تازہ ترین پوسٹس

سلسلہ درس حدیث مہدویت_ ظہور سے پہلے کے حالات


سلسلہ درس حدیث مہدویت
ظہور سے پہلے کے حالات

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

ہم غیبت نعمانی کے چودھویں باب میں کچھ روایت ایسی دیکھتے ہیں کہ جن کے اندر ظہور سے قبل کے حالات بیان ہوئے ہیں اور یہ روایات سند کے اعتبار سے صحیح ہیں۔

روایت نمبر 5 میں امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ:

إنّ قُدّامَ القائمِ عَلَاماتٍ تكونُ مِنَ اللّه ِ عزّوجلّ للمؤمنينَ ، قلتُ : وما هِيَ ، جَعَلني اللّه ُ فِداكَ؟ قالَ : ذلكَ قَولُ اللّه ِ عزّ وجلّ : «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ» يعني المؤمنينَ قبلَ خروجِ القائمِ عليه السلام « بِشَيْءٍ مِنَ الخَوْفِ والجُوعِ ونَقْصٍ مِنَ الأمْوالِ والأنْفُسِ والثَّمَراتِ وبَشِّرِ الصّابِرينَ»
فرماتے ہیں کہ:
امام قائمؑ عج کے آنے سے پہلے کچھ نشانیاں ہیں اور کچھ مسائل جو لوگوں کو پیش آئیں گے اور اس کو بلوی کے ساتھ عنوان دیا ہے ، یعنی پروردگار کی جانب سے آزمائش ہوگی۔

اس زمانے کے جو مومنین ہیں اس آزمائشِ پروردگار کو جھیلیں گے ۔ بالآخر یہ آزمائش پروردگار ہوگی۔

راوی نے پوچھا وہ کیا ہے؟
وہ آزمائش وہ مسائل یا وہ نشانیاں کیا ہیں ؟
البتہ!
یہاں معصوؑم نے فرمایا علامات۔

بطورِ کلی تمام جو حالات ہیں یا نشانیاں ہیں سب کو علامات سے تعبیر کیا گیا ۔ لیکن! وہ علامات جو امامؑ عج کے ظہور سے پہلے ہیں وہ علاماتِ محتوم ہیں یعنی یقینی حتمی علامات وہ پانچ ہی ہیں جن کے حوالے سے کئی بار ذکر کیا جا چکا ہے۔

لیکن یہ علامات غیر حتمی ہیں۔ اور یہ لازمی نہیں ہے کہ یہ بالکل ظہور کے نزدیک ہوں۔ جیسے بنی عباس کی حکومت کا خاتمہ ہونا بھی علامات میں ہے ۔ لیکن! کتنا ہی عرصہ ہوا اس کو ختم ہوئے۔

ان سب کو روایات کے اندر حالات سے تعبیر کیا گیا اور کبھی اس کو علامات سے تعبیر کیا گیا لیکن مراد وہ علامتیں جو واقعاً ظہور کے نزدیک ہیں یہ وہ نہیں ہیں۔ یہ اس سے پہلے والے ایک قسم کے حالات اور مسائل ہیں جو لوگوں کو پیش آئیں گے۔

اب راوی نے پوچھا وہ کونسی آزمائش ہے یا وہ کونسی نشانیاں ہیں؟
تو یہاں امام معصومؑ سورہ بقرہ کی 155 نمبر آیت کا حوالہ دیتے ہیں ۔
فرماتے ہیں کہ :
ارشاد پروردگار ہے:
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبرین
اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوالِ وَالۡاَنۡفُسِ
“یعنی حتماً! تم سب کو ہم آزمائیں گے، کچھ خوف سے یعنی کچھ خوف بھی تم پر طاری ہوگا ۔ اسی طرح کچھ حد تک بھوک ہے، اب بھوک کے اندر غذائی اجناس کا کم ہونا ، پینے کا پانی کم ہونا یعنی یہ قحط والی صورتحال ہے۔ اسی طرح لوگوں کے پاس جو مال ہے وہ کم ہوجائے گا اور اسی طرح جانوں کو خطرہ ہوگا۔ یا مثلاً ! جنگیں ، قتل وغارت ہے کہ ان کی وجہ سے انسان کم ہو جائیں گے۔

وَالثَّمَرٰتِؕ
اسی طرح ثمرات ، یہاں ثمرات کا بعض مترجمین نے ترجمہ کیا خود یہی پھل، یہی میوہ وغیرہ ۔ اور بعض نے اس کا معنی فرزندان کیا ہے یعنی اولاد جو کہ ثمرہ ہے انسانوں کی زندگی کا۔

وَبَشِّرِ الصّٰبرین
اور اس کے بعد پروردگار فرما رہا ہے کہ صبر کرنے والوں کو بشارت ہو۔
اب یہاں امام صادق عام لوگوں کی بات نہیں کر رہے یا پوری دنیا کی بات نہیں ہو رہی۔ بلکہ! یہاں مومنین کی بات ہورہی ہے کہ مومنین کو آزمایا جائے گا اور وہی مشکلات کا شکار ہونگے۔ کیونکہ! بالآخر یہ لوگ تیار ہو رہے ہیں کہ یہ لوگ دنیا پر حکومت کریں گے ۔ تو ان کی دوسرے لفظوں میں تربیت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ مشکلات کا شکار ہوں اور وہ اس سے نکلیں اپنی محنت سے اور زحمت سے۔

معصومؑ فرماتے ہیں کہ یہاں خوف سے مراد
سلسلہ بادشاہت کے جو آخری بادشاہ ہیں ان کے زمانے میں ہے ۔
اور یہاں مراد بنی عباس تھے۔

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ
” لوگوں کے اندر بھوک یا قحط والی یہ جو صورتحال اس لیے ہوگی کیونکہ قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی یعنی! لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی اور چیزیں بہت مہنگی ہو جائیں گی۔

یہ جو کہا گیا ہے آپ کا مال کم ہوگا ؟
کیونکہ تجارت کا کام فاسد ہو جائے گا لوگ زیادہ منافع کے چکر میں نامرغوب چیزوں کو بازار میں لائیں گے۔

اور اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ:
اس کے اندر کوئی نمو یا رشد والی صورتحال نہیں ہے کہ کوئی حلال منافع نہیں بڑھے گا بلکہ حرام چیزیں بڑھیں گی ۔ جیسے آج کل بھی ہم دیکھ رہے ہیں ۔

وَالۡاَنۡفُسِ سے مراد
یہاں مراد جلد موت ہے۔ ہر آدمی نے اپنے وقت پر مرنا ہوتا ہے ۔ لیکن! بسا اوقات ہمارے اپنے اعمال، ہماری اپنی حرکات باعث بنتی ہیں کہ لوگ جلد مر جاتے ہیں، یا کوئی بیماری پھیل جاتی ہے یا پھیلائی جاتی ہے ، یا ایسے حالات جیسے اب دیکھ رہے ہیں بعض ممالک کے اندر خونریزی اور قتل و غارت یا جنگیں، باعث بنتی ہیں کہ انسان جلدی مر جاتے ہیں ۔

اسی طرح فرماتے ہیں
وَالثَّمَرٰتِؕ
ثمرات سے مراد ہے کہ لوگ اپنی طرف سے پیدوار کے حوالے سے ساری محنت کریں گے۔ لیکن! نتیجہ کم ہوگا یعنی پیدوار کم ہوگی۔ کاشت میں لوگ ساری زحمتیں کریں کاشت کار ساری محنت کرےگا لیکن! ثمرہ کم لے گا۔

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہاں مراد پیداوار اور اسی طرح جو اُس کے ثمرے ہیں یعنی میوے اور پھل ہیں جو ہر فصل کے بعد انسان کو امید ہوتی ہے کہ بھرپور پیدوار اور پھل دے ، یہ ساری چیزیں کم ہونگی ۔

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ:
وَبَشِّرِ الصّٰبرین
یعنی لوگوں کو مومنین کو صبر کی بشارت دیں ان کو اہل صبور جو زحمتیں کر رہے ہیں لیکن! پھر بھی ڈٹے ہوئے ہیں اپنے حالات پر ان کو بشارت دیں کہ “بالآخر یہ زمانے قائمؑ عج کے خروج اور ظہور کے ساتھ متصل زمانے ہیں” یعنی اس سے پہلے ان تمام حالات سے مومنین نے دوچار ہونا ہے۔

اُس نے بعد معصوم نے فرمایا
جناب محمد بن مسلم سے چونکہ وہ اس روایت کو نقل کررہے ہیں فرمایا کہ : اے مسلم کے بیٹے ؛
اس آیت کے ذیل میں یہ جو کچھ میں بیان کررہا ھوں یہ تفسیر نہیں ہے تاویل ہے یعنی یہ وہ حقائق ہیں جو اس آیت کے باطن میں قرآن کے اندر پنہاں ہیں کہ جو ہم آپ کے لیے بیان کر رہے ہیں ۔

اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ :
“قرآن کے کلام میں پروردگار کی تاویل کو کون جانتا ہے ؟ صرف اور صرف اللہ اور اسی طرح وہ ہستیاں جو راسخون فی العلم ہیں، علمِ راسخ رکھتے ہیں پختہ ہیں یعنی جن کے پاس حقائقِ علم موجود ہیں وہ جانتے ہیں۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *