بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
سلسلہ دروس”امام مہدی عج قرآن مجید کی رو سے “
درس 1
قرآن کی رو سے معرفت امام کی اہمیت
استادِ محترم علامہ آغا علی اصغر سیفی صاحب
•ہماری گفتگو کا موضوع قرآن مجید کی رو سے امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت اور شناخت کا حصول ہے ۔۔۔۔۔
•قرآن مجید کے اندر تقریباً 300 کے قریب آیات ہیں جو مہدویت کو بیان کرتی ہیں۔ وہ ہستی جس نے ظہور کے بعد پوری دنیا پر قرآن کو نافذ کرنا ہے کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان کا ذکر قرآن میں موجود نہ ہو۔
•امام زمانہ ع جب ظہور کریں گے تو قرآن لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی معنوں میں داخل ہوگا۔ ابھی تو قرآن غلاف میں بند ہے اور مردوں پر پڑھنے والی کتاب ہے۔ اُس دور میں واقعاً یہ زندوں کی کتاب ہوگی ، چونکہ دنیا کے تمام قوانین اور دنیا کے تمام جتنے بھی امور دنیا کے اندر طے پائیں گے اُن سب کی اساس قرآن مجید ہوگا۔ اور قرآن اس طریقے سے پوری دنیا پر نافذ ہوگا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ حکومت جو ہے یہ حکومتِ قرآن ہے۔ *دولۃ القرآن* مولا امام زمان ع کی حکومت کو لقب ملے گا۔
•قرآن مجید جس کے اندر سب حقائق موجود ہیں۔اس کے اندر چھوٹے چھوٹے طہارت کے مسائل موجود ہیں تو کس طرح ہوسکتا ہے اتنی بڑی ہستی جس نے دنیا کو عدل و انصاف سے بھرنا ہے اور پوری دنیا پر دینِ اسلام جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے قلبِ مبارک پیغمبر (ص) پر نازل ہوا اور وہ دین پوری دنیا پر نافذ ہونا ہے۔ جس کے ذریعے قرآن دنیا کی عظیم کتاب جسے دنیا کے سارے قوانین چاہے وہ انفرادی زندگی کے ہوں یا اجتماعی زندگی کے، قرآن سرچشمہ ہوگا ۔۔۔۔ تو کیسے ہوسکتا ہے کہ جس نے اتنی خدمت کرنی ہے ان کا ذکر نہ ہو۔
• تو قرآن کے اندر بہت ساری آیات ہیں اور قرآن بہترین دلیل ہے امام زمانہ علیہ السلام کی شناخت حاصل کرنے کے لیے ان کی معرفت کو حاصل کرنے کے لیے قرآن ایک بہترین منبع اور بہترین دلائل پر مشتمل کتاب الٰہی ہے۔
•امام زمانہ ع کی معرفت کو حاصل کرنا یہ ہمارا سب کا فریضہ ہے۔ کیونکہ یہ جو حدیث شیعہ سنی کی کتابوں میں موجود ہے یہ صرف شیعہ کا فریضہ نہیں ہے سب اہل اسلام کا فریضہ یے۔ اگر کوئی شخص لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کہہ رہا ہے تو اسے اپنے دور کا ھادی جو کہ اسی نبی کا وصی ہے اور ہر دور میں ایک وصی یقیناً موجود ہے تو اس وصی کو چونکہ وہ امام ہیں اور ان کو پہنچاننا اور ان کے ذریعے دینِ حق اور ہدایت تک اور نجات تک پہنچنا یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔ بلکہ یہ ہمارا سب سے پہلا واجب ہے ۔۔۔
•اسی لیے آپ دیکھیں کہ یہ جو حدیث ہے جو شیعہ سنی کتابوں میں موجود ہے یہ کہہ رہی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَةً جَاھِلِیَّةً
(( جو شخص اس حال میں مرے کہ زمانے کے امام ع کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ جاہلیت کی موت مرا))
مطلب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے وہ اہلِ عبادت اور اہلِ نماز ہو ہوسکتا ہے اس نے بہت سارے دینی علوم بھی حاصل کیے ہوں لیکن چونکہ وہ زمانے کے حقیقی امام ع جو اللہ نے قرار دیا اُس تک نہیں پہنچا تو اس کی زندگی بظاہر اسلامی نظر آرہی ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ جاہلانا زندگی ہے چونکہ وہ حقائق تک نہیں پہنچا۔ بہت سارے علوم کا حاصل کرنا کوئی ضمانت نہیں کہ یہ نجات تک پہنچا ہے یا حقیقت تک پہنچا ہے۔ حقیقت اور نجات تک پہنچنے کے لیے اس ہستی سے متمسک ہونا پڑے گا کہ جس کو خدا نے ہمارے لیے امام ع قرار دیا ہے ۔ جیسے ہم دینِ حق کو دین لانے والے کے ذریعے پہنچانتے ہیں کہ لانے والا کون ہے ۔ وہ اگر خدا کی طرف سے ہے تو پس جو وہ بیان کررہا ہے وہی دین حق ہے ۔
•تو اب کوئی اور دین نہیں ہے نہ کوئی لانے والا ہے اب جو دین آچکا ہے اس کو بیان کرنے والا اس کی حفاظت کرنے والا اور یہ جو آج دنیا میں مختلف مسلک اور مختلف فرقے اور مکاتب ہیں جو سب اپنے آپ کو حقیقی اسلام کہہ رہے ہیں تو یہاں حقیقی اسلام کہاں ہے،وہیں ہے جہاں حقیقی امام ع ہیں ۔ ۔۔۔
تو پس اسی لیے امام وقت کی معرفت ہم پر واجب ہے حاصل کرنا۔
• اب یہ کہ امام ع کی معرفت حاصل کرنے کے لیے بہت سارے راستے ہیں جیسے خود ایک دلیلِ عقلی جو ہے یہ بھی بہترین راستہ ہے۔ اور اسی طرح قرآن مجید اور اسی طرح احادیث و روایات اور اسی طرح تاریخ وغیرہ ،بہت ساری راہیں ہیں جس سے ہم امام حقیقی کے قریب ہوسکتے ہیں ۔۔۔ لیکن سب سے بہترین راستہ جس میں کسی بھی طرح کی کوئی غلطی کا امکان نہیں ہے وہ قرآن مجید ہے۔ چونکہ قرآن وہ کتاب ہے کہ جس پر تمام مسلمان فرقوں کا یہ اتفاق ہے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی انحراف نہیں ہے۔
• قرآن مجید خود ایک ایسی پاکیزہ راہ ہے کہ جو معصوم ہے جس میں کسی قسم کی کوئی غلطی اور اشتباہ نہیں ہے تو یہ جب کسی موضوع پر بیان کرے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔
مولا علی ع کا فرمان
مولا علی ع فرماتے ہیں کہ۔۔۔
اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ عَلٰۤی اَحَدٍۭ بَعْدَ الْقُرْاٰنِ مِنْ فَاقَةٍ
• ( جان لے کہ کوئی شخص اگر قرآن کو سمجھ چکا ہے، قرآنی علوم حاصل کرچکا ہے، قرآن سے فیض لے رہا ہے اب اس پر کوئی احتیاج باقی نہیں رہ گیا ہے ۔(یعنی اب وہ شخص محتاج نہیں ہے ) وَ لَالِاَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْاٰنِ مِنْ غِنًی اور قرآن کو حاصل کرنے سے پہلے یعنی قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے سے پہلے کوئی شخص غنی نہیں ھے ،بے نیاز نہیں ہے۔
فَاسْتَشْفُوْهُ مِنْ اَدْوَآئِكُمْ وَ اسْتَعِیْنُوْا بِهٖ عَلٰی لَاْوَآئِكُمْ پس قرآن سے اپنی بیماریوں کی شفا مانگیں اور اپنی جو مشکلیں ہیں ان میں قرآن سے مدد طلب کرو )
البتہ یہاں بیماریوں سے مراد جسمانی بیماریاں نہیں ہیں بلکہ جسمانی بیماریوں سے زیادہ خطرناک بیماریاں وہ ہماری روحانی اور باطنی بیماریاں ہیں ۔ چونکہ قرآن کتابِ ھدایت ہے اور ھدایت کا مطلب ساری باطنی بیماریاں ٹھیک ہونا ہے۔ جسمانی بیماریوں کے لیے تو اللہ نے جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن سے مختلف دوائیاں بنی ہیں اور جن سے علم طب پیدا ہوا ۔۔۔ البتہ اس میں قرآن بھی مدد کرتا ہے۔لیکن قرآن درحقیقت ان بیماریوں کی دوا ہے کہ جن کی دوا پوری دنیا میں موجود نہیں ہے بلکہ جن کا طبیب پوری دنیا میں نہیں ہے سوائے امامِ حق کے۔
•چونکہ دو امام ہیں ہمارے ایک قرآن اور ایک امامِ زندہ جو ہیں۔وہ امام ناطق ہے یہ امام صامت ہے۔ یہ کتاب کی شکل میں اور وہ ان کی مجسم تصویر ہے۔
پس ضروری ہے کہ اگر ہم امام ع کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جس طرح راہِ عقل ایک راہ ہے احادیث و روایات والی ایک راہ ہے اسی طرح خود قرآن مجید سے بھی بڑھ کر کونسی راہ ہوسکتی ہے بلکہ اس سے بہتر کونسی راہ ہوسکتی ہے جب خود قرآن مجید اس موضوع کو ہمارے لیے بہترین انداز سے بیان کررہا ہے۔ چونکہ جب ھم قرآنی نگاہ سے کسی موضوع پر کام کریں گے تو پھر اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جاری ہے
عالمی مرکز مہدویت قم