سلسلہ دروس انتظار – درس 6
سلسلہ دروس انتظار – درس 6
موضوع: منتظر کا روحانی پہلو، روحانی پہلو میں مضبوط کیسے ہو ، خود اعتمادی ، ذکر ، راستے کی مکمل شناخت ، تقوی ،خدا سے گہرا تعلق، تمرین
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
موضوع سخن: انتظار کے پہلو
امام زمانہؑ عج کا انتظار ہماری زندگی کی کئی جہات کو شامل ہے ۔ ہم فکری طور پر بھی مولاؑ کا انتظار کریں اور اپنی فکری استعداد اور صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ اور اس کے لیے ہم امام ؑ کے حوالے سے اپنا مطالعہ زیادہ کریں اور اس میں جو سمجھنے والی باتیں ہیں ان کو سمجھیں اور جہاں شبہات و اعتراضات ہیں ان کو ماہرین کے ساتھ مل کر حل کریں۔ تاکہ ہم مولاؑ کے حوالے سے ایک فکری مدافع اور ایک فکری ناصر قرار پائیں۔
روحانی پہلو:
مولاؑ کے انتظار کا ایک اہم پہلو روحانی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امام ؑ کے زمانہ غیبت میں ناصر بنیں تو ہمیں روحانی طور پر بہت مضبوط ہونا پڑے گا۔
زمانہ غیبت کے اندر ایک منتظر پر دو مشکل وقت ہیں ۔
1۔ شیطان اور نفس امارہ کا حملہ۔
جب شیطان اور نفس امارہ دونوں منتظر پت حملہ آور ہوتے ہیں تو اسے راہ راست سےہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اس وقت وہ کمزور نہیں پڑنا چاہیے اور اس وقت کے لیے دعائے معرفت کی بہت زیادہ تاکید ہے۔
مولا رضاؑ کے پاس جب بھی کوئی زائر آتا تھا تو امامؑ اسے اسی دعائے غریق یعنی دعائے معرفت کی تلقین فرماتے تھے۔
ہماری روحانیت کا پتہ گناہ کے وقت چلتا ہے۔
2۔ مشکلاتِ زندگی:
جب مشکلات زندگی میں آتی ہیں۔ اس وقت ہمیں اپنی روحانیت کا پتہ چلتا ہے کہ ہم کس معیار پر ہیں۔ اس وقت صبر و توکل کے ساتھ مشکلات کا سامنا کریں اور انکو حل کرنے کی کوشش جاری رکھیں
دونوں اعتبار سے روحانی پہلو کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم علمائے کرام کی راہنمائی لیں اور محمدؐ و آل محمدؑ کی احادیث سے جو طریقہ و راہ و روش بتائی گئی ہے ہم اس طرح سے قدم بڑھائیں۔ اور اپنے آپ کو گناہوں سے بھی بچائیں۔ اور اپنی دعاؤں، قرآن اور عبادات کے ذریعے پروردگار کی بارگاہ سے منسلک رہیں۔
دعائے معرفت
اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِیَّکَ اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ، فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَک اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِینِی۔
اے معبود تو مجھے اپنی معرفت عطا کر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کو نہ پہچان پاؤ نگا اے معبود مجھے اپنے رسول کی معرفت عطاکر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی تو میں تیری حجت (ع)کو نہ پہچان پاؤنگا اے معبود مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمرا ہ ہو جاؤں گا۔
دعائے معرفت کی زمانہ غیبت میں بہت زیادہ تاکید ہے کیونکہ یہ روحانی اعتبار سے انسان کو مستحکم کرتی ہیں کیونکہ اس میں انسان اللہ سے تین معرفتیں مانگتا ہے اور پھر وہ دین میں ثابت قدمی کی دعا مانگتا ہے اور یہ وہی روحانی طاقتیں ہیں۔
اگر ہم اس روحانی پہلو کو تھوڑا سا وسعت کے ساتھ دیکھیں تو چند نکتہ کی شکل میں بیان ہو سکتا ہے۔
پہلا نکتہ:
خود اعتمادی:
ہمارے اندر خود اعتمادی ہو۔ چونکہ ہم نے ایک لمبی راہ طے کرنی ہے تو اس کے لیے ہمارے اندر کافی ہمت ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد بھی ہونا چاہیے۔ اگر ہم میں یہ اعتماد نہیں تو اسے پیدا کرنا چاہیے۔ اور ہمیں چاہیے کہ موضوع مھدویت کو پڑھیں۔ اور جو کچھ ایک منتظر کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ ایک منتظر نے کون سی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں وہ پڑھے اور ایک منتظر کے دنیا و آخرت کے ثواب کو پڑھے کہ بلآخر یہ اعتماد پیدا ہو کہ میں یہ کر سکتا ہوں اور میں نے یہ سب کچھ حاصل کرنا ہے۔
ہماری روایات میں کہا گیا ہے کہ انسان کی پہچان اور قدر و قیمت اس کی ہمت پر ہے اور ہمت انسان کے اندر علمی اور نفسیاتی نیز عملی ہر اعتبار سے ہونی چاہیے۔ وہ خدا پر توکل کرے اور کسی چیز سے نہ گھبرائے اور آگے بڑھے۔
دوسرا نکتہ:
ذکر کی عظمت
دوسری چیز یہ ہے انسان اپنی عبادات اور ذکر و مناجات سے وابستہ رہے۔ جیسے زیارت امام زمانہ ؑ عج
- دعائے عہد
- زیارت آل یاسین
- دعائے ندبہ
- دعائے معرفت
- دعائے سلامتی
- دعائے ظہور
ان تمام دعاؤں کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور اول وقت میں نماز اور عبادات کو انجام دے۔
یہ چیز اس کے اندر یہ ہمت لائے گی اور اسے روحانی طور پر مضبوط کرے گی۔
تیسرا نکتہ:
اپنے راستے کا معلوم ہونا:
تیسری چیز یہ ہے کہ اسے اپنے راستے کا معلوم ہو۔ کہ میں کس جانب جا رہا ہوں۔ میرا راستہ نصرت و انتظار کا راستہ ہے۔ اس کے اندر کیا رکاوٹیں ہیں اور ان کا کیا حل ہے۔
چوتھا نکتہ :
تقوٰی کی رعایت:
ایک منتظر اگر روحانی طور پر مضبوط ہونا چاہتا ہے تو وہ تقویٰ کی رعایت کرے ۔ وہ حلال و حرام کو مدنظر رکھے۔ حلال انجام لائے اور حرام سے مکمل پرہیز کرے۔
قرآن مجید متقین کے حوالے سے کہتا ہے۔
سورہ دخان 57
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ مَقَامٍ اَمِیْنٍۙ
بےشک ڈر والے امان کی جگہ میں ہیں
اگر کوئی شخص تقوٰی کے مقام پر پہنچ جائے تو پھر وہ مقام امن میں آ جاتا ہے یعنی محفوظ ہو جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر پروردگار عالم فرماتا ہے۔
سورہ الطلاق 2
مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ( ۲)
اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا۔
یعنی جو شخص اللہ کی راہ میں تقویٰ اختیار کرتا ہے تو پروردگار عالم اس کے لیے مشکلات اور شیطان کے پھندے سے نکلنےکی راہ نکال دیتا ہے۔ اور آخر میں وہ ترقی اور کمال کی راہوں میں آجاتا ہے۔
پانچواں نکتہ:
خدا سے گہرا تعلق:
انسان کا رزق صرف کتاب خدا کی تلاوت میں ہی مضمر نہیں بلکہ آفاق اور انفس میں بھی اس کی آیات اور نشانیوں کا مطالعہ کرے ان نعمات کو یاد اور ان کا شکر ادا کرے۔ جس سے انسان کی فکری اور روحانی بنیادیں مستحکم ہوتی ہیں۔ اور شب و روز اللہ کی یاد میں رہے۔
سورہ المزمل 1-4
یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱)قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۲)نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًاۙ(۳)اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴)
اے چادر اوڑھنے والے۔ رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔آدھی رات (قیام کرو) یا اس سے کچھ کم کرلو۔یا اس پر کچھ اضافہ کرلو اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
ہمارے نبیؐ کریم اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے ۔ ایک حصہ سوتے تھے اور ایک حصہ اللہ کی یاد میں رہتے تھے۔ ایک منتظر بھی ایسا ہے کیونکہ اس کا زمانے کا امام بھی ایسا ہے۔
چھٹا نکتہ:
مشق و تمرین:
منتظر سارے نکات ایک مرتبہ نہ کرے بلکہ اسطرح مشق و تمرین کرے کہ یہ تمام نکات اس کے وجود کا حصہ ہو جائیں ۔
عام طور پر لوگوں میں ایسی حالت آتی ہے کہ کچھ عرصہ حالت میں تبدیلی آتی ہے اور پھر وہی پرانی ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ یہ شیطان ہے جو اس کو اس راہ سے ہٹا لیتا ہے۔
*منتظر ہر دن کو اپنے لیے نیا دن سمجھے اور اتنی مشق و تمرین کرے کہ یہ اس کی ذات کا حصہ بن جائے۔*
قرآن کریم میں ہے:
سورہ ابراہیم 24:
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)
کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں
پاکیزہ انسان کی مثال پاکیزہ درخت جیسی ہے جس کی جڑیں گہری اور جس کے شاخ و برگ وسیع ہیں۔
اور جیسے قرآن کریم اہل ایمان کو کہتا ہے۔
سورہ ابراھیم 27:
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ
للہ ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ثابت رکھتا ہے۔ یہ لوگ مستحکم ہیں ان کی یہ حالت ہمیشگی کی ہے۔ جب ان ساری چیزوں کی جانب ہماری توجہ ہو گی تو ہمارے اندر وہ منتظر کا روحانی پہلو قوی ہو گا۔ اور اگر یہ چیزیں ہم میں نہ ہوئیں تو ہم اوائل میں یعنی آغاز کی راہوں میں ہی شکست کھا جائیں گے۔
پروردگار ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم جس طرح دروس کے ذریعے فکری طور پر مضبوط ہو رہے ہیں اسی طرح روحانی طور پر بھی مضبوط ہوں۔
آمین۔
والسلام ۔
عالمی مرکز مھدویت قم