توحید الوھیت ، الہ اور الوھیت کا معنی ، کیوں صرف اللہ عبادت کے لائق ہے، توحید نظری اور توحید عملی
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
توحید :
اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے توحید رکھتا ہے اپنے تمام اوصاف میں یکتا اور بے مثل ہے۔ وہ اس اعتبار سے یکتا ہے کہ یہ تمام صفات جو پروردگار عالم میں ہیں کسی اور پر صادق ہی نہیں ہو سکتیں۔ اور وہ اس مرتبہ پر نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہے۔
اگر اللہ کے علاوہ کسی ذات میں بھی یہ صفات ہیں تو محدود ہیں ۔ لیکن اللہ کی ذات میں لامحدود ہیں۔ کسی اور میں یہ صفات قید زمانی و مکانی میں ہیں لیکن اللہ کی ذات میں یہ صفات ہر قید سے خالی اور مطلق ہیں۔ مثلاً اللہ کریم ہے تو کوئی اللہ کی کریمی کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
اللہ خالق ہے تو اگر کوئی چیزیں ایجاد کرتا ہے تو وہ کہاں اور خدا کہاں۔
توحید الوھیت:
ایک اور صفت جو اللہ کے غیر پر اطلاق ہی نہیں کر سکتی وہ صفت الوھیت ہے۔ یعنی اللہ کا الہ ہونا ہے ۔ الہ کا مطلب معبود ہے۔
اللہ کے علاوہ کوئی معبود بن ہی نہیں سکتا حتی چھوٹے سے مرتبے میں بھی نہیں ہے۔ معبود وہ صفت ہے جو فقط ذات الہی میں ہے۔
الہ جس کو ہم اردو اور فارسی میں معنیٰ کرتے ہیں خدا۔ اور عقیدہ الوھیت میں ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ کائنات کے اندر تنہا حقیقی معبود اور تنہا وہ ذات کہ جس کی عبادت ہونی چاہیے اور جو لائق عبادت ہے وہ اللہ ہے۔
تاریخ قبل از اسلام:
اگر ہم اسلام سے قبل عربوں میں مشرکین کی تاریخ پڑھیں اور جب رسولؐ اللہ نے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دینا شروع کیا تو مشرکین کی رسولؐ اللہ سے لڑائی توحید الوھیت کے اعتبار سے تھی ۔ وہ خدا کو بطور خالق تو مانتے تھے۔
سورہ لقمان آیت نمبر 25۔
وَلَئِنْ سَاَلْتَـهُـمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّـٰهُ ۚ قُلِ الْحَـمْدُ لِلّـٰهِ ۚ بَلْ اَكْثَرُهُـمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ( 25)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، کہہ دو الحمد للہ، بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔
ان کی مشکل توحید خالقیت میں نہیں تھی بلکہ معبودیت اور تنہا لائق عبادت میں تھی۔
اسلام کا نعرہ جو بعد میں کلمہ کی شکل اختیار کر گیا۔ جسے قرآن مجید نے مختلف انداز میں پیش کیا۔ یہ لا الہ الا اللہ معبودیت کے اندر جو توحید ہے یہ اسی محور پر ہے کہ تنہا وہ ذات جو لائق عبادت ہے وہ فقط اور فقط پروردگار ہے ۔ یہ دنیا اسلام کا نعرہ ہے۔
اگر ہم سے سوال ہو کہ کیوں ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی اور ہستی پر معبودیت کا اطلاق نہیں ہو سکتا:
جواب: معبودیت اسی ذات کے لیے ہوتی ہے جو ہر جہت سے کامل ہو جس میں کوئی نقص ، کمزوری اور محدودیت نہ ہو اور وہ فقط اور فقط پروردگار ہے جو نہ صرف خود ہر جہت سے پاک ہے اس نے باقی جہانوں کو بھی بے پناہ کمالات عطا کئے اور انسانوں اور جنات کے لیے راہیں کھولیں تاکہ وہ بھی ہر نقص سے پاک ہو سکیں۔ اور اپنے آپ کو عبادت کے ذریعے ترقی اور کمال پر لا سکتے ہیں۔ جیسے انسان چاہے تو اپنے اندرعصمت پیدا کر سکتا ہے اور خود کو ہر نقص سے بچا سکتا ہے۔
وہ خدا جس نے اور مخلوقات کے لیے کمال کی راہیں کھولیں وہ خود ہر جہت سے کامل ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی ذات ہے ہی نہیں۔
پروردگار بے مثل ہے ، بے نظیر ہے، منبع کمالات ہے اور دوسروں کے لیے کمال کی راہیں کھولتا ہے۔
یْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ
وہ ذات جو لائق عبادت ہے۔ کوئی چیز اس کے مثل کی مانند نہیں۔
ہم نے اب تک جتنی بھی توحید پر گفتگو کی وہ توحید نظری ہے یعنی ہماری فکر و خیالات ، علم و معرفت اور نظریات کے اندر
جو توحید ہے
توحید تکوین
توحید تشریعی
توحید ربوبیت
توحید خالقیت
توحید حاکمیت
اور توحید الوھیت شامل ہے۔
ہماری اگلی گفتگو توحید عملی پر ہے۔
جو شخص اپنی فکر و عقائد میں موحد ہےاور اس توحید نظری و فکری میں پرورش پارہا ہے تو وہ توحید یقیناً اس کے اعمال ، نیتوں ارادوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اندر بلآخر توحیدی رنگ و خوشبو نظر آنا چاہیے جو کہ اس کے اخلاق و اعمال میں اس کا ثمرہ نظر آنا چاہیے۔
اہل انتظار اہل توحید ہیں:
احادیث میں امام زمانہؑ عج کے ناصروں کے لیے جملہ ہے کہ:
یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ کی توحید اسطرح رکھی ہے جس طرح توحید رکھنے کا حق ہے۔
ایک موحد واقعی اور منتظر جو اپنے حق توحید کو سمجھتا ہے وہ اپنے تمام تر امور اپنے خیالات و نظریات ، عمل ، اخلاق و کردار اور ہر انداز میں توحیدی رنگ و خوشبو دیتا ہے کیونکہ وہ زمانے کے سب سے بڑے موحد یعنی امام زمانہؑ عج کا موحد موالی ہے۔