سلسلہ تفسیر سورہ حدید
درس: 10، آیت نمبر 13
آیت کا ترجمہ و تفسیر ، روز قیامت منافقین کی حالت ، دیوار سے مراد
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ
سورہ حدید آیت نمبر 13۔
يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّـذِيْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْۚ قِيْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُـوْرًاۖ فَضُرِبَ بَيْنَـهُـمْ بِسُوْرٍ لَّـهٝ بَابٌ ؕ بَاطِنُهٝ فِيْهِ الرَّحْـمَةُ وَظَاهِرُهٝ مِنْ قِـبَلِـهِ الْعَذَابُ
جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ان سے کہیں گے جو ایمان لائے ہیں کہ ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی لے لیں، کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر روشنی تلاش کرو، پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کے اندر تو رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ منافقین کے بارے میں بیان فرما رہا ہے کہ روز قیامت جو لوگ منافق ہونگے جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن اندر سے دشمن اسلام ہیں۔ ان کا روز قیامت کیا عالم ہو گا۔
قرآن مجید کے اندر کفار اور منافقین باہم شمار ہوئے ہیں اور بد ترین عذاب کی ان کو خبر دی گئی ہے۔
منافق مرد اور منافق عورتیں:
یہ افراد جہنمی ہیں اور ان کی کیفیت یہ ہو گی کہ روز قیامت اہل ایمان کے دائیں جانب نور ہو گا اور اپنے اس نورانی پیکر کے ساتھ جنت کی جانب قدم بڑھائیں گے۔
اور جو منافقین ہیں کہ جن کے اندر نور نہیں اور ظلمت و سیاہی ہے یہ کچھ وقت اہل ایمان کے ساتھ چلیں گے پھر اہل ایمان اپنے نور کے ساتھ آگے بڑھ جائیں گے اور ان کے ہاں فقط تاریکی رہ جائے گی۔
پھر یہ ان کو پکاریں گے کہ ہمارا کچھ انتظار کرو اور ہمیں اپنے نور سے کچھ روشنی دو۔ یعنی یہ اہل ایمان سے ان کا نور مانگیں گے۔ تو اہل ایمان کہیں گے کہ تم پیچھے کی طرف لوٹ جاؤ یہاں اب ہم تمھیں نور نہیں دے سکتے۔
روایات کی رو سے یہاں پیچھے لوٹ جانے سے مراد یہ ہے کہ واپس دنیا میں جاؤ۔
یہ دنیا ہے جہاں انسان اپنے عقائد ، اپنے اعمال اور اپنے اخلاق سے اس دن کا نور حاصل کر سکتا تھا جو کہ تم نے حاصل نہیں کیا۔ بلکہ تم نے تاریکیاں حاصل کیں۔ وہاں لوٹ جاؤ ۔ یہ نور کمانے کی نہیں بلکہ نتیجے کی دنیا ہے۔
آیت کہتی ہے کہ پھر ان کے درمیان ایک دیوار قائم ہو جائے گی۔ اور جہاں اہل ایمان ہو نگے وہاں بہشت ہو گی۔ اور دیوار کی پچھلی طرف جہاں منافقین ہونگے وہاں عذاب ہوگا۔
پھر پروردگار عالم فرماتا ہے کہ اس دیوار کے درمیان ایک دروازہ بھی ہے۔ یہاں مفسرین قرآن روایات کی رو سے بیان کرتے ہیں کہ:
یہ دروازہ درواقع اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اہل جہنم اہل جنت کی بہشتی زندگی دیکھیں گے اور اس پر حسرت کریں گے۔ اور یہ ایک اور عذاب ہے۔
اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ ان میں کچھ گناہ گار شیعہ کچھ عرصہ جہنم میں اپنا عذاب مکمل کر نے کے بعد ہو سکتا ہے کہ چونکہ انکے عقائد اور کچھ اعمال ٹھیک ہوں تو وہ بھی اس دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے۔
اس دیوار سے مراد یہ بھی ہے
کہ یہ ہمارے ایمان ، عقائد اور اعمال کی دیوار ہے۔ جیسے دنیا میں ایک گھر ایک مسجد میں بھی ہم ایک دوسرے سے ایمان ، عقائد اور اعمال میں جدا ہے۔ کسی کا عقیدہ ، ایمان اور اعمال اور اخلاق درست ہیں تو دوسرے کے باطل ہیں۔
اس وقت بھی باطل اعمال و عقائد والے دنیا میں رہتے ہوئے بھی جہنم میں ہیں لیکن اس عذاب کو ابھی محسوس نہیں کر رہے اور وہ اس کو روز قیامت محسوس کریں گے ۔ اور صحیح اور اچھے اعمال والے اس وقت بھی جنت میں ہیں لیکن ابھی اس کی لذت محسوس نہیں کر سکتے۔ یہ دیواریں حقیقت میں روز محشر نظر آئیں گی۔
ہمیں چاہیے کہ دنیا میں غلط عقائد اور اعمال کی دیوار کو توڑ کر نیک اور صحیح عقائد اور اعمال کی دیوار بنائیں تاکہ محمدؐ و آل محمدؑ کے ساتھ بہشت میں جائیں۔
اہل انتظار:
۔ قرآن سے بھرپور فیض لیتے ہیں ۔
اپنی دنیا کو توحید اور ولایت کی رو سے استوار کرتے ہیں اور نیک اعمال اور حالات سے مزین کرتے ہیں ۔
روز قیامت محمؐد و آل محؑمد اور اپنے امامؑ کے ساتھ محشور ہوتے ہیں۔
تحریر و پیشکش:
سعدیہ شہباز