عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

عقائد توحید – درس 19

درس عقائد توحید
مہدی مضامین و مقالات

عقائد توحید – درس 19

توحید عملی کا معنی ، عبادت ایک بڑا جلوہ توحید عملی،عبادت کا معنی و مفہوم ،کونسا خضوع عبادت ہے؟

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:

موضوع سخن توحید پروردگار عالم ہے۔

ابھی تک ہماری گفتگو نظریہ اور عقیدہ کے اعتبار سے توحید میں تھی۔ اب ہم انسان کےافعال، عمل و اخلاق اعتبار سے توحید پر گفتگو کریں گے۔

توحید دو طرح کی ہے
ا۔ توحید نظری:
2۔ توحید عملی:

توحید نظری:
یعنی انسان کا نظریہ اس کی فکر اور اس کا عقیدہ کہ وہ اپنے تمام امور میں پروردگار عالم کو محور قرار دے ۔ اسی کو اپنا خالق ، رازق، زندہ کرنے والا ، مارنے والا اور تمام صفات کے اندر پروردگار کو ہی واحد و احد سمجھے۔ ایک دفعہ انسان اپنے اعمال میں بھی یہی خوشبو دیتا ہے اور یہی رنگ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک خدا کی عبادت کر رہا ہے ۔ اور اسی کا تابع ہے اور اسی کے احکام پر تسلیم ہے۔

توحید نظری یعنی عقیدے کی توحید اسی صورت میں مفید ہوتی ہے جب انسان کی نیتوں ارادوں اور اس کے اعمال پر اس کا اثر پڑے۔ اگر یہ ثمرہ نہ ہوتو پھر توحید نظری کا فائدہ انسان کی نجات کے حوالے سے کچھ خاص نظر نہیں آئیگا اور ہوسکتا ہے کہ ایسا انسان عملی زندگی میں مفید ثابت نہ ہو کہ جو اپنی عملی زندگی میں توحید نہ رکھتا ہے۔

اصل میں اس کی عملی زندگی کی توحید بتاتی ہے کہ وہ عقائد میں بھی موحد ہے یا نہیں۔ اگر وہ اپنے امور میں اللہ سے مدد مانگتا ہے اور اسی پر توکل رکھتا ہے ۔ اسی کا مطیع اور فرمابردار ہے اور اسی کی بتائی ہوئی شریعت پر عمل کرتا ہے اور اپنے تمام امور میں اللہ کو پیش نظر رکھتا ہے تو ایسا شخص واقعاً سچا موحد ہے۔

توحید عملی :
اس کی اہم ترین مثال عبادت میں توحید ہے۔ یعنی ہماری عملی توحید کی ہمارے امور میں مجسم شکل یہی ہے کہ ہم عبادت گذار ہیں اور خدائے یکتا کی عبادت کرتے ہیں اور اسی کو لائق عبادت سمجھتے ہیں۔

یہی توحید عملی جو عبادت میں جلوہ گر ہے ۔ یہی تمام انبیا ؑ کو بھیجنے کا فلسفہ ہے۔

سورہ نحل 36
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِىْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۖ
اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو.

تمام ادیان کا ایک ہی ہدف تھا کہ لوگوں کو پروردگار یکتا کی عبادت کی جانب متوجہ کریں۔

اب ممکن ہے کہ کوئی سوال کرےعبادت کا معنیٰ کیا ہے۔؟

عبادت عربی زبان کے لفظ ”عبد” سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے۔

عبادت یعنی خضوع یعنی کسی کے آگے حاضر ہونا جھکنا
دوسرے لفظوں میں اظہار تذلل ، یعنی کسی بڑے کے سامنے اپنے چھوٹے پن اظہار کرنا۔ یعنی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ خدائے کبیر کے سامنے اپنے حقیر ہونے کا اظہار کرنا۔

اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہستیوں کے سامنے جکھنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
۔
قرآن مجید میں سورہ اسراء 24
وَٱخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحۡمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرٗا

اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا(1) اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے.

اپنے والدین کے سامنے اپنے خضوع والے کندھے جھکائیں اور کہیں کہ پروردگارا تو ان پر ویسا ہی رحم فرما جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔

واضح ہوا کہ ہر خضوع عبادت نہیں اگر کسی کے سامنے جھکنا عبادت ہوتا تو پھر اللہ والدین کے سامنے جھکنے کا کیوں حکم دے رہا ہے۔ جیسے شاگردوں کو حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے حاضر ہوں۔

کسی کے سامنے اپنے چھوٹے پن کا اظہار کرنا محض عبادت نہیں۔

بعض نے کہا عام خضوع کرنا عبادت نہیں جو والدین اور استاد کے سامنے ہوتا ہے ۔ بلکہ خضوع کی سب سے بڑی شکل سجدہ ہے۔ اور یہ عبادت ہے۔ تو یہ معنیٰ بھی درست نہیں۔

کیونکہ قرآن مجید میں سورہ بقرہ کے اندر آیت نمبر 34 میں ملائکہ حضرت آدم ؑ کے لیے سجدہ کا حکم ہو رہا ہے۔

سورہ البقرہ 34 
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَآئِكَـةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَبٰى وَاسْتَكْبَـرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِـرِيْنَ (34)
اورجب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کہ اس نے انکار کیا اورتکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔

گویا اگر سجدہ عبادت ہوتا جو کہ خضوع کی اعلیٰ ترین شکل ہے تو پھر نعوذ باللہ ! قرآن خود لوگوں کو نعوذ باللہ! شرک کی دعوت دے رہا ہے۔

اور حضرت یوسف کے واقعے میں قرآن میں بیان ہو رہا ہے کہ:

سورہ یوسف ۔ 100
وَرَفَـعَ اَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَـهٝ سُجَّدًا ۖ
اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا اور اس کے آگے سب سجدہ میں گر پڑے۔

پس خضوع کی اعلی ٰ ترین شکل سجدہ بھی عبادت نہیں۔

تو پھر عبادت کیا ہے؟
اہم نکتہ:
عبادت خضوع ہی ہے ۔ وہ خضوع کہ جس میں انسان مدمقابل کے آگے یہ عقیدہ رکھے کہ جس کے سامنے اب میں حالت خضوع میں ہوں یہ لائق عبادت ہے اور میرا خالق ہے۔ اور یہی میری خدا ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری زندگی و موت و رزق اور گناہوں کی بخشش ہے۔ جو خود بے نیاز ہے۔

اگر مدمقابل کےسامنے انسان رکوع و سجدہ کرے تو یہ عبادت نہیں بلکہ خضوع ہے۔ اور خضوع تب عبادت ہے جب ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ مد مقابل ہمارا پروردگار ہے۔

علمائے کرام نے اسے احادیث کی رو سے بیان کیا کہ عبادت کے اندر خضوع (مدمقابل) ایسی ہستی کے لیے ہو کہ جسے آپ خدا جانتے ہیں۔

امام خمینیؒ نے اپنی کتاب کشف الاسرار میں یہی فرمایا:

کہ عبادت عربی کا لفظ ہے اور پرستش فارسی کا لفظ ہے اور یہ اس کے لیے ہوتی ہے کہ جس کو انسان بعنوان خدا جانتا ہے۔ اور اس کے لیے جسطرح کا بھی خضوع کریں گے وہ عبادت شمار ہوتا ہے۔ یعنی عمل عقیدے کے ساتھ ہو۔

علامہ طباطبائی نے سورہ الحمد کی تفسیر میں فرمایا:
عبادت کا ایک لازمہ خضوع ہے اور عبادت یہ ہے کہ اپنے آپ کو پروردگار کی مخلوق قرار دے اور خود کو اس طرح اللہ کے سامنے پیش کرے کہ سب کچھ خدا کا ہے حتی کہ میں کاملاً اس کا مملوک ہوں۔

اہل انتظار توحید نظری و توحید عملی رکھتے ہیں اور ان کی عبادت موحدانہ ہے۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید