ جناب زید ابن علی فرماتے تھے کہ:
وہ امامؑ عج کہ جن کا انتظار کیا جا رہا ہے وہ امام حسینؑ کی نسل سے ہیں اور یہ وہی مظلوم حسینؑ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن میں اللہ نے فرمایا:
سورہ الاسراء 33
وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْـرِفْ فِّى الْقَتْلِ ۖ
جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ جناب حسینؑ کی نسل سے یہ ولیؑ ہو گا اور اس ولی کو اللہ طاقت دے گا لیکن یہ ولیؑ لوگوں کو قتل کرنے میں اسراف نہیں کریں گے بلکہ حق و عدالت کے ساتھ اپنی حکومت کریں گے
فرماتے ہیں
بلآخر ان کا جو تسلط ہے وہ ان کی حجت اور دلیل میں ہے جسے وہ پوری مخلوق خدا پر قائم کریں گے۔ اس طرح لوگوں پر حجت تمام کریں گے کہ لوگ پھر ان پر حجت تمام نہیں کر سکتے۔ یعنی مولاؑ پھر حق کی ساری راہیں دیکھیں گے۔ دلائل کے ساتھ ، ہدایت، راہ اخلاق، لوگوں کو دعوت دیں گے۔
پس یہاں سے واضح ہو رہا ہے کہ امام مہدیؑ عج کی سیرت امیرالمومنینؑ اور پیغمبرؐ کی سیرت ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ سنی کتابوں میں ایسی روایات موجود ہیں کہ جس میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ وہ سنت محمدؐ پر چلیں گے۔ اسی طرح ہدایت دیں گے جس طرح پیغمبرؐ ہدایت دیتے تھے۔ اسی سیرت اور روش پر ہونگے۔
(کمال الدین، بحارالنوار)
جناب نعمانی نے الغیبہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ:
فرمان امام محمد باقر ؑ ہے
الغیبہ نعمانی :
بحار النوار
وہی رسولؐ اللہ کی سیرت ہے ۔ جس طرح رسولؐ اللہ تشریف لائے اور دعوت حق کا آغاز کیا تو پہلے تمام جاہلانہ رسومات کو ختم کیا۔ اسی طرح امام زماںؑ عج جب تشریف لائیں گے تو جتنی بدعتیں اور انحرافات آج اسلام کے اندر ہیں ان کو امام زماںؑ عج ختم کریں گے اور نئی بنیادوں پر یعنی اسی اسلام حقیقی کو لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔
قرآن مجید ہمارے پیغمبرؐ کو یہ فرما رہا ہے کہ آپ لوگوں کو محبت سے دعوت دیں۔ مثلاً *سورہ آل عمران آیت* 152میں ذکر ہوا۔ پیغمبرؐکی جو روش اور سیرہ ہے وہ یہی تھی کہ وہ کفار کے ساتھ نرمی اور بلند ترین اخلاق الہیٰ کو پیش کرتے تھے یعنی پیغمبرؐ کفار اور مسلمانوں میں فرق نہیں کرتے تھے اور سب کے ساتھ اخلاق اور نرمی سے پیش آتے تھے ۔ بلآخر رسولؐ اللہ کے وہی اخلاق متعالی ہے جو خدا کی جانب سے ان کو لطف حاصل ہوا تھا کہ اتنی خلق عظیم پر فائز ہوئے جس کی وجہ سے وہی کفار جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
فرماتے ہیں
کہ یہی روش اور سیرہ امام زماںؑ عج کی ہے کہ وہ بھی پیغمبرؐ کی سیرہ کی طرح کفار سے پیش آئیں گے۔
صاحب کشف الغمہء میں ہم یہ روایت بیان کی ہے اور یہ روایت بھی نبیؐ سے ہے کہ
فرماتے ہیں:
یہ جو بارہ امامؑ آئیں گے اور ان میں سے امام حسین ؑ کی نسل سے نواں میرے اہلبیتؑ سے اور میری امت کا مہدیؑ ہے اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ اپنے ظاہر شمائل و صورت اور اپنے افعال و اقوال میں مجھ سے مشابہہ ہے۔ یعنی پیغمبرؐ کی شبیہہ ہیں۔
تو نبیؐ کی حکومت اقتدار کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک خدائی حکومت تھی جس میں لوگوں کو ان کے حقوق دیئے گئے تھے تاکہ وہ دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کریں۔ اور اگر کوئی جنگ بھی تھی تو وہ جنگ اس لیے تھی کہ حقدار کو اس کا حق ملے اور کفر و شرک و باطل ختم ہو۔ یہی حکومت مہدیؑ عج ہو گی کہ پروردگار عالم ہمیں یہی حکومت دکھائے اور اس کا حصہ قرار دے۔
انشاء اللہ۔
والسلام
تحریر و پیشکش:
سعدیہ شہباز
عالمی مرکز مہدویت قم