تازہ ترین پوسٹس

سلسلۂ دروسِ امامت_درسِ3_امامت، لطفِ الٰہی پر اعتراضات اور عصمت کی تشریح

درسِ امامت:3

 امامت، لطفِ الٰہی پر اعتراضات اور عصمت کی تشریح

استاد محترم: علامہ علی اصغر سیفی صاحب

موضوع: امامت، لطفِ الٰہی پر اعتراضات اور عصمت کی تشریح

اہم نکات:امامت کے لطفِ الٰہی ہونے پر اعتراضات اور ان کے جوابات،کیا امام کے تقرر میں کوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے؟،کیا خدا انسانوں پر لطف کا کوئی اور طریقہ بھی اختیار کر سکتا تھا؟،کیا امام کا وجود صرف حکومت کرنے کے لیے ضروری ہے؟،امام غائب کے ہوتے ہوئے بھی ان کا لطف کیسے جاری ہے؟،عصمت کی تشریح اور اس کی دلیل

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہماری آج کی گفتگو “امامت کے لطفِ الٰہی ہونے” پر کیے جانے والے اعتراضات اور ان کے جوابات کے گرد گھومتی ہے۔مخالفینِ نظریۂ امامت کہتے ہیں کہ اگر امامت واقعی اللہ کا لطف ہے، تو پھر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:

اگر امامت اللہ کی طرف سے لطف ہے، تو کیا اس پر کوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے؟،کیا اللہ کوئی اور طریقہ اختیار نہیں کر سکتا تھا؟،امام کا وجود کیسے لطف ہے جب کہ وہ حکومت بھی نہیں کر سکے؟ اورامام زمانہؑ غائب ہیں، تو ان کا لطف کیسے ثابت ہوگا؟

ہم انہی اعتراضات کا تفصیلی جواب دیں گے:

پہلا اعتراض: امامت میں رکاوٹ یا خرابی کا امکان

“اگر امامت واقعی اللہ کا لطف ہے، تو اس پر کوئی رکاوٹ یا خرابی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن کیا ہمیں یقین ہے کہ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں؟ شاید اللہ کے علم میں کوئی ایسا) مفسدہ (خرابی ہو، جس کی وجہ سے وہ امام کو مقرر نہ کرے؟”

جواب:علامہ حلیؒ فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض دو صورتوں میں آ سکتا ہے:

1۔ یا تو امامت کے اندر بذاتِ خود کوئی)  مفسدہ (خرابی ہو، جو اللہ کو اس کے تقرر سے روکے۔

2۔ یا پھر کوئی )خارجی (بیرونی سبب ہو، جو امامت کے نفاذ میں رکاوٹ بنے۔

پہلی صورت: اگر امامت کے اندر خود کوئی خرابی ہو

اگر امامت بذاتِ خود کوئی مفسدہ رکھتی، تو پھر اللہ حضرت ابراہیمؑ کو امام کیوں بناتا؟

قرآن میں واضح ہے کہ اللہ نے کچھ ہستیوں کو امام بنایا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ امامت میں بذاتِ خود کوئی خرابی نہیں۔

دوسری صورت: اگر کوئی بیرونی رکاوٹ ہو

اگر اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ امام بننے کے بعد کوئی شخص فاسق ہو سکتا ہے، تو ہم پہلے ہی عصمت کی شرط رکھ چکے ہیں۔امام معصوم ہوتا ہے، لہٰذا اس کے غلط راستے پر جانے کا کوئی امکان نہیں۔

نتیجہ:امامت میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا امکان نہ عقلاً ہے، نہ شرعاً، نہ تاریخی طور پر۔

دوسرا اعتراض: کیا امامت ہی لطف کا واحد راستہ ہے؟

“اگر اللہ نے انسانوں پر لطف کرنا تھا، تو کیا امام مقرر کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں تھا؟ اللہ انسانوں کو فرشتوں کی طرح معصوم بھی بنا سکتا تھا، یا ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کر دیتا جو اسے گناہ سے روکتا؟”

جواب:یہ اعتراض اللہ کے پہلے سے طے شدہ نظامِ ہدایت کے خلاف ہے۔

1۔انسان کو بااختیار بنایا گیا ہے، مجبور نہیں۔

قرآن کہتا ہے:

“اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا ” (سورۂ دہر،آیت3)

“ہم نے اسے راستہ دکھایا، اب وہ شکر گزار بنے یا انکار کرے۔”

اگر اللہ نے انسان کو جبراً نیک بنا دیا ہوتا، تو پھر آزمائش کا کوئی مقصد نہ رہتا۔

2۔ فرشتوں کو گناہ سے روکا جاتا ہے، مگر انسان کو اختیار دیا گیا ہے۔

اگر ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا جو اسے روکتا، تو پھر انسان کی آزمائش ختم ہو جاتی۔

3۔امام کا تقرر ہدایت کا بہترین ذریعہ ہے۔

انسان کو اختیار دینے کے بعد اللہ نے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا، جس میں ہدایت بھی ہو اور اختیار بھی باقی رہے۔

امام انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے، لیکن زبردستی نہیں کرتا، تاکہ ہدایت میں اخلاص باقی رہے۔

 

 

نتیجہ:امامت اللہ کے لطف کا سب سے مؤثر اور موزوں طریقہ ہے، کیونکہ اس میں اختیار بھی باقی رہتا ہے اور ہدایت بھی مکمل ہوتی ہے۔

تیسرا اعتراض: امام کا وجود لطف کیسے  ہے جب وہ حکومت  بھی  نہ کر سکے؟

“شیعہ کہتے ہیں کہ امام لوگوں کے لیے ہادی اور راہنما ہوتا ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے اکثر آئمہؑ حکومت بھی نہیں کر سکے۔ تو پھر امام کا وجود کیسے لطف بن گیا؟”

جواب:یہ اعتراض “افعالِ امام” پر ہے، جبکہ ہماری گفتگو “وجودِ امام” پر ہے۔

امام کا وجود بذاتِ خود لطف ہے، چاہے اسے حکومت کا موقع ملے یا نہ ملے۔

اگر امام کو حکومت کرنے نہ دی جائے، تو یہ لوگوں کی اپنی کوتاہی ہے، نہ کہ امام میں کمی۔

مثال کے طور پر:اللہ نے ہاتھ، آنکھیں اور زبان دی ہیں تاکہ انسان عبادت کرے۔

لیکن اگر کوئی ظالم ان ہاتھوں کو باندھ دے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے یہ نعمت دینا ہی چھوڑ دے۔

اسی طرح، اگر آئمہؑ کو حکومت نہیں ملی، تو یہ لوگوں کی غلطی ہے، نہ کہ امامت میں کمی۔

امام کو حکومت نہ ملنے کے باوجود ان کا کردار:امام باقرؑ اور امام صادقؑ نے علمِ دین کو محفوظ رکھا۔

امام علیؑ نے علم، عدل اور حکومت کا حقیقی معیار دنیا کے سامنے رکھا۔

امام حسینؑ نے شہادت کے ذریعے حق و باطل میں فرق واضح کر دیا۔

امام مہدیؑ غیبت میں ہونے کے باوجود بھی دین کی حفاظت کر رہے ہیں۔

نتیجہ:امام حکومت کا محتاج نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد ہدایت ہے، جو ہر حال میں جاری رہتی ہے۔

امام مہدیؑ غائب ہیں، تو ان کا لطف کیسے ثابت ہوگا؟

جواب:1۔حدیث میں آیا ہے:امامؑ کا وجود زمین کی بقا کا سبب ہے۔امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں:لَو بَقِيَتِ الأرضُ بِغَيْرِ إمامٍ لَسَاختْ ۔اگر امام نہ ہوں، تو زمین اہلِ زمین سمیت تباہ ہو جائے گی۔(اصول کافی ،جلد 1،صفحہ179)

2۔ امامؑ ظہور کے منتظر مؤمنین کو تربیت دے رہے ہیں۔ظہور کا وقت مخفی رکھنے سے ہر دور کے مؤمنین اپنی اصلاح کے لیے تیار رہتے ہیں۔

3۔امامؑ تصرف کر رہے ہیں، مگر عام لوگوں کو نظر نہیں آتے۔کئی علما، فقہا اور مؤمنین امام کی مدد سے مستفید ہو رہے ہیں، بس عام لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے۔جیسا کہ خود امام مہدی(عج) فرماتے ہیں:

انّا غَیْرُ مُهْمِلینَ لِمُراعاتِکُمْ، وَلا ناسینَ لِذَکْرِکُمْ، وَلَوْلا ذلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ الَّلاْواءُ وَاصْطَلَمَکُمُ الاْعْداءُ

ہم نے آپ کی دیکھ بھال اور سرپرستی میں کوئی کوتاہی یا غفلت نہیں برتی اور آپ کو فراموش نہیں کیا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مشکلات اور مصیبتیں آپ پر نازل ہوتیں اور دشمن آپ کو جڑ سے اکھاڑ دیتے۔(احتجاج طبرسی،جلد2،صفحہ323)

نتیجہ:امام غیبت میں بھی لطفِ الٰہی ہیں، اور ان کا ظہور لوگوں کی آمادگی پر منحصر ہے۔

درس کا نتیجہ:امامت میں کسی قسم کی رکاوٹ یا خرابی نہیں، اور اگر کوئی اعتراض کرے، تو وہ غیر منطقی ہے۔

اللہ نے امامت کو ہدایت کا بہترین ذریعہ بنایا، کیونکہ یہ اختیار بھی دیتا ہے اور راہ بھی دکھاتا ہے۔

اگر امام کو حکومت نہ ملی، تو یہ لوگوں کا قصور ہے، نہ کہ امامت کی کوئی کمی۔

امام مہدیؑ غیبت میں ہونے کے باوجود بھی اپنی برکات سے ہدایت فرما رہے ہیں۔

والسلام علیکم

عالمی مرکز مهدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *