آخری پوسٹیں
درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_گوھر شاہی سے آشنائی- درس10
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_درس 8_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
دروس لقاءاللہ_ اللہ کے خالص بندوں کے مقامات
کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچہ 14 _ موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
سلسلہ دروس انتظار

سلسلہ دروس انتظار – درس 12

موضوع: منتظر کی ذمہ داری ، امام کو ھدایت میں وسیلہ قرار دینا، محمد و آل محمد علیہم السلام سے کیا مانگنا ہے؟ طائف کے ایک شخص کا واقعہ ، بنی اسرائیل کی ایک خاتون کی حاجت ، وہ مانگیں جو کہیں سے نہیں ملے گا

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:
موضوع سخن : انتظار اور وظائف منتظرین۔
منتظر کی ذمہ داری:
ایک منتظر کے لیے اہم ترین وظیفہ یہ ہے کہ وہ اللہ سے ہدایت مانگے اور ہدایت کا وسیلہ محمدؐ و آل محمدؑ ہیں ان سے ہمیشہ مدد مانگے۔ اور متمسک رہے۔

دعائے ندبہ میں آیا ہے کہ :
وَ جَعَلْتَھُمُ الذَّرِیعَةَ إِلَیکَ، وَالْوَسِیلَةَ إِلَیٰ رِضْوَانِکَ
اور انہیں (محمدؐ و آل محمدؑ) کو اپنی بارگاہ کے لیے ذریعہ اور اپنی رضا کے لیے وسیلہ قرار دے دیا۔ ان میں سے بعض کواپنی جنت میں ساکن بنایا۔

روز عرفہ میں جو دعا مانگی جاتی ہے کہ جو امام زین العابدینؑ سے نقل ہوئی ہے وہاں بھی یہی تعبیر ہے کہ:
وَ جَعَلْتَهُمُ الْوَسِیلَةَ إِلَیكَ وَ الْمَسْلَكَ إِلَی جَنَّتِكَ‏
اورآپ نے جنہیں اپنے تک پہنچنے کا وسیلہ اور جنت تک آنے کا راستہ قرار دیا ہے۔

جب ہم نے ان ہستیوں کو وسیلہ مان لیا اور یہ ہدایت کے ذرائع ہیں تو اب ہم نے کس طرح کی آرزوئیں ان سے مانگنی ہیں جو ان کی شان کے مطابق ہوں۔

روایت:
امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوئی ہے کہ: 
طائف کا ایک شخص کے جس کے پاس قبل از اسلام یعنی زمانہ جہالت میں نبیؐ کریم ایک مرتبہ مہمان بنے تھے اور اس نے بہت احترام کیا تھا۔ جب رسولؐ اللہ عرب کےحاکم بن گئے اور اسلام کی حکومت قائم ہوئی تو لوگوں نے اس سے کہا کہ تمھیں وہ شخص یاد ہے جو تمھارے مہمان بنے تھے وہ اب عرب کا حاکم اور پیغمبرؐ ہیں اور تمھارے حالات برے ہیں تم ایک غریب شخص ہو تم ان کی خدمت میں جاؤ اور ان سے کچھ مانگو۔ اب وہ نبیؐ کریم کی خدمت حاضر ہوا اور کہا کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں۔ رسولؐ خدا نے فرمایا کہ تم کون ہو۔ کہا کہ میں وہی ہوں کہ جس کے پاس آپ ایک دن بعنوان مہمان آئے تھے۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: مرحبا میں تمھیں پہچان گیا۔ کہو کیا چاہتے ہو۔ اس نے کافی سوچا اور پھر عرض کی کہ مجھے دوسو بھیڑیں چرواہے کے ساتھ چاہیے۔

رسولؐ اللہ نے تھوڑا سا سوچا اور سر جھکایا اور پھر فرمایا اس کی حاجت پوری کر دیں پھر آپ نے اپنے اصحاب کی جانب رخ کیا اور افسوس کے ساتھ فرمایا:

یہ کیسے ممکن ہے کہ اس شخص کا حوصلہ اس بوڑھی یہودی عورت سے بھی کم ہو۔

اصحاب نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ کیا ماجرا ہے تو یہاں نبیؐ کریم نے ایک واقعہ سنایا۔

فرماتے ہیں کہ: 

میرے بھائی حضرت موسیٰ ؑ مصر سے شام کی مقدس سر زمین کی طرف ہجرت کرنا چاہتے تھے تو وحی ہوئی کہ حضرت یوسف کا جنازہ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ موسیٰ ؑ کو مامور کیا گیا تھا کہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈے جو اس جنازے کے مقام سے آگاہ ۔ حضرت موسیٰ ؑ کو کہا گیا کہ اگر کوئی اس جگہ کو جانتا ہے تو وہ بنی اسرائیل کی فلاں بورھی عورت ہے موسیٰ نے اسے بلوا بھیجا جب وہ آگئی تو موسیٰ نے کہا تم جانتی ہو کہ وہ جنازہ کہاں ہے اس نے کہا جی ہاں! موسیٰ نے کہا تم جو چاہو تمھیں دیا جائے گا ۔ اس کا مقام بتاؤ اس نے کہا میں اس وقت تک نہیں بتاؤں گی جب تک میری تمام درخواستوں کو قبول کرو۔ موسیٰ ؑ نے کہا جنت چاہیے اس نے کہا وہی جو میں نے کہا ہے۔ موسیٰ ؑ متحیر ہوگئے تو وحی آئی کہ قبول کرلو۔ تم نے نہیں دینا ہم دیں گے۔ موسیٰ ؑ نے کہا قبول ہے بوڑھی عورت نے کہا میری درخواست یہ ہے کہ روز قیامت جنت میں تمھارے ساتھ رہوں جو تمھارا رتبہ اور مقام ہے وہی میرا بھی ہو۔:

پر رسولؐ اللہ نے ٹھنڈی سانس لی اور فرمایا اس طائف کے شخص کی درخواست کا کیا ہوا اس کی درخواست اس بوڑھی عورت کی طرح نہ تھی کیا ہوا اس شخص کی ہمت اور حوصلہ اس بوڑھی عورت سے بہت کم تھا۔

یعنی ہم بسا اوقات ان ہستیوں سے توسل تو کرتے ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے ہیں جو ہمیں تھوڑی سی محنت سے مل سکتی ہیں۔

ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات ان سے مانگتے ہیں یہ کریم ہیں سخی ہیں اس ہستیوں سے وہ مانگنا چاہیے جو ہر جگہ سے نہیں ملتا۔ ایسا مطالبہ کریں جسے دنیا میں کوئی بھی پورا نہیں کر سکتا ۔ ان ہستیوں سے مانگنا ہی ہے تو آخرت مانگ لیں ، قبر کی آسانیاں مانگیں۔ روح کا علاج، برائیوں کا حل ، تربیت و علم مانگ لیں۔

بس ضروری ہے  کہ پہلے خود کو پہچانیں اور اپنی ضرورتوں کو درک کریں اور وہ ضرورت جو ہماری محنت سے دنیا میں پوری نہیں ہو سکتی اس کی تمنا ہم ان ہستیوں سے کریں۔

اس وقت امام زمانہؑ عج موجود ہیں اور اللہ نے ان کو ہمارے لیے ھادی قرار دیا ہے اور ھادی کا کام ہدایت دینا ہے ھادی مسیحا نفس ہے، طبیب قلب ہے، تاریک راہوں کو کھولنے والا ہے۔ ہماری راہوں کو روشن کرتے ہیں امام مھدیؑ وہ عظیم ذات ہیں کہ جن کے بارے میں رسولؐ اللہ فرماتے تھے کہ:

حضرت مہدی کے دست مبارک سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور تم سب آزاد ہو جاؤ گے۔

یہ زنجیریں ظلم ، خواہشات اور گناہوں کی ہیں۔
دنیا کے شرق و غرب جس طرف بھی جاؤ ہدایت صرف انہی کے پاس ہے، ” شرقوالو غربہا” ایک

بس اللہ سے اسی طریقے سے مانگیں جیسے اللہ نے چاہا ہے اور انہیں راستوں سے تمسک اورتوسل کریں کہ جو راستے خدا اور رسول ؐ نے بتائے ہیں۔

پروردگار عالم ہم سب کو اسی طرح کا منتظر ہونے کی اور محؐمد و آل محؑمد سے صحیح معنوں میں متوسل ہو کر اور حقیقی ہدایت لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام۔

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید