تازہ ترین پوسٹس
کتابچه 9

کتابچہ 9 ملاقات امام زمان (عج) – تیسرا درس – ملاقات کے اثبات پر دلائل

کتابچہ 9 ملاقات امام زمان عج 
تیسرا درس 
ملاقات کے اثبات پر دلائل
حکایات
اجماع تشرفی

استادِ محترم علامہ آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:
موضوع سخن ملاقات امام زمانہؑ عج الشریف ہے کہ آیا غیبت کبریٰ کے اندر ہم امام زمانہؑ عج سے حالت بیداری میں ملاقات کر سکتے ہیں؟ اور اس بیداری میں ہم یہ جانتے ہوں کہ جس ہستی سے ہم ملاقات کر رہے ہیں یہ ہی امام ؑ وقت عج ہیں۔؟

عرض کیا تھا کہ یہ چیز اگر ثابت ہوتی ہے تو اس کے فوائد ہیں کہ امامؑ کا وجود ہر دور کے لوگوں کے لیے ثابت ہوگا اور امام ؑ عج کی ایک فعالیت بھی لوگوں کے سامنے آئے گی۔ یقیناً امام ھادیِ برحق ہیں اور امامؑ عج کی بہت ساری فعالیت مختلف موضوعات پر دنیا میں جاری و ساری ہے۔ لیکن ایک فعالیت جس پر عام طور لوگوں کی توجہ ہوتی ہے وہ لوگوں کی مشکلات کا حل ہے۔

ملاقات کے اثبات پر دلائل

پہلا مرحلہ ان لوگوں کا ہے جو دلائل دیتے ہیں کہ ملاقات ہوسکتی ہے۔

دوسرا مرحلہ  ان لوگوں کا ہے جو دلائل دیتے ہیں کہ غیبت کبریٰ میں امام زمانہؑ سے ملاقات ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔

وہ لوگ جو قائل ہیں ان کی سب سے پہلی دلیل یہ واقعات اور حکایات ہیں جو ہماری کتابوں میں نقل ہوئیں ہیں۔ اب یہاں بڑے بڑے بزرگان ہیں جیسے شیخ صدوقؒ ، شیخ طوسیؒ، شیخ مفیدؒ، محدث نوریؒ، علامہ مجلسیؒ ہیں ۔ ایسے بڑے بڑے علما ہیں کہ جن کی کتابوں میں یہ واقعات نقل ہوئے اور ہر صدی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مختلف لوگوں کی صالحین کی حتی عام لوگوں کی امام زمانہؑ عج سے ہوئیں۔

اب جو ہر دور میں اتنی ملاقاتیں ہوئی تو ہم ان سب کو جھوٹ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ایسی بات کہنا محال ہے۔ اگر یہ کوئی چند ایک واقعات ہوتے تو انسان تصور کر لیتا کہ یہ غلط ہیں لیکن ہر دور میں یہ ملاقاتیں کثرت سے لکھی گئیں ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تواتر ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک جھوٹی ہو لیکن یہ ساری کی ساری جھوٹ نہیں اور کثرت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری چیز یہ ہے کہ سند کے اعتبار سے ان میں سے بعض ملاقاتیں قوی ہیں کیونکہ ایسے لوگوں سے نقل شدہ ہیں کہ جو مرجع اور مجتہد تھے۔

اب ایک عادل مجتہد کا جب ہم فتوی قبول کر لیتے ہیں تو ہم ان کی امام زمانہؑ عج سے ملاقات کیسے جھوٹ کہہ سکتے ہیں ۔ یا صالحین پر جو مورد اعتماد تھے تو ہم اس مورد میں کیوں اعتبار نہیں کر سکتے۔

اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر علماء کرام ان ملاقات کے واقعات کو قبول کرتے ہیں۔ ہم نے کوئی ایسا عالم نہیں دیکھا کہ جو یہ کہے کہ یہ سارے واقعات غلط ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض علماء کو بعض واقعات پر اعتماد نہ ہو۔ لیکن بطور کلی وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اور جب بڑی بڑی ہستیوں کا نام ان ملاقاتوں میں آتا ہے تو پھر ہمارے علما وہاں انکار نہیں کرتے۔

تو خلاصہ یہ ہے کہ خود ان حکایات اور واقعات کا ہماری کتابوں میں وسعت کے ساتھ بیان ہونا یہ اس موضوع پر ایک اہم دلیل قرار پا سکتی ہے۔

اجماع تشرفی 
ایک دوسری دلیل جو ہمارے دینی مراکز اور حوزات کے اندر اور دینی محافل میں علماء بیان کرتے ہیں وہ اجماع تشرفی ہے۔

یعنی ہمارے بعض علماء کرام اپنی علمی یا فقہی مشکلات کے لیے امام زمانہؑ عج سے توسل کرتے ہیں اورانہیں ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے اور وہ امام ؑ عج سے سوال کرتے ہیں اور ان کو جواب ملتا ہے اور وہ اس جواب کو اپنی فقہی کتابوں میں نقل کرتے ہیں۔ اور اس کو اجماع کا عنوان دیتے ہیں۔ کہ یہ اس مسئلہ میں اجماع تشرفی ہے۔ اور یہ عنوان بتاتا ہے کہ اس ہستی کی اپنے امام زمانہؑ عج سے ملاقات ہوئی ہے۔
اجماع کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی کسی گروہ سے ملاقات ہوئی ہے۔ بلکہ امام وقتؑ عج ہیں۔

یہ اجماع ہمارے علماء کے لیے بذات خود قابل قبول ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ ہمارے بعض علماء اور مجتہدین اور مراجع امام زمانہؑ عج کی خدمت میں پہنچے ہیں لیکن یہ ایک بحث ہے۔ کہ ایک مجتہد کا امام زمانہؑ عج کی خدمت میں پہنچنا اور سوال کا جواب لینا آیا دوسرے مجتہد کے لیے بھی حجت ہے کہ نہیں یعنی کیا وہ بھی اس کے مطابق فتویٰ دے سکتا ہے یا نہیں۔

عام طور پر اس بحث کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ دوسرا مجتہد اس سنے گا لیکن اسے قبول کرے گا۔ لیکن اس کے مطابق فتویٰ نہیں دے گا۔ وہ قرآن احادیث کی رو سے دے گا یا اس کی خود ملاقات ہوئی ہو۔

اب یہاں اس بحث سے قطع نظر اس طرح کی واقعات کا ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ امام زمانہ عج سے غیبت کبریٰ میں ملاقات ہوسکتی ہے۔ اور ملاقات کرنے والے کوئی عام لوگ بھی نہیں ہوتے بسا اوقات علماء فقہاء اور مجتہدین ہیں اور اس ملاقات کے نتائج علمی اور فقہی مسائل کے جوابات ہیں جو ہماری کتابوں کے اندر بھی نقل ہوئے ہیں۔

بحث جاری ہے۔۔۔۔۔

والسلام۔

عالمی مرکز مہدویت قم​

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *