آخری پوسٹیں
درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_گوھر شاہی سے آشنائی- درس10
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_درس 8_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
دروس لقاءاللہ_ اللہ کے خالص بندوں کے مقامات
کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچہ 14 _ موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ

سلسہ اخلاق منتظرین/عرفیات:حصہ دوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

استاد محترم علی اصغر سیفی صاحب

قال امام صادق ع : المؤمنُ أعظمُ حُرمَةً مِن الكعبةِ
(کتاب خصال، ج 1 ، ص 27)
مولا امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک مومن عزت و حرمت میں کعبہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

انسان معرفت رب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ وہ اپنے مطالعات بڑھائے اور دلیل سے رب کی معرفت پیدا کرے جتنی رب کی معرفت بڑھے گی اتنی عبودیت بڑھے گی اور اتنا ہی زیادہ انسان اخلاق کا پابند ہوجائے گا اور گناہوں سے بچے گا کیونکہ وہ جان جائے گا کہ بدن کو خدا کی منشا کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
ہم پر خدا کا حق یہ ہے کہ اس کا احترام کریں اور اس کے حضور ایسا عمل انجام نہ دیں کہ اس کی بے احترامی ہو، امام خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ تم ہمیشہ خدا کے محضر میں ہو پس اپنے کاموں میں اس سے شرم کرو۔

انسان کو چاہیے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے اور دوسروں کے حقوق کی حق تلفی نہ ہو حتی جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھے ہم میں سے بعض لوگ جانوروں یا حشرات کو مارنے سے خوش ہوتے ہیں حالانکہ یہ انسانی عمل نہیں ہے کسی شخص نے خدا سے دعا کی مجھے اپنے فضل سے نہیں بلکہ عدل سے پیش آ تو اسی وقت اس پر جھوٹا کیس بنا اور اس کو پھانسی ہوگئی تو جب وہ خدا کی بارگاہ میں آیا تو عرض کی یہ نا انصافی ہے مجھے ایک جھوٹے کیس کی وجہ سے پھانسی ہوگئی اور مجھے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تو خدا نے فرمایا کہ ایک دن تو نے ایک جانور یا حشرے کو بلاوجہ مارا تھا تو یہ اس طرح سے مرنا عین عدالت ہے ۔
جب تک جانور اذیت نہ دیں ان کو نہ مارا جائے اگر اذیت کا باعث ہو تو بھی مارا نہ جائے بلکہ ان کو کسی دور مقام پر چھوڑ دیا جائے لیکن اگر وہ ممکن نہ ہو تو پھر مارا جائے کیونکہ انسان کی جان اولی ہے۔
معصوم علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ یہ کیوں زہریلے جانور خدا نے پیدا کئے ہیں تو فرمایا:
کہ یہ جانور زمین کا زہر چوس لیتے ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو تم لوگ زمین سے اپنی پاک و طیب خوراک نہ حاصل کرتے ۔
پس یہ ہمارے فائدے میں ہیں ان کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ علامہ طباطبائی یا کسی اور عالم قصہ ہے کہ ان کا ایک مہمان بیان کرتا ہے کہ ایک دن میں ان کے گھر گیا تو وہاں پر ایک بچھو گھوم رہا تھا تومیں اس کا مارنے کے لئے آگے بڑھا تو علامہ نے مجھے روک دیا اور کہا کہ اس کو نہ مارو کیونکہ یہ میرے لئے اذیت کا باعث نہیں ہے۔
لیکن یہ ایک خاص حالت ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے تو ان کو مارنے کے بجائے کسی دور مقام پر چھوڑ آئیں جب جانوروں کے مقابلے میں ہمارے یہ حقوق ہیں تو انسان کے انسان پر کیا حقوق ہوں گے بعض لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں حالانکہ روایت کے مطابق مومن کا احترام کعبہ سے بڑھ کر ہے۔
اب اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ چیزیں اثر نہیں دکھا رہی ہیں مثلا بعض دفعہ ایک طالب علم جو چوبیس گھنٹے قرآن اور معصومین علیہم السلام کے کلام کو پڑھتا ہے اور اسی میں وقت گزراتا ہے مگر پھر بھی اس کی زندگی میں برکت نہیں ہوتی تو اس کی وجوہات میں ایک آپس میں ایک دوسرے کا احترام نہ کرنا ہے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا ہے۔
آیت اللہ ملکی تبریزی فرماتے ہیں کہ میں جب علوم آل محمد علیہم السلام کی تحصیل کے لیے حوزہ علمیہ نجف آیا تو وہاں میں نے آیت اللہ حسین قلی ہمدانی کی خدمت میں کسب فیض شروع کیا اور یہ وہ وقت تھا کہ نجف کے تمام طلباء روحانی طور پر بہت زیادہ مضبوط ہوتے تھے اور معروف تھا کوئی طالب علم طی الارض نہ کرتا ہو تو انگشت نما ہوتا تھا یعنی صاحب کرامات تھے۔
آیت اللہ حسین قلی ہمدانی بہت عظیم شخصیت ہیں کہ جن کے شاگرد آیت اللہ قاضی طباطبائی جیسی ہستیاں ہیں کہ جو خود ایک عظیم عارف باللہ تھے اور صاحب میزان علامہ طباطبائی اور آیت آللہ العظمی خوئی رح ان کے شاگرد تھے اور آیت اللہ خوئی بیان کرتے ہیں کہ آیت اللہ قاضی کا بیٹا فوت ہوگیا تو میں ان کے گھر میں تعزیت کے لئے داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک طرف سے گھر میں فقر و فاقہ اور اوپر سے بیٹے کا فوت ہونا سخت صدمہ ہے لیکن میرے استاد نے مجھ سے کہا کہ جب تک میں نماز شروع نہیں کرتا اس وقت تک یہ دنیا کے غم ہیں لیکن جب میں نماز میں مشغول ہوجاوں گا اور تکبیرۃ الحرام کہوں گا تو پھر مجھے ان غموں کی پرواہ نہیں ہوگی۔
آیت اللہ ملکی تبریزی فرماتے ہیں کہ کچھ عرصہ میں نے اپنے استاد سے کسب فیض کیا لیکن دیکھا کہ مجھ میں وہ کمالات پیدا نہیں ہوئے جو باقی طلباء میں موجود تھے اگرچہ میں ان کمالات کے لئے نہیں پڑھ رہا تھا لیکن فکر مند بھی تھا کہ شاید میری نیت خالصانہ نہیں ہے تو میں نے اپنے استاد سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ شاید تمہارے دل میں کسی مومن کا کینہ ہے کہ جو تمہیں آگے بڑھنے سے مانع ہے تو آیت اللہ ملکی تبریزی فرماتے ہیں کہ میں نے کافی سوچا تو یاد آیا کہ میرا اپنے ایک رشتہ دار سے کینہ ہے

اور وہ بھی حوزہ علمیہ نجف میں پڑھتا ہے، اور اس کی وجہ خاندانی جھگڑا ہے یعنی اس کا خاندان اور میرا خاندان کسی مسئلہ کی وجہ سے باہم ناراض ہیں تو ہم بھی ایک دوسرے سے ناراض ہیں تو اب کیسے اسے راضی کیا جائے کیونکہ نفس نہیں مان رہا تھا آخر ایک دن ایک مجلس کے دوران وہ شخص آیا تو میں باہر بیٹھ گیا تو جیسے ہی وہ مجلس کے اختتام کے بعد باہر نکلا تو میں نے اس کی جوتیاں سیدھی کردیں تو اس نے دیکھ کر کہا کہ ایسا نہ کریں آپ محترم شخصیت ہیں تو اس طرح ہم دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور ناراضگی بھول گئے اور جب خاندان والوں کو معلوم ہوا تو وہ بھی آپس میں راضی ہوگئے تو اس کے بعد آیت اللہ ملکی تبریزی فرماتے ہیں کہ میں روحانی طور پر ایسے مقامات پر پہنچا کہ جن کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اب یہاں توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر انسان کسی کا کینہ دل میں رکھے تو اس کے اعمال قبول نہیں ہوں گے تو جو اپنے اس کینہ کو ظاہر کردے اور دوسرے مومن کو برابھلا کہنا شروع کردے تو اس کی کیا حالت ہوگی اور جو گالیاں دینے لگ جائے تو اس کی حالت کو بیان ہی نہیں کیا جا سکتا
روایت میں ہے کہ انسان کے عمل کو ساتوں آسمان پر چیک کیا جاتا ہے اور اگر کسی مقام پر مشکل پیش آئے تو وہی عمل اس کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔
ہم اپنی بدنی بیماری کے لئے ڈاکٹر کے پاس رجوع کرتے ہیں لیکن اپنی روحی بیماریوں جیسے کینہ ،بغض ،حسد اور اسی طرح اپنی نفسیاتی بیماریوں کے لئے ڈاکٹر کے پاس رجوع نہیں کرتے اور اصلا ان کو بیماری ہی تصور ہی نہیں کرتے
بعض لوگ نفسیاتی مریض ہوجاتے ہیں ہر ایک کو تنگ کرتے ہیں منہ پھٹ بن جاتے ہیں اور لوگ ایسے لوگوں کا احترام ان کی ان کے شر سے بچنے کی وجہ سے کرنے لگ جاتے ہیں اور روایت میں بھی ہے کہ آخر الزمان میں لوگوں کا احترام ان سے ڈر و خوف کی بنا پر کیا جائے گا۔
ایسے لوگوں کو ماہر نفسیات یا روحانی طبیب کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو ان کا علاج کرے اور اس سے بہت سے معاشرتی مسائل حل ہوجائیں گے آج اس وقت بڑی بڑی شخصیات پارٹ لیڈران کیوں آپس میں مخلصانہ بیٹھ کر مسائل کو حل نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے زمانہ جوانی یا تعلیم و رشد کے دوران میں اپنی انہی بیماریوں کی طرف توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے پر راضی نہیں ہیں۔

ہماری گفتگو عرفیات میں ہے اور اس کا موضوع انسان کا ایک دوسرے پر حقوق ہیں.
ایک دوسرے کا احترام اور حق بات کو ماننا یہ سب مومن کے حقوق ہیں۔
اس حوالے سے امام کاظم علیہ السلام کی روایت پیش کرتا ہوں کہ جس میں امام فرماتے ہیں:
عَظِّمِ العالِمَ لِعِلمِهِ ‏ودَعْ مُنازَعتَهُ.
عالم کا اس کے علم کی وجہ سے احترام کرو اور اس سے منازعہ کو چھوڑ دو.
منازعہ یعنی حق کو جان لینے کے باوجود بھی نزاع کو جاری رکھنا اور ایک دوسرے کی بے ادبی اور برائی شروع کردینا بلکہ انسان اگر حق کو سمجھ آگیا تو گفتگو کو چھوڑ دینا اور دوسرے کو اپنے اوپر مقدم کرنا ہی اخلاق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس زمانے میں تھے تو وہ ایسا معاشرہ تھا کہ جس میں لوگ ایک دوسرے کو قتل کرکے فخر کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو ایسا بنا دیا کہ جنگ بدر میں وہی لوگ شدید زخمی حالت میں بھی پانی کے لئے ایک دوسرے کو اپنے اوپر مقدم کررہے تھے یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے ہمارا معجزہ یہ ہے ہم ایک دورے کے مددگار بنیں آج ہم جو بنیں گے وہی کل معاشرہ کے سامنے پیش کریں گے۔ہمارا رشد یعنی معاشرے کا رشد ہے۔
والسلام

بمقام مدرسہ الامام المنتظر عج-قم المقدس

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید