توحید افعالی، اللہ کی ربوبیت ، ربوبیت کا معنی ، اہل انتظار کی پہچان
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
موضوع گفتگو:
توحید پروردگار :
توحید افعالی :
توحید افعالی کی مثالیں رب العزت کی خالقیت اس کی رازقیت ، اس کی ربوبیت اور بہت سی مثالیں ہیں۔ توحید افعالی یعنی اللہ تعالیٰ جیسے اپنی ذات میں یکتا ہے اپنی صفات میں یکتا ہے وہ اپنے افعال میں بھی یکتا ہے۔
جسطرح خالقیت پروردگار کو بیان کیا گیا کہ تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور خالق موجود نہیں ہے۔ اگر ہم کوئی چیز بناتے ہیں تو اس کے دیے ہوئے ارادے اور قوت سے بناتے ہیں۔
توحید افعالی یہ بتاتی ہے کہ تمام لوگوں کے کام اللہ کے طول میں ہیں نہ کہ عرض میں ہیں۔
توحید ربوبیت:
ایک اور توحید افعالی کی مثال توحید ربوبیت ہے۔ یعنی اللہ جس طرح کائنات کا تنہا خالق ہے اسی طرح کائنات کا تنہا رب بھی ہے۔ یہاں ارباب نہیں ہیں فقط ایک ہی رب ہے ۔
رب کا لفظ ہمارے ہاں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے معنیٰ کیا ہیں:
عام طور پر رب کا لفظ اردو زبان میں جو استعمال کیا جاتا ہے وہ پروردگار ہے یعنی پرورش دینے والا۔ حالانکہ یہ معنیٰ بہت سطحی ہے اور دقیق نہیں ہے ۔ دوسرے معنوں میں درست نہیں ہے۔
رب کا عربی سے اردو یا فارسی میں ترجمہ ہوا ہی نہیں۔ اصل میں رب کا معنیٰ ہے ایسی ذات جو دوسرے پر صاحب اختیار ہو یعنی جب بھی چاہے اس کے امور میں دخل دے اور اس کے امور کا نظم و نسق یا اس کی تدبیر اس کے ہاتھ میں ہو۔
دوسرے لفظوں میں رب مالک کو کہتے ہیں ۔ ایسا حقیقی مالک جو اپنے مملوک (جو چیز اس کی ملکیت میں ہے) اس پر مطلقً مستقل اختیار رکھتا ہو۔ اور اس کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہو۔ اور اسے کبھی بھی تنہا نہ چھوڑتا ہو۔ اس کے تمام امور کا جو نظم و نسق اس کے اختیار میں ہوں۔
یعنی کائنات کا تنہا مالک اور کائنات کے امور پر تنہا صاحب اختیار اور مستقل یعنی اس کے عرض میں کوئی رب نہیں۔ فقط وہ پروردگار ہے۔
خدا کے عرض میں کوئی رب نہیں بلکہ اس کے طول میں ہیں۔ یعنی اگر والدین بچوں کے امور میں رب ہیں تو وہ اللہ کی دی ہوئ طاقت اور اسکے ارادہ اور مشیت میں ہیں۔ یعنی طولی رب موجود ہیں اس کے عرض میں نہیں ہیں۔ طولی رب سارے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور اللہ کے تابع ہیں۔
جیسے کئی ملائکہ کائنات کے امور میں مصروف ہیں ۔ اور پتہ نہیں کائنات کے کتنے ہی کام کئی ہستیوں کے سپرد ہیں۔ یا جیسے حجت خدا ہمارے کئی امور میں تصرف کرتے ہیں۔ اور انہیں انجام دیتے ہیں۔ تو وہ اللہ کے دیے ہوئے ارادے مشیت اور طاقت سے کرتے ہیں۔
تو یہ تمام چھوٹے چھوٹے رب اللہ کے طول میں ہیں عرض میں نہیں ۔ عرض یعنی اللہ کے مقابلے میں نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اس کے بنائے ہوئے نظام کا حصہ ہے۔
کائنات میں تنہا رب جو حقیقی مالک پروردگار ہے۔ اور باقی سب حقیقی مالک نہیں ہیں۔ جیسے ہم لوگ کوئی چیز خریدتے ہیں تو وہ ایک قراردادی ہے۔ جیسے انسان جب مرتا ہے تو وہ چیز کسی اور کی مالکیت ہو جاتی ہے۔ یا قابل نقل و انتقال ہے یعنی ہم کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن اللہ کی مالکیت حقیقی ہے وہ کبھی بھی اس کی مالکیت سے خارج نہیں ہے۔ وہ ازل و عبد کائنات کی تمام اشیاء کا مالک ہے اور وہ جب بھی چاہے تصرف کرسکتا ہے۔ اور وہ جس طرف چاہے ہمارے امور کو موڑ سکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ اللہ سے توفیق مانگی جائے تاکہ وہ ہمارے امور کو خیر کی طرف موڑے اور اس پر تدبیر کرے اور ہم جو گناہ کرتے ہیں وہ ہمیں تنہا نہ چھوڑے اور ہمارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اس لیے اللہ پر توکل کرنا چاہیے اور اس سے توفیق مانگنی چاہیے۔
علامہ طباطبائی صاحب تفسیر میزان بہت بڑی علمی شخصیت اپنی تفسیر میں سورہ الحمد کی آیت:
اَ لْحَـمْدُ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔
