تازہ ترین پوسٹس

سلسلۂ دروسِ امامت_درسِ 1_عقیدۂ امامت

درسِ امامت:1

عقیدۂ امامت

استاد محترم: آغا علی اصغر سیفی صاحب

موضوع: عقیدۂ امامت

اہم نکات:امام کی تعریف،امت میں پہلا نزاع،امام علیؑ کی امامت کا اعلان: کب اور کہاں؟،امامت کا فلسفہ،امام مہدیؑ کے ظہور اور ان کی ذمہ داریاں،اہل سنت کا موقف

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہماری گفتگو کا موضوع “بحثِ امامت” ہے۔ امامت کا تصور اسلامی عقائد میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس پر امت مسلمہ کے درمیان اولین اختلاف رونما ہوا۔ اس درس میں ہم امامت کی تعریف، اس کی ضرورت، اس پر پیدا ہونے والے اختلافات اور مختلف مکاتبِ فکر کے نظریات کا جائزہ لیں گے۔

امامت کی تعریف

اسلامی علما کے مطابق:

“امامت، پیغمبرِ اسلامؐ کی نیابت میں کسی فرد کا دینی و دنیاوی قیادت و رہبری کا منصب ہے۔”

چونکہ نبی اکرمؐ کے مختلف وظائف تھے، جیسے:وحی الٰہی کی تبلیغ،امت کی تعلیم و تربیت،عدل و انصاف کا قیام اوراسلامی حکومت کا نظم و نسق وغیرہ۔

یہ تمام امور رسول اللہؐ کے بعد بھی امت کے لیے ناگزیر تھے، لہٰذا ضرورت اس بات کی تھی کہ ایسا رہنما موجود ہو جو ان تمام فرائض کو انجام دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ امامت کا تصور سامنے آیا، جو پیغمبرؐ کے بعد دین کی حفاظت اور امت کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔

2 ۔امامت پر پہلا اختلاف

جب نبی اکرمؐ کی رحلت ہوئی تو مسلمانوں میں پہلا اختلاف “مسئلہ خلافت” پر سامنے آیا۔ایک گروہ نے سقیفہ بنی ساعدہ

میں جمع ہوکر حضرت ابوبکر کو خلیفہ مقرر کیا۔

دوسرا گروہ، جس میں کئی اکابر صحابہ موجود تھے، حضرت علیؑ کے حقِ خلافت پر متفق تھا اور نبیؐ کے واضح ارشادات کی روشنی میں امامت کو خدا کی طرف سے مقرر کردہ منصب قرار دیتا تھا۔

امام علیؑ کی امامت کا اعلان

رسول اکرمؐ نے کئی مواقع پر حضرت علیؑ کی امامت کا اعلان فرمایا:

1۔ دعوتِ ذوالعشیرہ: جب رسول اللہؐ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی اور حضرت علیؑ کو اپنا وصی اور جانشین مقرر کیا۔

2۔. حدیثِ منزلت:” علیؑ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”

3۔ واقعۂ غدیر خم: جہاں رسول اکرمؐ نے فرمایا:

(من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ” (جس کا میں مولا ہوں، اس کے علیؑ بھی مولا ہیں ”

اس کے بعد صحابہ نے حضرت علیؑ کی بیعت کی۔

اہل تشیع کے مطابق، یہ اعلانات واضح طور پر حضرت علیؑ کی امامت کو ثابت کرتے ہیں، جبکہ اہل سنت اس کی مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں۔

4۔اہل سنت اور اہل تشیع کے نظریات

اہل سنت کا موقف:

اہل سنت کے ہاں خلافت ایک اجتماعی معاملہ ہے، جس کا انتخاب امت کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے ہاں خلافت کے انتخاب کے کئی طریقے رائج رہے:

شوریٰ کے ذریعے انتخاب

گزشتہ خلیفہ کا نامزد کرنا

طاقت کے زور پر قبضہ کرنا

 

ان کے ہاں یہ اصول بھی موجود ہے کہ اگر کوئی شخص طاقت کے ذریعے حکومت پر قابض ہو جائے، تو بھی وہ اولی الامر ہوگا اور اس کی اطاعت لازم ہوگی، چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔

اہل تشیع کا نظریہ:

شیعہ امامیہ کا موقف یہ ہے کہ:

جس طرح نبوت کا تعین اللہ کرتا ہے، اسی طرح امامت بھی خدا کی طرف سے مقرر کی جاتی ہے۔

پیغمبر اکرمؐ نے واضح طور پر اپنی حیاتِ مبارکہ میں حضرت علیؑ اور ان کے بعد آنے والے آئمہؑ کی نشاندہی کی۔

امامت نہ صرف دینی قیادت بلکہ الٰہی ولایت کا تسلسل بھی ہے، جو قیامت تک جاری رہے گا۔

5۔امام مہدیؑ کا ظہور اور ان کی ذمہ داریاں

اسلامی عقیدہ کے مطابق، امام مہدیؑ آخری حجتِ خدا ہیں، جو ایک وقت مقررہ پر ظہور فرمائیں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔

امام مہدیؑ کے اقدامات:دینِ اسلام کی اصل صورت کو بحال کرنا،بدعتوں اور انحرافات کا خاتمہ،تمام فرقوں کو حقیقی اسلام کے تحت یکجا کرنا،ظلم و فساد کے خلاف عالمی جنگ،عدل و انصاف کا قیام اور اسلامی حکومت کا نفاذ

روایات کے مطابق:نبی اکرمؐ کی جنگیں مشرکین اور کفار سے تھیں، مگر امام مہدیؑ کی جنگ منافقین سے ہوگی۔

بعض روایات میں ذکر ہے کہ منافقین میں شیعہ گروہ بھی شامل ہوں گے، جو امامؑ کے خلاف کھڑے ہوں گے۔

امام مہدیؑ دینِ اسلام کی اصلی تعلیمات کو نافذ کریں گے اور دنیا کو حقیقی اسلام سے روشناس کرائیں گے۔

6۔امامت کی ضرورت: ایک عقلی و شرعی بحث

اہم سوالات:

1۔ کیا اسلامی معاشرے میں امام کی ضرورت ہے؟

2۔ کیا انسانوں کے لیے کسی حاکم کا ہونا لازمی ہے؟

3۔ یہ ضرورت ہر زمانے میں ہے یا مخصوص اوقات میں؟

4۔یہ ضرورت شرعی ہے یا عقلی؟

5۔اگر امام کا ہونا ضروری ہے، تو اسے مقرر کرنا خدا کا کام ہے یا انسانوں کا؟

 

مختلف مکاتبِ فکر کی آراء

خوارج کا نظریہ:

خوارج، جو امیرالمومنینؑ کے دور میں ایک الگ فرقے کی شکل میں ابھرے، کہتے تھے کہ “ہمارے لیے اللہ کافی ہے، ہمیں کسی امام یا خلیفہ کی ضرورت نہیں۔”ان کے مطابق، قرآن و حدیث کی روشنی میں ہر شخص اپنی راہ خود متعین کرے۔لیکن عملی طور پر خوارج نے بھی اپنے گروہ میں کسی نہ کسی کو قائد مقرر کیا، جو ان کے نظریے کی عملی تردید کرتا ہے۔

اہل سنت کا نظریہ:

اہل سنت کے بعض مکاتب جیسے اشاعرہ اور اہل حدیث کے مطابق، امامت کا معاملہ امت کے سپرد ہے اور اولی الامر میں کوئی بھی شامل ہوسکتا ہے، خواہ وہ طاقت کے زور پر قابض ہی کیوں نہ ہو۔

معتزلہ کا کہنا ہے کہ امام کی ضرورت عقلی طور پر ہے، لیکن اسے منتخب کرنے کا اختیار عوام کو ہے۔

شیعہ امامیہ کا نظریہ:

شیعہ عقیدہ کے مطابق، امام کا تقرر خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور نبی اکرمؐ نے واضح طور پر اپنے جانشین کا اعلان فرمایا تھا۔امام دین کی حفاظت، شریعت کی تشریح، اخلاقی تربیت، اور عدل و انصاف کے قیام کے ضامن ہوتے ہیں۔

نتیجہ:

امامت کا عقیدہ اسلام میں ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

امتِ مسلمہ میں پہلا اختلاف اسی مسئلے پر پیدا ہوا۔

اہل سنت اور اہل تشیع کا نقطۂ نظر مختلف ہے، جہاں اہل سنت خلافت کو عوام کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں، جبکہ شیعہ اسے خدائی منصب مانتے ہیں۔

امام مہدیؑ کے ظہور کے بعد، تمام فرقے ختم ہو جائیں گے اور حقیقی اسلام دنیا پر غالب ہوگا۔

والسلام علیکم

عالمی مرکز مهدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *