موضوع: انتظار کے ثمرات ، منتظر بابصیرت ہے ، بصیرت نہ رکھنے کی تین مثالیں، امام سے منسوب قتل و غارت کی حقیقت، ملاقات اور خواب کے پیچھے نہ رہیں ، امام زمانہ عج کیسے جدید ٹیکنالوجی اور طاقتور ممالک سے مقابلہ کریں گے
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
موضوع سخن انتظار ہے اور انتظار کے ثمرات۔ اس سے پہلے ہم نے بصیرت پر گفتگو کی اور سب سے بڑا مسئلہ جو امامؑ کے ظہور میں رکاوٹ ہے وہ اہل انتظار کا بابصیرت نہ ہونا ہے۔
پہلا نمونہ:
ابھی تک تو مولا عج کے موضوع کو سمجھنے میں بہت زیادہ شہبات ہیں کیونکہ بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ جب امام آئیں گے تو بہت زیادہ قتل و غارت ہوگی۔ وہ نوجوان جو بالغ ہے لیکن اہل نماز و واجبات و اہل تقوٰی نہیں ہے وہ بھی قتل ہوگا۔ دنیا میں بے پناہ قتل و غارت ہو گی اور تھوڑے سے لوگ بچیں گے۔
البتہ اس حوالے سے ضعیف روایات بھی ہیں مثلاً بعض ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ امام ؑ جب ظہور کریں گے تو اس وقت مولاؑ کا امر تلوار سے حل ہو گا۔
بعض ایسے کہتی ہیں کہ وہ آٹھ مہینے فقط اپنا اسلحہ کاندھوں پر رکھیں گے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ بی بی فاطمہ زہراؑ کے فرزند ہی نہیں ہیں۔ اگر یہ بی بی زہراؑ کے فرزند ہوتے تو ہم پر رحم کرتے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم کس ہستی کے منتظر ہیں؟ ہم امام ؑ کے منتظر ہیں اور امام کا چہرہ ، چہرہِ رحمت ہوتا ہے۔ اور اماموں کا کردار اس طرح ہے جیسے ہمارے پیغمبرؐ کا ہے ۔ خود دیگر آئمہؑ کا کردار۔ اگر کوئی شخص مارا جاتا ہے تو اس کی شرعی سزا ہی ہوتی ہے نہ کہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں کسی کو مارنا، ہمارے سامنے جنگ صفین کی مثال ہے۔ مولا علیؑ کتنی دیر تک اس جنگ کو ٹالا۔ اور کوشش کی کہ خون نہ بہے اور بات مذکرات اور صلح سے حل ہو۔ یہاں تک کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ شائد مولا علی ؑ لڑنا ہی نہیں چاہتے۔
امام ؑ کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ انسانوں کو بچایا جائے۔ امام خلق خدا سے محبت کرتے ہیں۔ ہم ایک ھادی ایک رہنما اور ایک لطف سے بھری ہستی کے ساتھ۔ اگر لڑائی ہے تو وہ اس سے جو ظالم و سرکش ہیں ۔ ہٹ دھرم ہیں اور جو اس انقلاب کے آگے کھڑے نہیں ہو پارہے۔ اور قیام کو روکیں گے تاکہ دنیا میں ظالمانہ نظام رہے ۔ ایسے لوگوں سے مولاؑ جنگ کریں گے۔ جیسے نبیؐ کریم بھی لڑتے رہے اور مولا علیؑ بھی لڑتے رہے۔ اور اگر وہ لڑائی نہ ہو تو مجرموں کو سزا کیسے ملے گی اور دنیا کا نظام کیسے ٹھیک ہوگا۔
لیکن ! عام گنہگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ خطاکاروں کو ہدایت ہوگی۔ اور اگر کوئی سزا ہوگی تو وہ شریعت کے مطابق ہوگی۔ نہ کہ ہر جرم کی سزا قتل ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس میں بصیرت نہیں ہے۔
دوسرا نمونہ:
امام زمانہؑ عج کے حوالے سے کچھ لوگ فقط ان کی زیارت ، ملاقات اور خواب جو وہ مولا کے حوالے سے دیکھتے ہیں یعنی فقط ان چیزوں کے پیچھے رہتے ہیں اور
پہلی بات: تو یہ ہے کہ خواب حجت نہیں ہیں ۔
دوسری بات: ہمارا وظیفہ یہ نہیں کہ ہم ان کی زیارت کے پیچھے رہیں جب وقت آئے گا تو وہ ہم سب کو زیارت کروائیں گے۔
ہمارا وظیفہ:
ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ ان کے ظہور کی تیاری کریں اور مولا کا سچا پیروکار بنیں اور اپنی تربیت کریں۔ ظہور میں تاخیر کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے اصلی وظائف کو انجام نہیں دے رہے۔ کیونکہ جب ہم ان ملاقاتوں کو بیان کریں گے تو ایک تو یہ ہے کہ ان کی کوئی سند بھی نہیں ہے اور پتہ بھی نہیں یہ ہوئی بھی ہے یا نہیں ہے اور اس سے ہونے والی محبت تو چند دن ہے اور ختم ہوجاتی ہے اور اس کے نیچے کوئی اساس اور عقیدہ نہیں ہے۔
دوسرا دشمن مذاق اڑائے گا کہ کہے گا کہ یہ مذہب فقط انہی چیزوں پر قائم ہے چند ایک ملاقاتیں اور واقعات کہ ان کی کوئی بھی قرآن و حدیث سے اساس نہیں ہے۔
تیسری نمونہ:
تیسری چیز یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا بڑے بڑے طاقتور ممالک سے بھری ہوئی ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی اور امام اور مٹھی بھر لوگ اس کا کیسے مقابلہ کریں گے۔ تو لہذا یہاں علم کا مقابلہ علم سے ہوگا۔ امام ؑ کے پاس اس سے زیادہ برتر ٹیکنالوجی ہوگی۔ اور ظہور کی تیار بھی یہی ہے کہ ہم خود کو جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے مزین کریں۔ اور ہر شعبہ میں ہم آگے بڑھیں۔
اور احادیث و روایات میں اشارہ ہے کہ امامؑ کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہوگی۔ یہ علمی جنگ ہے۔
یہ کہنا کہ حجاز سے عراق جب مولاؑ آئیں گے تو سات نورانی گنبد کے ساتھ ہونگے یہ کیا ہیں؟ اور اللہ نے ذولقرین کو نرم ہوا اور بادل دیے تھے جبکہ مہدیؑ کے پاس سخت فضا اور ہوا ہوگی اس کے اندر گرد چمک خوف ہوگا۔ تو یہ کیا ہے آیا یہ شعائیں ہیں، علم ہے یا ٹیکنالوجی ہے۔
اُس زمانے میں اسے سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا لیکن آج کے اس علمی دور میں ہم اسے کیا کہیں گے۔
بلآخر یہ مولاؑ کی فوج جدید علوم سے آراستہ ہوگی۔ اور آٹھ مہینے میں پوری دنیا کے طاقتور ممالک سے ٹکرائے گی اور پوری دنیا پر ان کا قبضہ ہوگا۔ (انشاءاللہ)
بلآخر ہم ان تمام چیزوں کو بابصیرت انداز سے لیں تو ہمارے لیے بھی بہت سارے مسائل حل ہونگے اور بہت سارے لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی ملیں گے۔
پروردگار عالم ہم سب کو بابصیرت منتظر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام۔
عالمی مرکز مہدویت قم۔