اس آیت کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ رب اس مالک کو کہتے ہیں جو اپنی ملکیت کی تدبیر اور اس کے تمام امور کی انجام دہی اس کے ہاتھ میں ہو۔ پس رب کے لفظ کے اندر ملکیت موجود ہو یعنی رب اور مالک ایک ہی ہوں ۔ اس کی مالکیت حقیقی ہو نہ کہ عارضی۔
قرآن مجید کے میں اللہ نے بہت ساری آیات کے اندر اپنی ربوبیت کو پیش کیا۔
ہمیشہ شرک اللہ کے ربوبیت میں ہوتا ہے نہ کہ خالقیت میں۔
عرب کے مشرکین ربوبیت میں شرک کرتے تھے اور سورج چاند، ستاروں، درخت، آگ، پتھر کو اپنا رب کہتے تھے اس لیے انبیاؑ آتے تھے اور انہیں ہدایت کرتے تھے کہ یہ ساری تو مخلوقات ہیں اور اصل رب وہ ہے۔
سورہ الرعد 16
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ قُلِ اللّـٰهُ ۚ
کہو آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے کہہ دو اللہ
سورہ الانعام 164
قُلْ اَغَيْـرَ اللّـٰهِ اَبْغِىْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَىْءٍ ۚ
کہہ دو کہ کیا اب میں اللہ کے سوا اورکوئی رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے۔
یعنی کائنات میں پروردگار یکتا ہے جو انسانوں اور تمام اشیاء اور موجودات کے امور اس کے ہاتھ میں ہیں۔ سب کو رزق وہی دے رہا ہے۔ اگر کوئی شئی حرکت کرتی ہے اور کائنات میں جتنی تبدیلیاں ہوتی ہے یہ شب و روز کا منظم نظام سب پروردگار عالم کی منشاء سے ہیں۔
ایک مقام پر پروردگار عالم ان مشرکین سے کہہ رہا ہے کہ:
سورہ الصافات 125-126
أَتَدْعُونَ بَعْلاً وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ
یا تم بعل کو پکارتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو
اَللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ اٰبَـآئِكُمُ الْاَوَّلِيْنَ
اللہ کو جو تمہارا رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادوں کا رب ہے۔
جتنے بھی انبیاء آئے انہوں نے رب کے موضوع پر ہی لوگوں کے مدمقابل احتجاج کیا اور حقائق کو بیان کیا اور لوگوں کے شرک و کفر کو صحیح سمت کی جانب ہدایت کر کے توحید میں بدلا۔
لوگ ہمیشہ رب کے مسئلے میں شرک کرتے ہیں۔ ہمارے اہل تشیع کے اندر بھی جو غالی طبقہ ہے وہ آئمہ کو رب سمجھتا ہے ۔ جیسے رزق و دیگر اشیاء کو آئمہؑ کی جانب نسبت دیتا ہے۔
حضرت یوسفؑ جب زندان میں تھے اور ان کے ساتھ جو دو اشخاص تھے ان کو کتنے خوبصورت انداز میں متوجہ کرتے ہیں۔
فرماتے ہیں:
سورہ یوسف 39
يَا صَاحِبَىِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْـرٌ اَمِ اللّـٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اے قید خانہ کے رفیقو! کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا اللہ جو زبردست ہے۔
یعنی ان کو بتا رہے ہیں کہ تمھارا رب فرعون نہیں بلکہ زمین و آسمان کا طاقتور خالق تمھارا رب ہے۔
ہمیشہ ربوبیت کے مسئلے میں انبیاءؑ نے کام کیا اور لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے انہیں دور کیا۔
اہل انتظار :
۔ ہمیشہ پروردگار کو ہی حقیقی رب مانتے ہیں اور تمام امور میں ہی ہمیشہ اس پر توکل کرتے ہیں۔
۔ جب ظہور ہوگا تو وہ خدائے واحد کی ربوبیت پر اعتقاد منتظرین کے سراپا سے واضح ہوگا۔
مولا علیؑ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
امام زمانہؑ عج کے منتظرین اللہ کی معرفت ایسے رکھتے ہونگے جیسے معرفت رکھنے کا حق ہے۔
۔ توحید اہل ایمان اور اہل انتظار کی اہم ترین خصوصیت ہے اور جہاں حقیقی توحید ہے وہیں ولایت بھی ہے اور زمانے کے ولیؑ کی حقیقی اطاعت بھی ہے۔
اگر انسان نے حقیقی توحید پر کام نہ کیا ہو تو پھر وہ ولایت میں بھی صحیح راہ پر نہیں ہو سکتا۔ اور ممکن ہے کہ وہ وہاں بھی منحرف ہو جائے۔ اور بدعات کرکے خود کو مولائی کہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شرک سے اور بلخصوص اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں جو لوگ شرک کرتے ہیں پروردگار عالم ہم سب کو اس شرک سے محفوظ رکھے۔ اور ہمیں پروردگار کے حقیقی موحد اور اپنے زمانے کے امام ؑ عج کے حقیقی مولائی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
عالمی مرکز مہدویت قم