عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ بحث مہدویت( چوتھی قسط)_غیبت امام مہدی عج(2)_ مصنف: جناب استاد علی اصغر سیفی صاحب

مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ بحث مہدویت( چوتھی قسط)_غیبت امام مہدی عج(2)_ مصنف: جناب استاد علی اصغر سیفی صاحب

(غیبت کے بارے میں اہم سوالات کے جوابات)

دوسرا سوال: کیوں امام زمان عج آنکھوں سے غائب ہوئے یعنی اگر لوگوں کے درمیان ہوتے اور انہیں راہ راست کی طرف راہنمائی کرتے بہتر نہ تھا ؟ اللہ تعالی تو ہر چیز پر قادر ہے اور وہ انہیں کفار سے محفوظ رکھ سکتا ہے؟
جواب:
واضح سی بات ہے اگر امام لوگوں کے درمیان حاضر اور ظاہر ہوتے تو کھلم کھلا لوگوں کی راہنمائی کرتے اور انہیں ہدایت کرتے, تو بہت بہتر تھا لیکن آیا دشمن انہیں ایسی اجازت دیتے؟
پیغمبر(ص) اور آئمہ علیھم السلام نے بہت سے مقامات پرفرمایا کہ :امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ظالم حکومت ختم ہوگی۔ لہذا امام کا مقدس وجود دو قسم کے لوگوں کی توجہ کا حامل بنا:

(١)- مظلوم طبقہ انہیں نجات کی امید سے ديکھتا ہے. (٢)- ظالم طبقہ انہیں اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے اور ان کے قتل کے درپے ہے٬ اور تاریخ میں انہی ظالموں کے ہاتھوں اولیاء خدا اور دین حق کے راہنماؤں کی شہادت کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔
بالخصوص آئمہ اھلبیت(ع) کی شہادت پر تاريخ گواہ ہے۔
اگرچہ اللہ تعالی کی قدرت محدود نہیں ہے٬ لیکن کائنات کانظام اس طرح تخلیق ہواہے کہ تمام کام اسباب اورمعمول کے مطابق انجام پاتے ہیں.
اگر اللہ تعالی چاہے کہ اپنے مقدس انسانوں کی جان کی حفاظت کے لئے کائنات کے جاری نظام کو ختم کردے اور اس کے خلاف عمل کرے, تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نظام تخلیق میں تبدیلی سے پھر دنيا مقام تکلیف و اختیار اور امتحان کی جگہ نہیں ہے. کیونکہ اللہ تعالی اپنی قدرت کی بناء پر لوگوں کے اختیار کو سلب کررہاہے۔
اس کے علاوہ اگر امام عج لوگوں کے درمیان حاضر ہوتے تو یا ظالموں سے جنگ وجہاد سے مصروف ہوتے یا ان کے مد مقابل سکوت اختیار کرتے.
پہلا راستہ اسباب کے مہیا ہونے اور اذن الہی کے تحقق ہونے پر موقوف ہے ٬اس کے بغیر قیام اور جنگ نتیجہ بخش نہیں ہے۔
اگر امام دوسری راہ اختیار کرتے اور مؤمنین دیکھتے کہ حضرت عج ان تمام جنایات اور ظلموں کے مدمقابل سکوت کیے ہوئے ہیں اور یہ سکوت سالھا سال بڑھتا رہتا تو وہ سب دنیا کی اصلاح سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ، اور قرآن کریم کی بشارتوں میں شک کرتے.
لہذا غیبت کا عنوان اسباب کے مہیا ہونے اور لوگوں کے حضرت کے قیام اور وسیع عدالت کے انقلاب کے لئے تیار ہونے کے لئے بہترین راہ ہے۔

تیسراسوال: آیا امام زمان (عج) کی غیبت, ان کی معرفت نہ رکھنے پر دلیل اور عذر نہیں ہے؟ اس حدیث ‘‘من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة” کی روشنی میں لوگ کیسے ایک غائب امام کی معرفت پیدا کریں گے؟
جواب:
امام کی غیبت، ان کی معرفت اور شناخت سے مانع نہیں ہے اور حضرت کی معرفت نہ رکھنے پر دلیل اور عذر بھی قرار نہیں پاسکتي .
کیونکہ معرفت اور شناخت کے لئے ضروری نہیں ہے کہ انسان حضرت عج کی صورت مبارک کو دیکھے بلکہ ان کی شناخت ان کے نام ٬ صفات ٬ فضائل اور ان کي اہم خصوصيات وتعلیمات سے آگاہي پر مشتمل ہے.
اس قسم کي شناخت امام کی ملاقات کی محتاج نہیں ہے.
کیونکہ امام کی معرفت کے لئے ضروری دلائل اور ماخذات٬ کتاب اور علماء دین کی صورت میں موجود ہیں .مثلاً جناب اویس قرنی اھل یمن سے تھے . پیغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانہ ميں زندگی گزارتے تھے٬ ان کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کریں ,لیکن چونکہ ان کی والدہ بوڑھی تھیں اور وہ ان کا خیال رکھتے تھے لہذا پیغمبراکرم(ص) کی مدینہ میں زیارت نہ کرسکے٬ لیکن اسی حالت میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت زیادہ معرفت و شناخت رکھتے تھے اور آپ(ص) نے بھی امیر المؤمنین عليہ السلام کو اویس قرنی کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی تھی.

سوال (4) : آیا شہادت ایک با فضیلت چیز نہیں ہے؟ پس کیوں امام اس سے دوری کررہے ہیں؟
جواب :
اگرچہ شہادت الہی لوگوں کی آرزو ہے لیکن وہ شہادت با فضیلت ہے کہ جو الہی وظیفہ کو انجام دینے اور مسلمانوں اور دین خدا کی خاطر ہو ٬اگر کسی شخص کے قتل ہونے کا مطلب اس کے خون کا ضائع ہونا اور اس کے بلند مقاصد کا ختم ہوناہو تو یہ بے فائدہ ہے. موت کا خوف ایک معقول اور پسندیدہ امر ہے۔ بارہویں امام عج کا قتل ہونا کہ جو آخری الہی ذخیرہ ہیں اس کا مطلب تمام انبیاء کی آرزو کا ختم ہونا ہے اور اللہ تعالی کا قرآنی وعدہ يعني عالمی عادلانہ حکومت کی تشکیل کا پورا نہ ہونا ہے.جس طرح اگر ہم آئمہ معصومین عليھم السلام کی تاریخ کی طرف نگاہ کریں تو واضح انداز سے پاتے ہیں کہ امام علی عليہ السلام کی پچیس سالہ خانہ نشینی ، امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین عليہ السلام کا خونی قیام اور تمام آئمہ علیھم السلام کا سکوت صرف اور صرف دین الہی کی خاطر اور الہی وظیفہ کو انجام دینے کی خاطر تھا, یہاں بھی جان کو غیبت کے ذریعے محفوظ کرنا امر الہی کی اطاعت اور دین الہی کی خاطر ہے.

سوال(5): زمانہ غيبت ميں نائبين کے مقام کو بيان کريں ؟
جواب:
تاريخ کے مطالعہ سے يہ بات ہمارے لئے واضح ہوجاتي ہے کہ آئمہ عليھم السلام کا بالخصوص امام نقي اور امام حسن عسکري عليہما السلام, عباسي ظالم حکمرانوں کي شديد نگراني ميں تھے اور وہ ان کا ہر قسم کارابطہ اور ملاقات کو کنٹرول کرتے تھے.
اس چيز کي بناء پر آئمہ عليھم السلام نے شيعوں کي جان کي حفاظت کے لئے ان سے رابطہ کو کبھي کم اور کبھي ختم کرديتے تھے ۔ ليکن اس عنوان سے کہ شيعوں ميں افتراق نہ پڑے اور ان کا دين و عقائد محفوظ رہيں, ان ميں سے ان کے نائب منتخب کرتے تھے اور لوگوں سے ان کا تعارف کرواتے تھے۔
غيبت کے ابتداء ميں نائب کا انتخاب انتہائي مورد توجہ کا حامل تھا کيونکہ غيبت شروع ہوچکي تھي, امام اور لوگوں کے درميان رابطہ صرف يہي نائب حضرات تھے.
لہذا شيعہ لوگ نائب حضرات کي طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے اور اپني مشکلات ميں اکثرو بيشتر ان کي طرف رجوع کرتے اور چارہ جوئي کرتے تھے۔

مزيد وضاحت:

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کي پربرکت زندگي ظہور سے پہلے تين مراحل ميں تقسيم ہوتي ہے:
زمانہ طفوليت (امامت سے پہلے) غيبت صغري کا دور(مختصر مدت) اور غيبت کبري (طويل مدت).
غيبت صغري اس زمانہ کو کہا جاتا ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ نے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے لئے اپنے ليے نائب منتخب کيے اور لوگوں کو ان کا تعارف کروايا اور یہ نائبین آپ اور لوگوں کے درميان رابطہ کا ذريعہ رہے. يہ افراد مندرجہ ذيل ہيں:
(١)۔ عثمان بن سعيد عمري (٢) محمد بن عثمان سعيد عمري (٣) حسين بن روح نو بختي (٤) علي بن محمد سمري
غيبت صغري کے بعد والے دور کو غيبت کبري کہا جاتاہے کہ اس دور ميں کسي کا امام سے خاص رابطہ نہيں ہے. اس دور ميں شيعوں کي مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے علماء اور فقہاء کو عمومي نائب قرار ديا گياہے .اسحاق بن يعقوب کہتے ہيں: ميں نے عثمان بن سعيد (امام زمانہ عج اللہ کے پہلے خاص نائب) سے خواہش کي کہ ميرے خط کو امام تک پہنچا دو .
ميں نے اس خط ميں ضمناً يہ پوچھا کہ: آپ کي غيبت کے زمانہ ميں کس کي طرف رجوع کريں؟ امام مھدي عليہ السلام نے اپنے خط مبارک سے يوں تحرير فرمايا:
( اَمَّا الْحَوادِثُ الْوَاقِعَۃُ فَاْرجِعُوا فِيْھَا اِلَي رُواۃِ حَدِيثَنَا فَاِنَّھُمْ حُجَّتِي عَلَيْکُم وَ اَنَا حُجَّۃُ اللہ عَلَيْھِم.) (بحار,ج53،ص 181)
آئندہ پيش آنے والے واقعات ميں ہماري احاديث کے رايوں (علماء و فقہاء) کي طرف رجوع کريں۔کيونکہ وہ ميري طرف سے تم پر حجت ہيں اور ميں اللہ تعالي کي طرف سے ان پر حجت ہوں ۔
البتہ واضح سي بات ہے کہ جو بھي امام معصوم(ع) کا نائب بننا چاہتاہے, وہ علم دين کے علاوہ خاص شرائط کا بھي حامل ہو کہ اس عظيم مقام کي شائستگي پيدا کرلے۔
امام حسن عسکري عليہ السلام ايک طولاني حديث کے ضمن ميں فرماتے ہيں: فقہاء اس ميں ہر وہ جو اپنے نفس کو انحراف سے بچانے والا ٬ صبر کرنے والا ٬ دين کا محافظ اور اپني خواہشات نفساني کي مخالفت کرنے والا ہو اور اللہ کے حکم کي اطاعت کرنے والا ہو تو عوام پر ضروري ہے کہ ان کي تقليد کريں۔ (وسائل الشیعۃ,ج27،ص 131)
لہذاجامع الشرائط فقہاء ,امام عليہ السلام کي جانب سے نيابت کے حامل ہيں.
دونوں غيبتوں ميں مندرجہ ذيل فرق ہے:
(١ غيبت صغري کي مدت محدود ہے۔
(٢ اس زمانہ ميں خاص نائبين کا انتخاب براہ راست امام کي جانب سے ہونا۔
(٣ نائبين حضرات امام سے خاص رابطہ رکھتے تھے۔
ليکن غيبت کبري ميں:
(١) اس کي مدت طولاني ہے۔ (٢) اس دور ميں نائبين امام کي جانب سے برارہ راست منتخب نہيں ہوتے بلکہ چند شرائط بيان ہوئي ہيں جو بھي ان شرائط کا حامل ہو، وہ امام کي طرف سے ولايت رکھتا ہے اور ہم پر ضروري ہے کہ اس کي طرف رجوع کريں اور اس کي اطاعت کريں۔
(٣ کوئي بھي خاص نائب نہيں ہے اگر کوئي خاص نيابت کادعوي کرے يا خاص ملاقات اور خاص رابطہ کا دعوي کرے وہ کذاب ہے اور اسے ردّ کرنا ضروري ہے.

سوال 6: امام زمانہ (عج) کے عام نائب حضرات سے مراد کونسے لوگ ہيں؟
جواب:
قران و حدیث کی رو سے ضروری ہے کہ اسلامي معاشرہ ديني احکام کے مطابق چلے ٬ لہذا اس کا سرپرست ايسا مسلمان ہونا چاہئے کہ جو ديني ماخذات اور احکام سے مکمل آگاہ ہو, تاکہ اسلامي قوانين کے مطابق معاشرہ کي راہنمائي کرسکے اور ايسا فرد سوائے فقيہ اور مجتہد کے کوئي اور نہيں ہوسکتا۔
اسحاق بن يعقوب کہتے ہيں: ميں نے امام زمانہ (عج) کے دوسرے خاص نائب( محمد بن عمري) سے چاہا کہ مسائل پر مشتمل ميرا خط حضرت کي خدمت ميں پہنچائيں اور ان سے جواب ليں.
تو جو خط اور توقيع حضرت سے صادر ہوئي اس ميں حضرت نے ان تمام مسائل کا جواب ديا اور مزيد فرمايا:
وَ اَمَّا الْحَوادِثُ الْوَاقِعَۃُ فَاْرجِعُوا فِيْھَا اِلَي رُواۃِ حَدِيثَنَا فَاِنَّھُمْ حُجَّتِي عَلَيْکُم وَ اَنَا حُجَّۃُ اللہ عَلَيْھِم.کمال الدین,2،باب 45،ح)
اس توقيع ميں حضرت عج نے پيش آنے والے مسائل ميں فقہاء اور محمد و آل محمد کي احاديث کے علماء کي طرف رجوع کرنے کا حکم ديا ہے اور انہيں اپني طرف سے حجت قرار ديا ہے۔
عمر بن حنظلہ ايک روايت نقل کرتے ہيں کہ علماء اسے قبول کرتے ہيں  لہذا وہ مقبولہ کے نام سے شہرت پاگئي اس روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے شيعوں کي مشکلات اور مسائل ميں شرعي وظيفہ اور وہ کس طرف رجوع کريں, پوچھا گيا. اس ميں امام سے نقل ہوا ہے:
ينظران من کان منکم ممن قد روي حديثنا و نظر في حلالنا و حرامنا احکامنا فليرضوا بہ حکما٬ فانّي قد جعلتہ عليکم حاکما٬ فاذا حکم بحکمنا فلم يتصل منہ ٬ فانما استخف بحکم اللہ و علينا ردّ والراد علينا الراد علي اللہ و ھو علي حدّ الشرک باللہ.(وسائل الشیعۃ, ج3،ب11،ص140.)
تم شيعوں ميں سے ہر ايک ان کي طرف ديکھے کہ جو ہماري حديثوں کي روايت کرتے ہيں ہمارے حلال و حرام ميں غور و فکر کرتے ہيں اور ہمارے احکام کو پہنچانتے ہيں پس اس کے حکم پر راضي ہوں ميں اس کو تم لوگوں پرحاکم قرار ديتا ہوں جب وہ ہمارے حکم کے مطابق حکم کرے اورجو شخص اسے قبول نہ کرے, بلاشبہ اس نے اللہ کے حکم کو حقير سمجھا اور ہميں ردّ کيا ہے اور جو ہميں ردّ کرتاہے اس نے اللہ کو ردّ کيا اور خدا کے ساتھ شرک کي حد ميں ہے۔
حلال و حرام سے آگاہ فرد سے مراد فقيہ ہے کہ جو احاديث و روايات ميں غور و فکر کے ساتھ دين کے احکام سے آشنا ہوتاہے .امام صادق عليہ السلام ايسے فرد کو شايستہ سمجھتے ہيں اور لوگوں پر اس کي طرف رجوع کرنے اور اس کا حکم قبول کرنا لازم قرار دے رہے ہيں اور اسے حاکم قرار دے رہے ہيں۔
امام علي عليہ السلام، پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي زبان مبارک سے نقل کرتے ہيں:
اللھم ارحم خلفائي ثلاثاً ٬ قيل: يا رسول اللہ و من خلفائک؟
قال: الذين يأتون بعدي يروون حديثي و سنتي .
پروردگارا ميرے خلفاء پر رحم فرما يہ جملہ تين بار تکرار فرمايا: پوچھا گيا: اے رسول خدا آپ کے خلفاء کون ہيں؟
فرمايا: جو ميرے بعد آئيں گے اور ميري حديث و سنت کو نقل کريں گے۔
خليفہ کا معني واضح ہے يعني پيغمبر(ص) کا جانشين اور ايسافرد جو ان کے بعد ان کے مقام پر قرار پائے گا اور ان تمام امور کو سنبھالے گا کہ جو پيغمبر(ص) انجام ديتے تھے يعني معاشرے کي سرپرستي اور رہبري البتہ اس ميں وہ خصوصيات اور صفات کہ جو ذات پيغمبر(ص) کا خاصہ ہيں ٬ نہيں ہيں۔ يعني وحي کا حصول اور ابلاغ وغيرہ۔
يہاں اہم ترين اور قابل توجہ نکتہ يہ ہے کہ حضرت نے اپنے جانشين کي سب سے بڑي خصوصيت کي طرف اشارہ کيا کہ وہ ان کي حديث و سنت کا راوي اور دين کے احکام سے آشنا ہے تو اس روايت کي روشني ميں صرف اسلام شناس اور فقيہ ہي معصوم کي نيابت کا لائق ہے۔

سوال 7:غيبت صغري کا دور ہي کيوں آگے نہ بڑھا اور ہمارے زمانہ ميں نائب خاص کيوں نہيں ہے ؟
جواب:
روايات ميں غور وفکر کرنے سے يہ بات واضح ہوجاتي ہے کہ غيبت ناگريز تھي اور غيبت سے مراد امام(عج) کا لوگوں کے درميان بظاہر موجود نہ ہونا اور لوگوں کا ان تک نہ پہنچنا ہے کہ جو در اصل غيبت کبري ہے ۔
لہذا غيبت صغري ايک عارضي پروگرام تھا شيعوں کو حقيقي غيبت کے زمانہ ميں داخل ہونے کے لئے تيار کيا جائے ۔ غيبت صغري کے مندرجہ ذيل اھداف تھے:

(١ امام کے وجود کااثبات:
امام حسن عسکري عليہ السلام کے زمانہ کے حالات کے پيش نظر امام مہدي عليہ السلام کي ولادت مخفي صورت ميں انجام پائي۔
واضح رہے کہ اس حالت ميں شيعہ حضرات ان کي ولادت سے آگاہ نہ ہونے کي وجہ سے مشکلات اور فکري اضطراب کا شکار ہوتے ٬ تو يہاں امام کے خاص نائب کا وجود کہ جو امام اور لوگوں کے درميان رابطہ تھا اور لوگوں کے خطوط امام کے حضور پہنچاتا تھا اور ان سے جواب ليتا تھا کہ يہ خود امام کے وجود پر محکم دليل تھي۔

(٢)۔ علماء کي مرجعيت کا اثبات:
غيبت صغري کے دور ميں يہ فرصت مہيا ہوئي ہے کہ لوگ غير معصوم شخص کو اپنا سرپرست قبول کريں اور اپنے امور ميں اس کي طرف رجوع کريں دوسرے لفظوں ميں يہ زمانہ شيعوں کي تربيت کا مختصر سا دور تھا کہ جس ميں وہ امام کو نہ ديکھنے اور اس کے جانشين کي مکمل اطاعت کي عادت پيدا کريں اور اس کي بات کو امام کي کلام کي مانند قبول کريں۔

(٣)۔ آخري راہنمائي:
نائب خاص کے وجود نے يہ فرصت فراہم کي تھي کہ شيعہ لوگ خطوط کے ذريعے عقائد اور فقہي احکام کے بارے ميں جديد ترين سوالات پوچھيں اور امام بھي اپنے پيغامات اور احکامات لوگوں تک پہنچائيں اور ان کي ضرورت کے مطابق آخري حد تک ارشادات اور راہنمائي سے نوازے۔

(٤ غيبت کے لئے مکمل آمادگي کہ اس کي بحث گزرچکي ہے۔

سوال 8:ہم اس غیبت امام عج کے دور میں ان سے کیا فائدہ و فیض حاصل کرسکتے ہیں, کیونکہ امام عج تو ہماری دسترس میں نہیں ہیں. ہمارے بعض اہلسنت کے دوست یہ کہتے ہیں اس امام کا کیا فائدہ جو غائب ہو؟

جواب :
یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے معروف صحابی حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری نے حضور سے کیا کہ:
کیا اس زمانے میں ہم حجت خدا اور امام کے وجود سے فایدہ اٹھاسکیں گے؟ اگر مستفیض ہوں گے تو کیسے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جابر کے سوال کے جواب میں فرمایا :
و الذی بعثنی باالنبوۃ انہم یستضیئوون بنورہ و ینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کاانتفاع النّاس بالشّمس و ان تجللہا السحاب(کمال الدین ، ج۱، باب ۲۳ ، حدیث ۳)
قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبوت کا منصب دے کر مبعوث کیا ہے ، یقیناً لوگ (غیبت کے زمانے میں) امام غایب کے وجود کی نور سے منور ہوں گے اور ان کی ولایت (اور وجود) سے اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح سورج سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے اگر چہ بادلوں نے اسے (سورج) چھپا دیا ہو ۔
اور خود حضرت مہدی عج نے فرمایا :
و اما وجہ الانتفاع بی فی غیبتی فکا الانتفاع بالشمس اذا غیبّتہا عن الأبصارالسّحاب(کمال الدین ، ج۲، باب۴۵،ح۴)
جہاں تک میری غیبت کے زمانے میں مجھ سے مستفیض ہونے کی بات ہے تو لوگ مجھ سے اسی طرح فایدہ اٹھائیں گے جس طرح سورج سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے کہ جب سورج بادل کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے.
اس وجہ تشبیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:
۱۔ جس طرح سورج اس منظومہ شمسی کا مرکز اور محور ہے اور زمین اور دیگر سیارےاس کی گرد گھومتے اور چکر لگاتے ہیں اور اگر سورج کو ان کے درمیان سے ہٹا لیا جائے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا ۔
خدا کی حجت اور امام معصوم(ع) کا مقام و منزلت بھی خدا کے نزدیک ایسا ہی ہے اور اگر یہ کرۂ خاکی خدا کی حجت اور امام معصوم(ع) کے وجود سے خالی ہوجائے تو یہ زمین اور انسانی معاشرہ کا نطام درہم برہم ہوجائے گا اور کوئی ذی روح زندہ نہ رہ سکے گی.
چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
لو بقیت الأرض بغیر امام لساخت(اصول کافی ، ج۱، ص۱۷۹)
اگر زمین خدا کی حجت اور معصوم امام(ص) کے وجود سے خالی ہوجائے اور باقی رہ جائے تو یہ اپنے اہل کے ساتھ دھنس جائے گی ۔
۲۔ جس طرح سورج کی گرمی اور نور بادلوں کے پیچھے سے زمین تک پہونچتا ہے اور زمین کی روشنی اور گرمی کا سبب بنتا ہے بالکل اسی طرح معصوم امام(ع) اور خدا کی حجت کے وجود کی برکات پردہ غیب میں رہتے ہوئے بھی لوگوں تک پہونتی رہتی ہے اور انسانی معاشرہ آپ کے وجود سے مستفیض ہوتا ہے ۔
ضروری ہے کہ یہاں پر امام معصوم(ع) کے وجود کے آثار اور فواید کے بارے میں ذرا تفصیل سے بحث کریں (تا کہ قارئین زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کر سکیں).
مکتب تشیع میں امام علیہ السلام کے وجود کے فوائد کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ وہ آثار اور فوائد جو امام معصوم(ع) کے اصل وجود کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں اور غیبت یا حضور امام سے مربوط نہیں ہیں۔
۲۔ وہ آثار فوائد جو امام معصوم(ع) کے حضور اور ظہور پر منحصر ہیں ۔
غیبت کبری میں امامت کے تمام فیوض و برکات در اصل ان آثار و فواید میں منحصر ہیں جو امام کے وجود اور غیبت میں انکے افعال وکردار پر مترتب ہوتے ہیں …

(جاری ہے…..)
اللھم عجل لولیک الفرج
طالب دعا:علی اصغر سیفی

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید