مقبول ترین
درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_گوھر شاہی سے آشنائی- درس10
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_درس 8_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
دروس لقاءاللہ_ اللہ کے خالص بندوں کے مقامات
کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچہ 14 _ موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
سلسلہ دروس لقاء الله

سلسلہ دروس کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک) – درس اول (دوسرا حصہ)

سلسلہ دروس کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)

( آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)

درس اول (دوسرا حصہ)
موضوع: میرزا جواد تبریزی رح کی سیرت طیبہ سے کچھ گوشے

استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کی سیرت طیبہ سے کچھ گوشے۔:

سید احمد فہری لکھتے ہیں کہ یہ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے لیے آئمہ ؑ کے فرامین ہیں کہ:
امام صادقؑ ع نے جو ایک فقیہ کی چار صفات لکھیں۔
1۔ اپنے نفس کو بچاتا ہو
2۔ اپنے دین کا محافظ ہو
3۔ اپنی خواہشات کا مخالف ہو
4 ۔ اپنے مولا ؑ کے امر کا مطیع ہو

ان چار صفات کا بہترین مصداق اور اس کی مجسم تصویر یہ عظیم شخصیت ہیں۔

یہ وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اپنی عین شباب جوانی میں فقاہت کے میدان میں قدم رکھا اور جوانی کے عالم میں ایک فقیہ ، عارف اور پاکیزہ زندگی گذاری۔ سبحان اللہ!
علمی و روحانی سفر
نجف کے اساتذہ
آپ کو عظیم ہستیوں سے کسب فیض کا موقعہ ملا مثلا فقہ میں آیت اللہ فقیہ محقق حاج آغا رضا ھمدانی رح ، اصول میں علامہ مدقق استاد الاساتذہ مرحوم آغا محمد کاظم آخوند خراسانی رح اورعرفان، اخلاق اور سیرو سلوک میں صاحب مقامات و کرامات مرحوم آخوند ملا حسینقلی همدانی رضوان اللہ علیہ اجمعین تھے۔

آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے عالم جوانی میں فقہ کی کتاب لکھی اور اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ 1312 ھ ج میں آپ عین شباب جوانی میں نجف مقیم تھے۔
ایران کی طرف سفر اور شاگردوں کی تربیت و تہذیب نفس
پھر آپ 1321 ھجری میں ایران تشریف لائے اور اپنے آبائی وطن تبریز پہنچے اور وہاں علوم آل محمدؑ کی ترویج اور لوگوں کی تربیت و تہذیب پر انہوں نے کام شروع کیا لیکن اسوقت ایران میں سیاسی حالات خراب تھے اور 1329 میں جب مشروطہ دور میں تبریز کے حالات خراب ہوئے تو *قم* کی طرف انہوں نے ہجرت کی اور قم کے اندر ایسے شاگرد جو علم کے ساتھ سیر و سلوک چاہتے تھے ان کی تربیت میں مشغول ہوگئے۔
حوزہ علمیہ قم کی تشکیل
پھر اسی زمانے میں 1340 ھجری میں ایک بہت بڑی ہستی آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدؒی قم تشریف لائے تو اس زمانے میں مرحوم علامہ مجاہد حاج شیخ محمد تقیؒ بافقی جو کہ میرزا تبریزی کے دوستوں میں سے تھے انہوں نے استخارہ کیا اور مرحوم عبدالکریم حائری کو اصرار کیا کہ وہ حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھیں اور یہیں رہ جائیں۔
استخارہ بہت اچھا آیا اور مرحوم عبدالکریم حائری ؒ نے قم ہجرت کی۔ یہاں علما جمع ہونے شروع ہو گئے اور اسی دوران مرحوم عالم زاہد متقی حاج شیخ عباس تہرانی نے بھی قم کی جانب ہجرت کی اور یوں یہ علم و اخلاق وتہذیب کی تمام شخصیات ایک جگہ جمع ہوئیں اور طلاب جو علم و تربیت و سیر و سلوک کے تشنہ تھے سب یہاں جمع ہونے شروع ہو گئے۔
تدریس و تربیت
آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کا اس زمانے میں ایک درس تھا کہ جس کا نام تھا:

مفاتیح مرحوم فیض :
یہ فقہ پر درس تھا۔
اور اس کے علاوہ آپ کے دو درس اخلاق تھے۔ ایک خاص لوگوں کے لیے تھا جو آپ کے گھر میں ہوتا تھا اور ایک عمومی درس اخلاق تھا جو مدرسہ فیضیہ ، حرم بی بی معصومہؑ قم سے متصل ایک مدرسہ تھا۔ وہاں آپ اہل قم کو یہ درس دیتے تھے۔ اور پھر اسی حرم مبارک کے اندر مسجد بالاسر میں نماز جماعت بھی انجام دیا کرتے تھے۔

اسی دور میں امام خمینیؒ ، آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کا خاص درس جو ان کے گھر پر ہوتا تھا اس میں حاضر ہوتے تھے ۔
سیرت طیبہ کے کچھ گوشے
اس عظیم عارف کی بہت ساری خصوصیات ہیں جس کا خلاصہ چند ایک واقعات کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کتاب کس بابرکت ہستی کی تحریر ہے۔:

سید احمد فہری لکھتے ہیں کہ میرا ایک دوست تھا سرہنگ محمود مجتہدی انہوں نے آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کے دور کو پایا تھا وہ ان کی خدمت میں رہے اور ان کے دروس سے استفادہ کیا۔
بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے استاد محترم آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزؒی کے ساتھ مدرسہ فیضیہ میں عمومی درس ختم ہونے کے بعد مدرسہ دارالشفاء میں گیا۔ اور وہاں ہم ایک طالب علم کے کمرے میں گئے اور وہاں کچھ دیر بیٹھے، آپ نے اس سے محبت و شفقت کی اور معمول کے مطابق گفتگو کی اور پھر آیت اللہ ملکی گھر تشریف لےگئے تو میں نے ان سے راستے میں پوچھا کہ قبلہ محترم آپ نے یہ جو اس طالب علم کا دیدار فرمایا ہے تو اس کی وجہ کیا تھی۔
تو آیت اللہ تبریزیؒ نے فرمایا کہ گذشتہ شب جب میں نماز شب کے لیے بیدار ہوا تو مجھ پر کچھ نورانی فیوض آئے تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ خود میرے کسی عمل کا حصہ نہیں ہیں۔ جب میں نے توجہ کی تو میں نے دیکھا کہ یہ طالب علم جس سے میں مل کر آرہا ہوں یہ نماز شب کے لیے بیدار ہے اور میرے لیے تہجد میں دعا کر رہا ہے۔ اور یہ جو نورانی فیض مجھے مل رہا ہے اس کی دعا کے اثر سے ہے۔ اسی لیے آج میں ان کا شکریہ، زیارت اور دیدار کے لیے گیا تھا۔
سبحان اللہ!

2 ۔ 
محروم حجت الاسلام سید محمود یزدیؒ جو کہ آیت اللہ ملکی تبریزی کے دفتر میں بیٹھتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مجھے یاد ہے کہ جب استاد محترم آیت اللہ ملکی تبریزی تہجد کے لیے اٹھتے تھے تو وہ مجھے وہ منظر یاد ہے کہ جب اپنے بستر پر ان کی تہجد کے لیے آنکھ کھلتی تھی تو سب سے پہلے وہ بستر سے اٹھنے کے آداب کا اجراء کرتے تھے۔

وہ اٹھ کر پہلے بارگاہ خداوندی میں سجدہ کرتے تھے پھر دعا کرتے تھے اور یہ سارا کچھ گریہ کی حالت میں کرتے تھے۔ پھر وہ اپنے گھر کے صحن میں آتے تھے اور آسمان کی جانب دیکھتے تھے اور پھر یہی آیات

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔  کی تلاوت کرتے تھے

جیسا کہ روایات میں بھی ہے کہ انسان جب بستر سے اٹھے اور صحن میں آئے تو ان آیات کی تلاوت کرے ۔ پھر اپنا سر گھر کی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر گریہ کرتے تھے اور پھر وضو کرنے کے لیے آمادہ ہوتے تھے اور پھر صحن میں ایک حوض تھا اس کے پاس بیٹھتے تھے اور وضو سے پہلے اللہ کو یاد فرماتے اور گریہ کرتے۔ اور پھر وضو کرتے اور پھر جب مصلہ نماز پر تشریف لاتے تو پھر ان کی حالت متغیر ہو جاتی ۔ بہت منقلب ہوتے اور اپنی نماز میں بالخصوص قنوت کی حالت میں بہت طولانی گریہ فرماتے۔

ان کے گریہ کی وجہ سے لوگ کہتے تھے کہ وہ اس زمانے میں اللہ کی بارگاہ میں گریہ کرنے والوں میں سے ہیں۔ بکائین عصر
سبحان اللہ!

3 ۔ 
آپ ؒ کا ایک چھوٹا بیٹا تھا جس سے آپؒ کو اور تمام کنبہ کو بہت محبت تھی ایک مرتبہ عید غدیر
پر قبلہ کے گھر میں ان کی زیارت کے لیے مہمان آئے ہوئے تھے۔ تو آپ نے سب کے لیے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا اور عید غدیر کے جشن کے بعد سب مہمان کھانے کے لیے بیٹھےہوئے تھے تو اسی دوران آپ کا بیٹا کھیلتا ہوا آیا حوض کی طرف آیا ۔ یہ تقدیر تھی کہ وہ کس طریقے سے گرا اور باہر نہ آسکا اور بلآخر وہ فوت ہو گیا۔ جب گھر کی خادمہ حوض کے قریب آئی تو اس کی چیخ نکل گئی اور جب ان کی زوجہ محترمہ کمرے سے باہر آئیں اور حوض کے قریب پہنچیں تو وہ بھی غم سے نڈھال ہوگئیں اور حرم سے جب آیت اللہ ملکی تبریزی کو رونے کی آوازیں آئیں تو آپ وہاں داخل ہوئے اور جب دیکھا کہ بیٹے کا جنازہ حوض کے پاس پڑا ہوا ہے تو آپ نے فقط یہی کہا ” *ساکت* ” اتنا کہنا تھا کہ سب خواتین خاموش ہو گئیں اور سب کے گریہ ختم ہوگئے۔

پھر آغا واپس پلٹے اور اپنے مہمانوں کی میزبانی انجام دی اور پھر جب کھانے کے بعد سب مہمان چلے گئے تو خاص چند لوگوں کو آغا نے اشارہ فرمایا کہ آپ لوگ رک جائیں۔ کہ مجھے آپ سے کام ہے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جشن غدیر کا دن تھا اور آپؒ لوگوں کی خوشیوں کو اپنے بیٹے کی وفات سے خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔

جب سب چلے گئے اور خاص لوگ رہ گئے تو انہیں بتایا کہ میرا بیٹا فوت ہو گیا ہے میری مدد فرمائیں بلآخر اسے غسل وکفن دینا ہے اسے دفن کرنا ہے۔ اور یوں یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا پروردگار عالم کی بارگاہ میں کتنا بڑا مقام رضا و تسلیم تھا۔
سبحان اللہ !

اللہ نے انہیں روحی اعتبار سے طاقت دی تھی اور ان کو لوگوں کے نفوس میں تصرف کی کتنی طاقت تھی۔ کہ جب آپ نے فرمایا ساکت تو تمام خواتین کا گریہ رک گیا اور چہرے سے ہرگز ظاہر نہ ہونے دیا کہ گھر میں بیٹے کی موت ہے۔

4 ۔
آخری واقعہ جس کے راوی بہت بڑے زاہد و عابد آغا حسین فاطمی قمی ہیں جو کہ مرحوم ملکی تبریزی کے دوستوں میں سے ہیں۔

کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ مسجد جمکران سے پلٹا جب گھر آیا تو مجھے بتایا گیا کہ آغا مجھے بلا رہے ہیں اور جیسا کہ مجھے معلوم تھا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے تو میں فوراً آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔

عصر جمعہ تھی میں نے دیکھا کہ آیت اللہ ملکی تبریزی نے غسل کیا اور خصاب بھی لگایا ہوا ہے۔ اور بہت ہی پاک و پاکیزہ اور خوشبودار ہو کر بستر بیماری پر لیٹے ہوئے ہیں۔ اور نماز ظہر و عصر پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ادائیگی کے لیے تیار ہو رہے ہیں اور آغا نے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے آذان و اقامت کہی۔ اور پھر تکبیرات افتتاحیہ پڑھیں۔ اور جب تکبیرۃ الاحرام کہا ” اللہ اکبر” بس جب یہ کہا تو آپ کے بدن اقدس سے ان کی روح پرواز کر گئی۔

سبحان اللہ۔

یعنی اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ ان کی روح اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ یہ وہ نماز ہے کہ جسے کہتے ہیں الصلواۃ معراج المومن۔

سبحان اللہ۔

جیسا کہ روایت میں ہے کہ جب انسان کہتا ہے قد قامت الصلواۃ۔ یعنی اب اپنے رب کا وقت دیدار ہے آ پہنچو۔

1343 ھجری میں آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح کی وفات ہوئی۔

اس مقدس عظیم ہستی کا قم میں بہت بڑا تشییع جنازہ ہوا اور حرم اقدس کے ساتھ موجود قبرستان شیخان میں آغا کو دفن کیا گیا۔ اور آپ کی وفات کے حوالے سے لکھا گیا کہ

علم حلم کا سمندر چلا گیا ۔

پروردگار ہم سب کو اس عظیم ہستی کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین!
والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم۔

دیدگاهتان را بنویسید