توحید افعالی ، اللہ کی ربوبیت ، ربوبیت پر قرآنی دلائل ، حضرت ابراھیم ع کے مناظرے ، انسان آیا رب ہوسکتا ہے؟
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ :
اللہ کی ربوبیت :
توحید ربوبی یعنی پروردگار رب ہونے میں بھی یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ واحد و احد ہے اور اس کے علاوہ کوئی رب نہیں اور اگر دنیا میں کسی کے پاس ہمارے امور ہیں تو اللہ کے طول میں ہے عرض میں نہیں۔ اور جو طول میں ہیں وہ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کا حصہ ہیں جیسے والدین اللہ اور اولاد کے درمیان واسطہ ہیں۔
قرآنی دلائل:
سورہ یوسف :
يَا صَاحِبَىِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْـرٌ اَمِ اللّـٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39)
اے قید خانہ کے رفیقو! کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا اللہ جو زبردست ہے۔
یہ لوگ فرعون اور مختلف جانوروں کو رب مانتے تھے تو جناب یوسف ان کےاندر اللہ کی ربوبیت کو ابھارتے ہیں۔
سورہ البقرہ 258
اَلَمْ تَـرَ اِلَى الَّـذِىْ حَآجَّ اِبْـرَاهِيْمَ فِىْ رَبِّهٓ ٖ اَنْ اٰتَاهُ اللّـٰهُ الْمُلْكَۚ اِذْ قَالَ اِبْـرَاهِيْـمُ رَبِّىَ الَّـذِىْ يُحْيِىْ وَيُمِيْتُ قَالَ اَنَا اُحْيِىْ وَاُمِيْتُ ۖ قَالَ اِبْـرَاهِـيْمُ فَاِنَّ اللّـٰهَ يَاْتِىْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِـهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَـبُهِتَ الَّـذِىْ كَفَرَ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ (258)
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔
اس آیت میں ایک شخص سے مراد نمرود ہے۔ کہ وہ اپنی ربوبیت کا دعویٰ کر رہا تھا۔ نمبرود کہتا تھا کہ اللہ سب سے بڑا رب ہے اور باقی چیزیں بھی رب ہیں جن میں سے میں بھی ایک رب ہوں۔
جب ابراہیمؑ نے فرمایا کہ میرا رب زندہ کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ یہاں نمرود نے مکاری کی اور جو سزائے موت یافتہ قیدی تھا اسے آزاد کر دیا اور آزاد ہونے والے قیدی کو مار دیا اور کہا کہ دیکھا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔
حضرت ابراہیمؑ اور سارا دربار جانتا تھا یہ مکر کر رہا ہے۔ اب جناب ابراہیمؑ نے اور دلیل دی کہ میرا خدا سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور اگر تو رب ہے تو اسے مغرب سے نکال تو یہاں نمرود ہار گیا اور خاموش ہو گیا۔ اور اللہ ظالمین کو ہدایت نہیں کرتا ۔
ابراہیم ؑ نے تمام لوگوں کو ثابت کر دیا کہ نمرود کا نظام کائنات سے کوئی تعلق نہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ ان پیغمبروں میں سے ہیں جنہوں نے توحید پر بہت کام کیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کس طرح توحید کا پرچار کرتے تھے اس کو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے۔
ابراہیمؑ نے جب عام مشرکین کو دیکھا کہ کوئی چاند ، سورج اور ستاروں کی پوجا کر رہے ہیں تو ابراہیم ؑ ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور تبلیغ فرماتے ہیں۔
سورہ الانعام 78-76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَاَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هٰذَا رَبِّىْ ۖ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ (76)
پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّىْ ۖ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ يَـهْدِنِىْ رَبِّىْ لَاَكُـوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّيْنَ (77)
پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا۔
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّىْ هٰذَآ اَكْبَـرُ ۖ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ اِنِّـىْ بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُـوْنَ (78)
پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو۔
اِنِّـىْ وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّـذِىْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا ۖ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (79)
سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔
یہاں حضرت ابراہیمؑ نے واضح طور پر بتا دیا کہ اللہ کی ربوبیت ہمیشہ جاری ہے اور وہ کبھی رکتی نہیں اور جو غروب ہونے والی چیزیں ہیں ان کے ساتھ رب والی محبت نہیں ہونی چاہیے یہ سب اللہ کی مخلوق ہیں اور اس کی ربوبیت کے محتاج ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ کی ربوبیت کی ایک اور مقام پر جو بہترین دلیل دیتا ہے وہ سورہ الانبیاء آیت نمبر 22 ہے ۔
لَوْ كَانَ فِيْـهِمَآ اٰلِـهَةٌ اِلَّا اللّـٰهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللّـٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ (22)
اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو دونوں خراب ہو جاتے، سو اللہ عرش کا مالک ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔
اگر دو اللہ ہوتے تو کائنات تباہ ہو جاتی۔ اس نظام کا مالک ایک ہی ہے۔
کتاب توحید: حدیث
امام جعفر صادق ؑ سے جناب ہشام بن حکم نے اللہ کی ربوبیت پر دلیل مانگی تو امامؑ نے فرمایا:
کائنات کے نظام کا مسلسل چلنا یہ اور تخلیق کے نظام کا چلنا یہ ساری چیز اللہ کی واحدانیت کی دلیل ہے۔
ایک مقام پر امام صادقؑ ایک کافر شخص کو فرما رہے ہیں۔
جب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کائنات کا نظام ایک منظم انداز میں چل رہا ہے۔ ستارے اپنی اپنی حرکت میں ہیں اور شب و روز، سورج چاند آ جا رہے ہیں تو اس سے پتہ چل رہا ہے کہ ان کا مدبر ایک ہے ۔
معصوم فرماتے ہیں:
اگر کوئی اور خدا ہوتا تو اسکے بھی نبی اور سفیر آتے۔ اسلیے ایک ہی رب ہے۔
عالمی مرکز مہدویت قم