آیت (25)
آیت کا ترجمہ و تفسیر ،میزان سے مراد، لوہے کے فوائد ، انسانی اجتماعی زندگی میں قانون، عدالت اور اجراء قانون کی ضرورت ، اصلی ھدف عدالت کا اجراء ، امام زمان عج کے لیے تیاری، اللہ خود بے نیاز ہے عدالت ہماری اپنی بھلائی کے لیے ہے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُـمُ الْكِتَابَ وَالْمِيْـزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّـٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٝ وَرُسُلَـهٝ بِالْغَيْبِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ ( 25)
البتہ ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ہمراہ ہم نے کتاب اور ترازوئے (عدل) بھی بھیجی تاکہ لوگ انصاف کو قائم رکھیں، اور ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں سخت جنگ کے سامان اور لوگوں کے فائدے بھی ہیں اور تاکہ اللہ معلوم کرے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی غائبانہ مدد کرتا ہے، بے شک اللہ بڑا زور آور غالب ہے۔
تفسیر :
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُـمُ الْكِتَابَ وَالْمِيْـزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ
میزان سے یہاں مراد انصاف ہے
یعنی اللہ نے لوگوں کو انصاف کا حکم دیا اسی طرح بعض نے اس سے مراد ترازو لیا ہے اور ترازو اتارنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ترازو کی جانب لوگوں کی راہنمائی کی کہ اس کے ذریعے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق ملے۔
یہاں اتارنے کا مطلب یہ ہے کہ پیدا کرنا یا اس کی صنعت سیکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بیشمار چیزیں بنتی ہیں۔ اور یہ سب پروردگار کے الہاٰم اور ارشاد کا نتیجہ ہے ۔ حضرت داؤؑد کے ہاتھوں یہ لوہا نرم ہوا اور آپؑ نے لوہے سے زرہ اور دیگر اشیا بنائیں۔ حضرت ذولقؑرنین نے لوہے سے دیوار بنائی۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں اور جن سے دشمن پر حملہ ہوتا ہے اور یہ لوہا بہت بڑی نعمت ہے۔ اور ہمارے کام آنے والی بہت سی صنعت اور چیزیں اس سے بنتی ہیں۔
اللہ نے یہ نعمتیں اور بینات جو پیغمبروں کو کھلی دلیلیں عطا کیں جس میں ان کے معجزات اور کرامات ہیں اور ساتھ قرآن مجید ہے۔ اللہ نے یہ ساری چیزیں اس لیے دے کر بھیجا کہ وہ اس دنیا میں ہماری آزمائش کر رہا ہے کہ کون خدا کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ایمان لاتا ہے ۔
وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّـٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٝ وَرُسُلَـهٝ بِالْغَيْبِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ
اللہ قوت والا ہے اور زبردست ہے یعنی خدا کو کوئی حاجت نہیں اور وہ محتاج نہیں کہ لوگ اس کے دین اور رسولوں کی مدد کریں۔
وہ بغیر مدد کے اپنے دین اور رسولوں ؑ کو لوگوں پر غالب کر سکتا ہے۔ اگر لوگ ان کی مدد کریں گے تو یہ ان کی اپنی بھلائی ہے۔ یعنی اس مدد کے ذریعے وہ اللہ سے اپنے لیے رحمت اور مغفرت حاصل کریں گے۔ کیونکہ یہ رضائے پروردگار کا سبب ہو گا۔
اس آیت مجیدہ میں بہت سارے نکات اور پیغامات ہیں۔
1۔ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا : پروردگار عالم فرما رہا ہے ہم نے بھیجا۔ یعنی کتاب، چیز ، لوہا سب کچھ ہم نے بھیجا اس کا علم بھی ہم نے بھیجا اور اس کو ہم نے سکھایا۔
2۔ پروردگار عالم چاہتا ہے کہ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ یعنی یہ علم جو سکھایا ہے اب میں تمھارا عمل دیکھنا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں کے ذریعے انصاف قائم ہو۔ لوگ ایک دوسرے کو حق دیں نہ کہ حق تلفی کریں۔
3۔ اور یہ حق تب ملے گا جب یہ چیزیں رسولوں اور قرآن مجید کے زیر سایہ ہونگی اور ان سے عدالت حاصل ہو گی۔
4۔ پروردگار عالم نے جو رسولؑ اور قرآن بھیجے ان کا یہی ہدف تھا کہ دنیا میں عدالت قائم ہو۔
5۔ یہ ہدف آخری زمان میں امام مھدی عج فرزند رسولؐ اللہ کے ظہور سے حاصل ہو گا جب قرآن کریم پوری دنیا کا قانون الہیٰ ہوگا اور دین اسلام پوری دنیا کے ادیان پر غلبہ کرے گا۔ اس وقت زمین عدل و انصاف سے بھرے گی۔
ہمارا فریضہ عمل ہے اور خدا کا ایک نمائندہ آئے گا جو عدالت بپا کرے گا۔
پروردگار فرماتا ہے کہ ہر شعبے میں ایک ہدف سامنے رکھنا ہے اور وہ یہ ہے کہ عادل بننا ہے اور عدالت کو اجراء کرنا ہے ۔ اور جب عدالت اجراء ہوتی ہے تو پھر ہر قسم کا فساد ہر قسم کا گناہ اور جرم و خطرہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کے آغاز میں ترتیب دیا کہ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُـمُ الْكِتَابَ وَالْمِيْـزَ انَ ہم نے کتاب اور میزان کو نازل کیا اورپھر وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ لوہا نازل کیا۔
یعنی پہلے انسان تربیت حاصل کرے پہلے روح کو فوقیت دے تربیت دے اور پھر جسمانی کام کرے ۔ جسم روحی تربیت کے تابع ہونگے تب ہی دنیا میں عدالت بپا ہو گی۔
یہ آیت ایک اور خوبصورت نکتے کی جانب اشارہ کر رہی ہے:
مثال کے طور پر ایک معاشرے میں ملکی سطح پر تین طاقتیں ہوتی ہے۔
اسمبلی، عدالت اور حکومت۔
اسمبلی (مقننہ) : قانون بناتی ہے
عدالت (قضائیہ): قانون پر عمل کرنے اور نا عمل کرنے والوں کا حساب رکھتی ہے
حکومت (مجریہ): جو قانون کا اجراء کرتی ہے۔
پروردگار بھی اس آیت میں یہاں یہی اشارہ کر رہا ہے۔
مقننہ ۔ یعنی کتاب الہیٰ۔ قانون الہیٰ
قضائیہ : یعنی میزان الہیٰ۔
مجریہ : یعنی لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ جو اس عدالت کا اجراء کرے۔
یہ تین چیزیں ہر معاشرے بلکہ ہر گھر میں ہونی چاہیے وہ اجتماعی زندگی ہو یا پھر انفرادی ہو۔
اور اگر کوئی قانون کوئی قانون کو اجراء کرنے میں مد مقابل آئے ، کوئی دشمن ہو یا اندرونی فتنہ و فساد ہو تو پھر پروردگار عالم فرما رہا ہے۔
وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ یعنی لوہے کے ساتھ جنگ ہو۔ اور ان لوگوں کو روکا جائے اور سختی کی جائے یہاں حدید لشکری نظام کی جانب اشارہ ہے۔
انبیاء کی کامیابی:
انبیاءؑ تب کامیاب ہوتے ہیں جب لوگ ان کی مدد کرتے ہیں۔ کوئ بھی نبی تنہا کسی معاشرے کو تب تک الہیٰ معاشرہ نہیں بنا سکتا جب تک اس کی نصرت نہ ہو۔ اسی لیے پروردگار فرما رہا ہے۔ وَلِيَعْلَمَ اللّـٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٝ کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون نصرت و اطاعت کر رہا ہے۔
اور یہ نصرت تب ہوگی جب انسان دل و جان سے تسلیم ہو گا۔ مَنْ يَّنْصُرُهٝ وَرُسُلَـهٝ بِالْغَيْبِ
یعنی قلب و جان سے حمایت۔
اور پھر پروردگار آخر میں فرماتا ہے: اِنَّ اللّـٰهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ خدا بذات خود محتاج نہیں یہ مدد ہماری اپنی بھلائی کے لیے ہے۔
والسلام ۔