تازہ ترین پوسٹس

کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی _ درس 7

کتابچہ: 14
موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
درس 7
نکات : میرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت ،ریبر معظم کی نگاہ میں ایسے افسانوں کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہماری گفتگو کا موضوع ایک باطل مذہب قادیانیت ہے اور اس سلسلے کا آخری درس ہے۔ میرزا غلام احمد قادیانی کذاب سب سے پہلے جھوٹا مہدی اور عیسیٰ مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا پھر اس نے ختم نبوت کا انکار کیا اور اس کے بعد اسلام کے بہت سے اصولوں کو تخریب کیا۔

اور پھر نبی ہونے کا دعویٰ کیا ۔ شروع میں نبی ظلی، نبی مجازی، نبی بروزی جیسے غیر متعارف نامانوس الفاظ اور اصطلاحات اس نے لوگوں میں پیش کیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ نئی کتاب اور نبی کا دعویٰ اور نئے دین کا تعارف کرایا۔

اس کے مدمقابل عالم اسلام کے تمام شیعہ اور سنی علمائے کرام نے اس سے برائت کا اظہار کیا، اس کی تکفیر کی اور اس دین اور اس کے نظریے پر چلنے والوں کو خارج الاسلام قرار دیا۔

ظلی نبی:
کہتا ہے کہ جو کمالات پیغمبرؐ میں ظلی شکل میں موجود ہیں اور چونکہ میں انکا ظل ہوں تو وہ کمالات مجھ میں بھی موجود ہیں۔ اور چونکہ پیغمبرؐ میں یہ کمالات دیگر انبیاؑ سے آئے تھے تو یہ سب میرے اندر بھی ان کی وجہ سے منتقل ہوئے ہیں۔

نعوذ باللہ !  یعنی پیغمبرؐ کی کوئی اپنی شخصیت نہیں تھی اور انہوں نے یہ کمالات دیگر انبیاءؑ سے بطور ظلی لیے۔ اور ان سے پیغمبرؐ کی ذات میں منعکس ہوئے اور پھر اس شخص میں آتے ہیں۔ یعنی پیغمبرؐ جو گذشتہ انبیاءؑ کا آئینہ ہیں اور یہ پیغمبرؐ کا آئینہ ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب چیز ہے کہ جس کا نہ ہی دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی عقل سے کوئی تعلق ہے۔

ایک اور بڑی خرابی جو اس شخص کی وجہ سے سامنے آئی کہ اس کذاب نے حضرت عیسیٰؑ کی توہین شروع کر دی۔ حضرت عیسیٰؑ اولوالعزم پیغمبرؑ، صاحب شریعت ہیں اور دنیا کے جتنے بھی ادیان ہیں سب کے نزدیک قابل احترام ہیں اور خود اسلام میں وہ ایک قابل احترام پیغمبرؑ ہیں اور ہم ان کی نبوت کے اور صاحب انجیل اور صاحب شریعت ہونے کے قائل ہیں۔

اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہیں اور آسمان چہارم پر ہیں اور جب امام مہدیؑ عج آئیں گے تو وہ نازل ہونگے اور امام مہدیؑ عج کے ناصر بنیں گے۔

اب اس نے چونکہ جھوٹا عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو اس نے حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریمؑ کی توہین شروع کر دی۔ مثلاً براہین احمدیہ میں یہ لکھتا ہے کہ:
” عیسیٰؑ مسیح نے انجیل کو ناقص چھوڑ دیا اور آسمانوں میں جا کر بیٹھ گئے۔ ”
نعوذ باللہ!

پھر اعجاز احمدیہ کے اندر لکھتا ہے کہ:
عیسیٰؑ کی تین پیشن گوئیاں جھوٹی ثابت ہوئیں۔ اور زمین میں کون ہے جو اس جھوٹ کو درست کرے۔
نعوذ باللہ!

پھر ایک کتاب دافع البلاء میں لکھتا ہے کہ :
عیسیٰؑ اپنے زمانے میں کوئی زیادہ سچا نہیں تھا (نعوذ باللہ)
یحییٰ نبیؑ کو اس پر فضیلت تھی کیونکہ یحییٰ نبی نہ تو شراب پیتے تھے اور نہ ہی بدکار عورت کے پیسوں سے خوشبو خریدتے تھے اور نہ ہی کسی نامحرم عورت کے ہاتھوں اور بالوں سے ان کا کوئی لمس ہوا تھا۔
نعوذ باللہ!

یعنی گویا یہ کہنے کا مطلب ہے کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰؑ میں یہ چیزیں تھیں اس طرح اس شخص نے جناب عیسیٰ ؑ کی کتنی توہین کی۔ کہ جن کے بارے میں قرآن کیا کہہ رہا ہے۔
قرآن حضرت عیسیٰؑ کو ایک با برکت شخصیت قرار دے رہا ہے۔

قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ:
سورہ مریم 31
وَجَعَلَنِىْ مُبَارَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ ۖ وَاَوْصَانِىْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (31)
اور مجھے با برکت بنایا ہے جہاں کہیں ہوں، اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی ہے جب تک میں زندہ ہوں۔

قرآن گواہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی زبان مبارک سے کیا کلمات ہیں اور یہ شخص جو ہے وہ کس انداز سے حضرت عیسیٰؑ کی توہین کر رہا ہے اور وہ باتیں کہ جن کا حضرت عیسیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کسی کتاب میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے۔

اس حوالے سے مقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ خامنہ ای دام ظلہ فرماتے ہیں کہ اس نے یہ جتنے بھی افسانے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں بنائے ہیں یہ کچھ غربی لوگوں نے بنائے ہیں اور کچھ مشرق کے لوگوں نے بنائے ہیں۔ (یہاں غربی سے مراد لبرل نیٹورک اور مشرق سے مراد یہ فاسد مذاہب)

فرماتے ہیں کہ:
یہ تمام داستانیں جو حضرت عیسیٰؑ کی ولادت اور دیگر ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ جو جعلی انجیلیں بنی ہیں یہ اس کے بعد بنی ہیں اور یہ جعلی انجیلیں حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کے 100 یا 150 سال بعد وجود میں آئی ہیں۔ اصلی انجیل تو موجود ہی نہیں۔

یہ مقام عرفان ہے اور یہ وہی چیز ہے کہ جس کے اندر انسان کے تمام کمالات، تکامل اور عروج پوشیدہ ہے اور جب یہ حالت کسی بشر پر طاری ہو تو وہ اولیاء خدا کی صفت اور ان کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور ہمارے آئمہؑ اور انبیاؑء ایسے ہی تھے۔

حضرت شعیبؑ کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ خدا کے فراق میں گریہ فرماتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ
پروردگار نہ تو میں جہنم کے خوف سے روتا ہوں اور نہ ہی مجھے کوئی جنت کی دوری کا غم ہے اگر مجھے کوئی غم ہے تو وہ یہ کہ میں خود کو تجھ سے دور نہیں رکھ سکتا۔ اور اس دوری پر صبر نہیں کرسکتا۔ مجھے اپنے دیدار اور قُرب سے سرفراز فرما۔
اللہ اکبر!

خود امیرالمومنینؑ جو کہ سید العارفین اور رئیس المناجین ہیں کس طرح پروردگار سے دعائے کمیل میں مخاطب ہوتے ہیں کہ:

فَھَبْنِی یَا إلھِی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ وَرَبِّی، صَبَرْتُ عَلَی عَذابِکَ، فَکَیْفَ أَصْبِرُ عَلَی فِراقِکَ
تو اے میرے معبود میرے آقا میرے مولا اور میرے رب تو ہی بتا کہ میں تیرے عذاب پر صبر کر ہی لوں تو تجھ سے دوری پر کیسے صبر کروں گا؟
اللہ اکبر!

مولانا رومی کا فارسی میں شعر ہے۔
کہتے ہیں کہ:
دیوانہ کنی و ہر دو جہانش بخشی
دیوانہ تو دو جہاں را چہ کُند
اے پروردگارا ! تو مجھے اپنے دونوں جہان دے کر دیوانہ کر رہا ہے
جو تیرا دیوانہ ہے اسے ان دو جہانوں کی کیا ضرورت۔
کہتا ہے:
اے خدایا میں تیرے در پر کھڑا ہوں تو مجھے جنت میں نہ بھیج
میرے لیے تیرے گھر کی گلی کا آغاز (تیرا قرب) کافی ہے اور مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

یہاں پھر آیت اللہ ملکی تبریزیؒ اظہار غم کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ :

واہ حسرتَ ! اے انسان تو کہاں کھڑا ہے زندگی کے لحظات گذر رہے ہیں اور یہ چیزیں حق ہیں اور اگر تجھے یقین ہے تو کہاں کھڑا ہے یا اگر تجھے یقین نہیں تو تجھے گمان تو ہے نا لیکن پھر تو نے کیوں کچھ نہیں کیا اور کیوں تیری روح اور تیرا دل محبت دنیا میں مریض ہے۔ فقط تجھے ایک ہی فکر ہے اور امورِ دنیا ہیں۔ اور کہاں فکر آخرت اور پروردگار؟

اللہ نے تجھے اپنی معرفت اور قرب میں آنے کے لیے پیدا کیا اور تو ہے کہ کہاں چلا گیا؟

پھر وہ رسولؐ اللہ سے، آئمہؑ سے اور بلخصوص امام زمانؑ عج سے توسل کرتے ہیں اور ان کے توسل سے اللہ کا قرب مانگتے ہیں۔

بہترین توسل اور بہترین دعا یہی ہے کہ:
جو پیغمبرؐ معصومینؑ اور بلخصوص بارگاہِ امام زمانؑ عج میں جو چیز بذریعہ توسل مانگنی ہے وہ قرب پروردگار اور معرفت پروردگار ہے۔ کیونکہ جسے یہ مل جائے اسے سب کچھ مل جاتا ہے۔

جیسے سید الشہدؑا فرماتے ہیں۔
مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ؟
خداوندا! جس نے تجھے کھو دیا، اسے کیا مل گیا اور جسے تو مل گیا، اس نے کیا کھو دیا؟!

(بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳)
اللہ اکبر!

پروردگار عالم ہم سب کو محمدؐ و آل محمدؑ کے صدقے خدا کی حقیقی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین!
والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *