دیدار حجت خدا عج:
زمانہ غیبت کی مشکلات اور تلخیوں میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ اپنے مولا و امام سے دوراور اس یوسف بے مثال کے دیدارجمال سے محروم ہیں۔
زمانہ غیبت کے شروع سے ہی آپ کے ظہور کے منتظر دلوں کو ہمیشہ یہ حسرت بے تاب کرتی رہی ہے کہ کسی صورت میں اس بافضیلت وجود کا دیدار ہوجائے ، وہ اس کے فراق میں آہ و فغان کرتے رہتے ہیں!
البتہ غیبت صغریٰ میں آپ کے خاص نائبین کے ذریعہ شیعہ اپنے محبوب امام سے رابطہ برقرار کئے ہوئے تھے اور ان میں بعض لوگ امام عليہ السلام کے حضور میں شرفیاب بھی ہوئے ہیں؛ جیسا کہ اس سلسلہ میں کثرت سے روایات پائی جاتی ہیں۔
لیکن غیبت کبریٰ میں یہ رابطہ ختم ہوگیاہے اور امام عليہ السلام سے عام طور پر یا خاص حضرات کے ذریعہ ملاقات کرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔
لیکن پھر بھی بہت سے علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ اس زمانہ میں بھی اس ماہِ منیر سے ملاقات کا امکان ہے اوربہت سے عظیم الشان علماء جیسے علامہ بحر العلوم، مقدس اردبیلی اور سید ابن طاووس وغیرہ کی امام زمانہ عليہ السلام سے ملاقات کے واقعات مشہور و معروف ہیں جن کوکئی علماء نے نقل کیا ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:
1- پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام مہدی عليہ السلام سے ملاقات بہت زیادہ پریشانی اور بے کسی کے عالم میں ہوتی ہے اور کبھی عام حالات میں اور بغیر کسی پریشانی کے، کبھی امام عليہ السلام کی ملاقات ایسے لوگوں کی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی اور بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام عليہ السلام یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام عليہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔
لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام عليہ السلام کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔
لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام عليہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔
2- دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ عليہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں.
بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔
امام زمانہ(عج) کے دیدار کا وعدہ دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان عج کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام عليہ السلام خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام عليہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر عج کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔
3- تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام عليہ السلام کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ عليہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو، لہٰذا اگرکسی عاشق امام عليہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کومایوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام عليہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے.
جیسا کہ جو افراد امام عليہ السلام کی ملاقات سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ عليہ السلام کے جمالِ پْر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ علیہم السلام خصوصاً امام عصر عليہ السلام اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے چِلّہ کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛
بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلد بشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔
خود امام مہدی عليہ السلام فرماتے ہیں:
”اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم”۔(کمال الدین،ج2،ص 239)
میرے ظہور میں تعجیل کے لیے کثرت سے دعا کریں,یقینا اس میں تمہارے لیے نجات و رھائی ہے.
یہاں پر مناسب ہے کہ مرحوم حاجی علی بغدادی (جو اپنے زمانہ کے نیک اور صالح شخص تھے) کی دلچسپ ملاقات کو بیان کریں، لیکن اختصار کی وجہ سے اس ملاقات کے چنداہم نکات کے بیان پر اکتفاء کرتے ہیں:
”وہ متقی اور صالح شخص ہمیشہ بغداد سے کاظمین جایا کرتے تھے اور وہاں دو اماموں (امام موسیٰ کاظم اور امام محمد تقی علیہما السلام ) کی زیارت کیا کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں: خمس اور دیگر رقوم شرعی میرے ذمہ تھیں، اسی وجہ سے میں نجف اشرف گیا اور ان میں سے ٠ ٢تومان عالم متقی فقیہ شیخ انصاری کو اور٠ ٢ تومان عالم فقیہ شیخ محمد حسین کاظمی کو اور٠ ٢ تومان آیت اللہ شیخ محمد حسن شروقی کو دیئے اور ارادہ یہ کیا کہ اپنے ذمہ دوسرے20 تومان بغداد واپسی پرآیت اللہ آل یاسین کو دوں۔
جمعرات کے روز بغداد واپس آیا، سب سے پہلے کاظمین گیا اور دونوں اماموں کی زیارت کی۔
اس کے بعد آیت اللہ آل یاسین کے بیت الشرف پر گیااور اپنے ذمہ خمس کی رقم کا ایک حصہ ان کی خدمت میں پیش کیا اور ان سے اجازت طلب کی کہ اس میں سے باقی رقم (انشاء اللہ) بعد میں خود آپ کو یا جس کو مستحق سمجھوں ادا کردوں گا.
انھوں نے اپنے پاس رکنے پر اصرار کیا لیکن میں نے اپنے ضروری کاموں کی وجہ سے معذرت چاہی اور وداع کیا اور بغداد کی طرف روانہ ہوگیا.
جب میں نے اپنا ایک تہائی سفر طے کرلیا تو راستہ میں ایک باوقار سید بزرگوار کو دیکھا، جوسبز عمامہ پہنے ہوئے تھے اور ان کے رخسار پر ایک کالے تِل کا نشان تھا اوروہ بھی زیارت کے لئے کاظمین جارہے تھے.
وہ میرے پاس آئے ، مجھے سلام کیا اور گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے گلے لگایا اور مجھے خوش آمد کہا اور فرمایا: خیر تو ہے کہاں جا رہے ہو؟
میں نے عرض کی: زیارت کرکے بغداد جارہا ہوں، انہوں نے فرمایا: آج شب جمعہ ہے کاظمین واپس جاؤ (اور آج کی رات وہیں رہو) !
میں نے عرض کی: میں نہیں جاسکتا۔
انہوں نے کہا: تم جا سکتے ہو، جاؤ تاکہ میں گواہی دوں کہ میرے جد امیر المومنین عليہ السلام اور ہمارے دوستوں میں سے ہو اور شیخ بھی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
(وَ اسْتَشْہِدُوا شَہِیدَینِ مِنْ رِجَالِکُم) (اور اپنے دو افراد کو گواہ بناؤ)بقرہ.
حاجی علی بغدادی کہتے ہیں: میں نے اس سے پہلے آیت اللہ آل یاسین سے درخواست کی تھی کہ میرے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں جس میں اس بات کی گواہی ہو کہ میں اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں اورمحبان میں سے ہوں تاکہ اس نوشتہ کو اپنے کفن میں رکھوں۔
میں نے سید سے سوال کیا: آپ مجھے کیسے پہچانتے ہیں اور کس طرح گواہی دیتے ہیں؟
فرمایا: انسان کس طرح اس شخص کو نہ پہچانے جو اس کا کامل حق ادا کرتا ہو؟
میں نے عرض کی: کونسا حق؟!
فرمایا: وہی حق جو تم نے میرے وکیل کو دیا ہے۔
میں نے عرض کیا: آپ کا وکیل کون ہے؟
فرمایا: شیخ محمد حسن!
میں نے عرض کی:
کیا وہ آپ کے وکیل ہیں؟
فرمایا: ہاں۔
مجھے ان کی باتوں پر تعجب ہوا۔
مجھے ایسے لگا کہ میرے اور ان کے درمیان بہت پرانی دوستی ہے جس کو میں بھول چکا ہوں، کیونکہ انہوں نے ملاقات کے شروع میں ہی مجھے نام سے پکارا ہے! اور میں نے یہ سوچا کہ موصوف چونکہ سید ہیں لہٰذا خمس کی جورقم میرے ذمہ ہے اس میں سے کچھ ملنے کی توقع رکھتے ہیں.
لہٰذا میں نے کہا: کچھ حق (سہم سادات) میرے ذمہ ہے اور میں نے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے رکھی ہے۔
انہوں نے تبسم کیا اور
کہا: جی ہاں! آپ نے ہمارے حق کا کچھ حصہ( نجف میں) ہمارے وکیلوں کو ادا کردیا ہے۔
میں نے پوچھا: ‘‘کیا یہ کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں قابل قبول ہے”؟
انہوں نے فرمایا: ہاں!
میں نے سوچا کہ یہ سید بزرگوارکیسے عصرِ حاضر کے بڑے اور جیّد علماء کو اپنا وکیل قرار دے رہے ہیں؟
لیکن ایک بار پھر میں غفلت سے دوچار ہوا اور اس موضوع کو بھول گیا!
میں نے کہا: اے بزرگوار! کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ جو شخص شب جمعہ حضرت امام حسین عليہ السلام کی زیارت کرے (وہ عذاب خدا سے) امان میں ہے۔
فرمایا: ہاں صحیح ہے! اور میں نے دیکھا کہ فوراً ہی ان کی آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں اور رونے لگے۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہم نے خود کو کاظمین کے حرم میں پایا، بغیر اس کے کہ کسی سڑک اور حرم کے راستہ سے گزرے ہوں۔
داخلی دروازے پر کھڑے ہوگئے ۔انہوں نے کہا: زیارت پڑھیں، میں نے کہا: بزرگوار میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکوں گا۔
فرمایا: کیا میں پڑھوں تاکہ تم بھی میرے ساتھ پڑھتے رہو؟
میں نے کہا: ٹھیک ہے!
چنانچہ ان بزرگوار نے پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ایک ایک امام پر سلام بھیجا اور امام حسن عسکری عليہ السلام کے نام کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا:
کیا تم اپنے امام زمانہ کو پہچانتے ہو؟
میں نے عرض کی: کیوں نہیں پہچانوں گا؟!
فرمایا: تو پھر اس پر سلام کرو میں نے کہا: اَلسَّلامُ عَلَیکَ یَا حُجَّةَ اللّہِ یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ یَابْنَ الحَسَن!
وہ بزرگوار مسکرائے اور فرمایا: عَلَیکَ السَّلامُ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہْ۔
اس کے بعد حرم میں وارد ہوئے اور ضریح کا بوسہ لیااور فرمایا: زیارت پڑھیں.
میں نے عرض کی اے بزرگوار میں اچھی طرح نہیں پڑھ سکتا۔
فرمایا: کیا میں آپ کے لئے پڑھوں؟
میں نے عرض کیا: جی ہاں!
انہوں نے مشہور زیارت ”امین اللہ” پڑھی اور فرمایا: کیا میرے جد امام حسین عليہ السلام کی زیارت کرنا چاہتے ہو؟
میں نے عرض کی: جی ہاں آج شب جمعہ اور امام حسین عليہ السلام کی زیارت کی شب ہے۔
انھوں نے امام حسین عليہ السلام کی مشہور زیارت پڑھی۔
اس کے بعد نماز مغرب کا وقت ہوگیا انہوں نے مجھ سے فرمایا:
نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھیں۔
اور نماز کے بعد وہ بزرگوار اچانک میری نظروں سے غائب ہوگئے۔
میں نے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے!!
تو پھر مجھے خیال آیا کہ سید نے مجھے نام لے کر پکارا تھا اور مجھ سے کہا کہ کاظمین واپس لوٹ جاؤں جبکہ میں نہیں جانا چاہتا تھا۔
انہوں نے عظیم الشان فقہاء کو اپنا وکیل اور آخر کار میری نظروں سے اچانک غائب ہوگئے۔
ان تمام باتوں پر غور و فکر کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام تھے، لیکن افسوس کہ بہت دیر بعد میں نے انہیں پہچانا۔(بحار الانوار, جلد52، صفحہ 315)
(جاری ہے…… )
طالب دعا: علی اصغر سیفی