سلسلہ بحث مہدویت(آٹھویں قسط)- موضوع:انتظار امام عصر (عج)_ مصنف: استاد مهدویت علی اصغر سیفی صاحب
سلسلہ بحث مہدویت(آٹھویں قسط)- موضوع:انتظار امام عصر (عج)_ مصنف: استاد مهدویت علی اصغر سیفی صاحب
انتظار کی تعریف اور اہمیت:
”انتظار” کے مختلف معانی کئے گئے ہیں، لیکن اس لفظ پر غور و فکر کے ذریعہ اس کے معنی کی حقیقت کوپایا جا سکتا ہے۔
انتظار کے معنی کسی کے لئے چشم براہ ہونا اور کسی کے لئے آنکھیں بچھانا ہے اور انتظار کی قدروقیمت کا دارومدار اس بات پر ہوتاہے کہ کس کا انتظار کیا جارہا ہے اور کیوں انتظار کیا جارہا ہے.
اسی طرح انتظار کے ثمرات کا دارومدار بھی اس بات پر ہے۔
انتظار صرف ایک روحانی اور اندرونی حالت نہیں ہے بلکہ اندر سے باہر کی طرف اثر کرتی ہے اورسرگرمی اور تحرک کا موجب بنتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روایات میں ”انتظار” کو ایک عمل بلکہ تمام اعمال میں بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔
انتظار ”منتظر” کوشخصیت اور اس کے کاموں اور اس کی کوششوں کو ایک خاص سمت عطا کرتا ہے اور انتظار وہ راستہ ہے جو اسی چیز پر جاکر ختم ہوتا ہے جس کا انسان انتظار کرتا ہے۔
لہٰذا ”انتظار” کے معنی یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے، انتظار اسے نہیں کہتے کہ انسان دروازہ پر آنکھیں جمائے رکھے اور حسرت لئے بیٹھا رہے، بلکہ در حقیقت ”انتظار” میں نشاط اور شوق و جذبہ پوشیدہ ہوتا ہے.
جو لوگ کسی محبوب مہمان کے انتظارمیں ہوتے ہیں وہ خود اور اپنے اطراف کے ماحول کو مہمان کے لئے تیار کرتے ہیں اور اس کے راستہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں۔
امام زمانہ عليہ السلام کے انتظار کے بارے میں گفتگو اس بے نظیر واقعہ کے تحقق کے بارے میں گفتگو ہے کہ جس کی خوبصورتی اور کمال کی کوئی حد نہیں ہے. انتظار اس زمانہ کا ہے کہ جس کی خوشی اور شادابی کی مثال گزشتہ ادوار میں نہیں ملتی اور یہ وہی حضرت امام زمانہ عليہ السلام کی عالمی حکومت کا انتظار ہے, جس کو روایات میں ”انتظار فرج” کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اس کو اعمال و عبادت میں سے بہترین عبادت قرار دیا گیا ہے، بلکہ تمام اعمال کے قبول ہونے کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔
حضرت پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
‘‘میری امت کا سب سے بہترین عمل (امام مہدی عليہ السلام کے ) ظہو ر کا انتظار ہے ”۔ (بحار الانوار, ج 52، ص122 )
حضرت امام صادق عليہ السلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
”کیا تم لوگوں کو اس چیز کے بارے میں آگاہ نہ کروں جس کے بغیراللہ تعالی اپنے بندوں سے کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا؟
سب نے کہا: جی ہاں!
امام عليہ السلام نے فرمایا:
خدا کی وحدانیت کا اقرار، پیغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی، خداوندعالم کی طرف سے نازل ہونے والی چیزوں کا اقرار اور ہماری ولایت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اور آئمہ علیہم السلام کی اطاعت ، تقویٰ و پرہیزگاری اور کوشش و بردباری اور قائم آل محمد عج کا انتظار”۔(غیبت نعمانی. باب 11، ص 207)
پس ‘‘انتظار فرج” ایسا انتظار ہے جس کی کچھ خاص خصوصیات اور منفرد امتیازات ہیں جن کو کماحقہ پہچاننا ضروری ہے تاکہ اس کے بارے میں بیان کئے جانے والے تمام فضائل اور آثار کا راز معلوم ہوسکے۔
امام زمانہ عليہ السلام کے انتظار کی خصوصیات:
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ‘‘انتظار‘‘ایک فطری امر ہے اور ہر قوم و ملت اور ہر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ہے، لیکن انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں پایا جانے والا عام انتظار اگرچہ عظیم اور با اہمیت ہو لیکن امام مہدی عليہ السلام کے انتظار کے مقابلہ میں چھوٹا اور ناچیز ہے کیونکہ آپ کے ظہور کا انتظارخاص خصوصیات رکھتا ہے:
امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور کا انتظار ایک ایسا انتظار ہے جو کائنات کی ابتداء سے موجود تھا۔
یعنی بہت قدیم زمانہ میں انبیاء اور اولیائے کرام آپ کے ظہور کی بشارت دیتے تھے,اور قریبی زمانہ میں ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام آپ کی حکومت کے زمانہ کی آرزو رکھتے تھے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہیں:
”اگر میں ان (امام مہدی عليہ السلام ) کے زمانہ میں ہوتا تو تمام عمر ان کی خدمت کرتا”۔(غیبت نعمانی. باب 13،ص 252)
امام مہدی عليہ السلام کا انتظار ایک عالمی اصلاح کرنے والے کا ا نتظار ہے، عالمی عادلانہ حکومت کا انتظار ہے اور تمام اچھائیوں کا انتظار ہے۔
چنانچہ اسی انتظار میں عالم بشریت آنکھیں بچھائے ہوئے ہے اور انسان خدا داد پاک و پاکیزہ فطرت کی بنیاد پر اس کی تمنا کرتا ہے۔ اور حضرت امام مہدی عليہ السلام اسی شخصیت کا نام ہے جو عدالت اور معنویت، برادری اور برابری، زمین کی آبادی ، صلح و صفا ، عقل کی شگوفائی اور انسانی علوم کی ترقی کا تحفہ لائیں گے اور استعمار و غلامی ، ظلم و ستم اور تمام اخلاقی برائیوں کا خاتمہ کرنا آپ کی حکومت کا ثمرہ ہوگا۔
امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار کا پھول فقط اسی صورت میں کھلے گا جب اس کے کھلنے کے اسباب فراہم ہوں گے اور ایسا وقت ہو گا جب تمام انسان آخری زمانے کے مصلح اور نجات دہندہ کی تلاش میں ہوں گے.
وہ آئیں گے تاکہ اپنے مددگاروں کے تعاون سے برائیوں کے خلاف قیام کریں ؛نہ یہ کہ صرف معجزہ سے پوری کائنات کے نظام کو بدل دیں۔
امام مہدی عليہ السلام کا انتظار ان کے منتظرین میں ان کی نصرت و مدد کا شوق پیدا کرتا ہے اور انسان کو شخصیت اور حیات عطا کرتا ہے اور اسے بے مقصد زندگی اور گمراہی سے نجات عطا کرتا ہے۔
یہ تھیں اس انتظار کی بعض خصوصیات جواتنا طولانی ہے جتنی تاریخ اور ہر انسان کی روح میں اس کی جڑیں ملتی ہیں اور کوئی دوسرا انتظار اس عظیم انتظار کی خاک پا کے برابربھی نہیں ہوسکتا۔
لہٰذا مناسب ہے کہ ہم امام مہدی عليہ السلام کے انتظار کے مختلف پہلوؤں اوراس کے آثار و فوائد کو پہچانیں اور آپ کے ظہور کے منتظرین کے فرائض اوراس کے بے نظیر ثواب کے بارے میں گفتگو کریں۔
انتظار کے مختلف پہلو:
انسان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں: ایک طرف تواس میں نظریاتی اور عملی پہلو موجود ہے اور دوسری طرف اس میں انفرادی اور اجتماعی پہلو بھی پایا جاتاہے اور ایک زاویے سے وہ جسمانی پہلو بھی رکھتاہے اور اس کے ساتھ ساتھ روحانی اور نفسیاتی پہلو بھی اس میں موجود ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے مذکورہ پہلوؤں میں سے ہر پہلو کے لئے ایک معین لائحہ عمل ضروری ہے تاکہ انسان اس کے مطابق زندگی گزار سکے اور انحراف اور گمراہی کا شکار نہ ہو بلکہ سیدھے راستے پر قدم بڑھا سکے یہ سیدھا راستہ وہی امام مہدی(عج) کے انتظار کاراستہ ہے۔
امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور کا انتظار،ایک منتظر انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پراثر انداز ہوتا ہے.
آپ کا انتظار انسان کی فکرو نظر پر جو کہ اس کے اعمال و کردار کی اساس ہے اس پراثر انداز ہوتاہے اور انسانی زندگی کے بنیادی عقائدکی حفاظت کرتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جاسکتا ہے کہ صحیح انتظار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ منتظر اپنی اعتقادی اور فکری بنیادوں کو مضبوط کرے تاکہ گمراہ کرنے والے مذاہب کے جال میں نہ پھنس جائے یا امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہوجانے کی وجہ سے مایوسی و ناامیدی کی دلدل میں نہ پھنس جائے۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہیں:
”لوگوں پر ایک زمانہ وہ آئے گا کہ جب ان کا امام غائب ہوگا، خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس زمانہ میں ہمارے امر (یعنی ولایت) پر ثابت قدم رہے”۔(کمال الدین, ج15، ص602)
یعنی غیبت کے زمانہ میں دشمن نے مختلف شبہات کے ذریعہ یہ کوشش کی ہے کہ شیعوں کے صحیح عقائد کو ختم کردیا جائے، لیکن انتظار کے مورچے میں موجود ہونے کی برکت سے عقائد کی سرحدوں کی حفاظت ہو جاتی ہے۔
امام زمانہ عليہ السلام کاانتظار ، انسان کے اعمال اور کردار کو درست راستہ اور سمت دیتا ہے۔
ایک حقیقی منتظر کو عمل کے میدان میں کوشش کرنی چاہئے کہ امام مہدی عليہ السلام کی حکومت حق کا راستہ ہموارہوجائے، لہٰذا منتظر کو اس سلسلہ میں اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے کمرِہمت باندھنا چاہئے۔
نیز اپنی ذاتی زندگی میں اپنی روحانی اور نفسیاتی حیات اور اخلاقی فضائل کو کسب کرنے کی طرف مائل ہو اور اپنے جسم و بدن کو مضبوط کرے تاکہ امام زمانہ عليہ السلام کے ایک کار آمد سپاہی کی حیثیت سے نورانی محاذ کے لئے تیار ہو سکے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہیں:
”جو شخص چاہتا ہے کہ امام قائم عليہ السلام کے ناصرین و مددگاروں میں شامل ہواسے انتظار کرنا چاہئے اور انتظار کی حالت میں تقویٰ و پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور نیک اخلاق سے مزین ہونا چاہئے”۔(غیبت نعمانی, باب 1،ص 200)
اس ”انتظار” کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو اپنی ذات سے بالا تر کر دیتا ہے اور اس کو معاشرہ کے ہر شخص سے جوڑ دیتا ہے۔ یعنی انتظار نہ صرف انسان کی ذاتی و انفرادی زندگی میں موثر ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے خاص منصوبہ بھی پیش کرتا ہے اور معاشرہ میں مثبت قدم اٹھانے کی رغبت بھی دلاتا ہے اور چونکہ حضرت امام مہدی عليہ السلام کی حکومت اس وقت قائم ہوگی جب پورا عالمی معاشرہ اس کی آمادگی رکھتا ہوگا ۔
لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور معاشرہ میں برائیوں کے پھیلنے پر خاموش تماشائی نہ بنا رہے, کیونکہ عالمی مصلح کے منتظر کوسب سے پہلے ذاتی طور پر فکر و عمل کے لحاظ سے اصلاح اور خیرکا راستہ اپنانا چاہے۔
مختصر یہ ہے کہ ”انتظار” ایک ایسامبارک نورہے جو ایک منتظر انسان اور معاشرہ کی رگوں میں دوڑتا ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو الٰہی رنگ عطا کرتا ہے۔
اورکونسا رنگ خدائی رنگ سے بہتر اور پائیدار ہوسکتا ہے؟!
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
( …صِبْغَةَ اللَّہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِن اللّہِ صِبْغَةً وَنَحنُ لَہُ عَابِدُونَ… )
”رنگ تو صرف اللہ کا رنگ ہے اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے اور ہم سب اسی کے عبادت گزار ہیں ”۔(بقرہ,138)
مذکورہ بالامطالب کے پیش نظر مصلح کل حضرت امام زمانہ عليہ السلام کے منتظرین کا فریضہ ”الٰہی رنگ میں خود کو رنگ لینے ” کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو انتظار کی برکت سے انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔
اگر انتظار کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہو تو پھر ہمارے فرائض ہمارے لئے مشکل نہیں ہوں گے بلکہ انتظار کا یہ خوشگوار عنصرہماری زندگی کے ہر پہلو کو ایک بہترین معنی و مفہوم عطا کرے گا۔
واقعاً اگر مہربانی کے ملک کا حاکم اورعشق و محبت کے کاروان کا قافلہ سالار آپ کو ایک لائق سپاہی کی حیثیت سے ایمان کے خیمہ کی حفاظت کے لئے بلائے اور حق و حقیقت کے مورچہ پر آنے کا انتظار کرے تو پھرآپ کی حالت کیسی ہوگی؟
آیا پھر بھی آپ کو بتانا پڑے گا کہ فلاں کام کرو اورفلاں کام نہ کرویا آپ خود ہی راستہ کو پہچان کر اپنے منتخب مقصد کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے نظر آئیں گے!
منتظرین کے فرائض:
روایات میں امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور کا انتظار کرنے والوں کے بہت سے فرائض بیان کئے گئے ہیں، ہم یہاں پر ان میں سے چند اہم فرائض کو بیان کرتے ہیں:
امام(عج) کی معرفت:
انتظارکے راستے کو امام عليہ السلام کی شناخت اور معرفت کے بغیر طے کرناممکن نہیں ہے۔
انتظار کی وادی میں استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا امام عليہ السلام کی صحیح شناخت سے ہی مربوط ہے۔
لہٰذا امام مہدی عليہ السلام کے نام و نسب کی شناخت کے علاوہ ان کی عظمت اور ان کے رتبہ و مقام کی گہری شناخت اور آگاہی بھی ضروری ہے۔
”ابو نصر” جو امام حسن عسکری عليہ السلام کے خدمت گزار تھے، امام مہدی عليہ السلام کی غیبت سے پہلے امام عسکری عليہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے ان سے سوال کیا: کیا مجھے پہچانتے ہو؟
انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا کے فرزند ہیں!
امام عليہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نہیں ہے!؟
ابو نصر نے عرض کی: آپ ہی فرمائیں کہ آپ کا مقصد کیا تھا؟
امام عليہ السلام نے فرمایا:
”میں پیغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا آخری جانشین ہوں اور خداوندعالم میری (برکت کی) وجہ سے ہمارے خاندان اور ہمارے شیعوں سے بلاؤں کو دور فرماتا ہے”۔
(کمال الدین,ج2،باب 43 ,ص 171)
اگر منتظر کو امام عليہ السلام کی معرفت حاصل ہوجائے تو پھر وہ اسی وقت سے خود کو امام عليہ السلام کے ہمراہ محاذ پر دیکھے گا اور احساس کرے گا کہ وہ امام عليہ السلام کے خیمہ میں اور ان کے نزدیک ہے، لہٰذا اپنے امام کے محاذ کو مضبوط بنانے میں پَل بھر کے لئے کوتاہی نہیں کرے گا۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہیں:
”… مَنْ مَّاتَ وَ ھوَ عَارِف” لِاِمَامِہِ لَمْ َیضُرُّہْ، تَقَدُّمَ ھذٰا الاَمَرُ اَو تَاخَّرَ، وَ مَن مَّاتَ وَ ہُوَ عَارِف لِاِمَامِہِ کَانَ کَمَنْ ھُوَ مَعَ القَائِمِ فِی فُْسْطَاطِہِ”
”جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ہو تو اسے ظہور کا جلد یا تاخیر سے واقع ہونا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اپنے امام زمانہ کو پہچانتا ہو تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو امام کے خیمہ میں امام کے ساتھ ہو”۔
(اصول کافی, ج1,باب 84 ,ص 433)
قابل ذکر ہے کہ یہ معرفت اور شناخت اتنی اہم ہے کہ معصومین علیہم السلام کے کلام میں بیان ہوا ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لئے خداوندعالم کی نصرت و مدد طلب کرنا چاہئے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمایا:
”حضرت امام مہدی عليہ السلام کی طولانی غیبت کے زمانہ میں باطل خیال کے مالک لوگ (اپنے دین اور عقائد میں) شک و تردید میں مبتلا ہوجائیں گے۔
امام عليہ السلام کے خاص شاگرد جناب زرارہ نے کہا: آقا اگر میں اس زمانہ میں ہوا تو کونسا عمل انجام دوں؟
امام صادق عليہ السلام نے فرمایا: اس دعا کو پڑھو:
”اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَاِنَّکَ ان لَم تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَم اَعْرِف نَبِیَّکَ، اَللّٰہُمَّ عَرِّفنِی رَسُوْلَکَ فَانَّکَ ان لَم تُعَرِّفنِی رَسُولَکَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَکَ، اَللّٰہُمَّ عَرِّفنِی حُجَّتَکَ فَاِنَّکَ ان لَم تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلتُ عَنْ دِیْنِی”
”پرودگارا! مجھے تو اپنی ذات کی معرفت عطا کرکہ اگر تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا نہ کی تو میں تیرے نبی کو نہیں پہچان سکوں گا۔
پرودگارا! تو مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا کرکہ اگر تو نے اپنے رسول کی پہچان نہ کروائی تو میں تیری حجت کو نہیں پہچان سکوں گا.
پروردگارا! تو مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کروائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا”۔
(غیبت نعمانی,باب 10 ,حدیث 3،ص 170)
اب تک نظام کائنات کے مجموعہ میں امام عليہ السلام کی عظمت کی معرفت کو بیان کیا گیا ہے اوریہ کہ آپ خداوندعالم کی طرف سے حجت اور پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے حقیقی جانشین اور تمام لوگوں کے ہادی و رہبر ہیں کہ جن کی اطاعت سب پر واجب ہے، کیونکہ ان کی اطاعت خداوندعالم کی اطاعت ہے۔
معرفت امام کاایک اور پہلو امام عليہ السلام کی پر نورصفات اور ان کی سیرت طیبہ کی معرفت ہے۔
معرفت کا یہ پہلو انتظار کرنے والے کے کردارو گفتار پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انسان کو امام عليہ السلام اور حجت خدا کی مختلف زاویوں سے جتنی گہری معرفت ہوگی اس کی زندگی میں اتنے ہی آثار پیدا ہوں گے۔
منتظرین کا دوسرا فریضہ:
نمونہ عمل :جس وقت امام عليہ السلام کی معرفت اور ان کی سیرت کے خوبصورت جلوے ہماری نظروں کے سامنے ہوں گے , تو اس مظہر کمالات کو نمونہ قرار دینے کی بات آئے گی۔
پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو میری نسل میں سے قائم(عج) کو اس حال میں دیکھیں کہ ان کے قیام سے پہلے خود ان کی اور ان سے پہلے آئمہ کی اقتداء کرتے ہوں اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتے ہو۔ ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ہیں اور یہی لوگ میرے نزدیک میری امت کے سب سے معززو عظیم افراد ہیں”۔ ( کمال الدین،ج١،باب٢٥،ح٣،ص٥٣٥.)
واقعاً جو شخص تقویٰ، عبادت، سادگی، سخاوت، صبر اور تمام اخلاقی فضائل میں اپنے امام کی پیروی کرے تو اس الٰہی رہبر کے نزدیک ایسے شخص کا رتبہ کس قدربلند ہوگا اور ان کے حضور میں شرفیابی سے کس قدر سرفراز اور سربلند ہوگا؟!
کیا ایسا نہیں ہے کہ جو شخص دنیا کے سب سے خوبصورت موجود کا منتظر ہے وہ اپنے وجود کو خوبیوں سے آراستہ کرتا ہے اور خود کو برائیوں اور اخلاقی پستیوں سے دور رکھتا ہے؟!
نیز انتظار کے لمحات میں اپنے افکار و اعمال کی حفاظت کرتا رہے؟!
اگر ایسانہ ہو تو انسان آہستہ آہستہ برائیوں کے جال میں پھنس جائے گا اور اس کے اوراس کے امام کے درمیان فاصلہ زیادہ ہوتا جائے گا۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو خود خطرات سے آگاہ کرنے والے امام عليہ السلام کے کلام میں بیان ہوئی ہے:
”فَمَا یَحْبِسُنَا عَنہُم الاَّ مَا یَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نُکْرِہُہْ وَلاٰ نُوُثِرُہُ مِنْہُم” ( بحار الانوار ج٥٣،ص ١٧٧.)
”کوئی بھی چیز ہمیں شیعوں سے جدا نہیں کرتی، مگر خود ان کے وہ (برے) اعمال جو ہمارے پاس پہنچتے ہیں جن اعمال کو ہم پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ایسے کاموں کی ہمیں اپنے شیعوں سے توقع ہے!”۔
منتظرین کی آخری آرزو یہ ہے کہ امام مہدی عليہ السلام کی عادلانہ عالمی حکومت کی تشکیل میں کچھ حصہ ان کا بھی ہو اور اس آخری حجت خدا کی نصرت و مدد کا فخر ان کو بھی حاصل ہو، لیکن اس عظیم سعادت کو حاصل کرنا خود سازی اور اخلاقی صفات سے آراستہ ہوئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہیں:
”مَنْ سَرَّہ ان یَکُونَ مِن اصحَابِ القَائِمِ فَلْیَنْتَظِرُ و لْیَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الاَخْلاَقِ وَ ہُوَ مُنْتَظِر”
‘‘جو شخص یہ چاہتا ہو کہ حضرت قائم عليہ السلام کے مدگاروں میں شامل ہو تو اسے منتظر رہنا چاہئے اور انتظار کے دوران تقویٰ اور پرہیزگاری اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ہونا چاہیے”۔( غیبت نعمانی ،باب١١،ح ١٦،ص٢٠٧.)
یہ بات روشن ہے کہ ایسی آرزو تک پہنچنے کے لئے خود امام مہدی عليہ السلام سے بہتر کوئی نمونہ نہیں مل سکتا جو تمام خوبیوں کا آئینہ ہے۔
منتظرین کا تیسرا وظیفہ:
امام عليہ السلام کی یاد:جو چیز امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی معرفت حاصل کرنے اور آپ کی پیروی کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور انتظار کی راہ میں پائیداری و استقامت عطا کرتی ہے ، وہ روحوں اور دلوں کے طبیب (امام مہدی عليہ السلام ) سے ہمیشہ رابطہ برقرار رکھنا ہے۔
واقعاً جب وہ مہربان امام ہر وقت اور ہر جگہ شیعوں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کوکبھی نہیں بھولتے تو کیا یہ مناسب ہے کہ ان کے چاہنے والے دنیاوی امور میں مست ہو جائیں اور اس محبوب امام سے غافل اور بے خبرہوجائیں؟
یا دوستی اور محبت کی راہ و رسم یہ ہے کہ ہر حال میں ان کو اپنے اور دوسروں پر مقدم رکھا جائے، جس وقت مصلائے دعا پر بیٹھیں ان کی سلامتی اور ظہور کے لئے دست دعا بلند کریں. جس کے لئے خود حضرت(عج) نے بھی فرمایا ہے:
”میرے ظہور کے لئے بہت دعا کیا کرو کہ اس میں خود تمہاری گشائش بھی ہے۔” ( کمال الدین،ج١، باب٤٥،ح٤ص٢٣٧.)
لہٰذا ہمیشہ یہ دعا ہماری ورد زبان رہے:
”اَللَّہُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الحُجَّةِ بْنِ الحَسَنِ صَلَوٰاتُکَ عَلَیہِ وَ عَلٰی آبَائِہِ فِی ہَذِہِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَةٍ وَلِیاً وَ حَافِظاً وَ قَائِداً وَ نَاصِراً وَ دَلِیلاً وَ عَیناً حَتّٰی تُسکِنَہُ اَرْضَکَ طَوْعاً وَ تُمَتِّعَہ فِیْہَا طَوِیْلاً”۔
‘‘پروردگارا! اپنے ولی حجت بن الحسن کے لئے کہ تیرا درود و سلام ہو ان پر اور ان کے آباء و اجداد پر ، اس وقت اور ہر وقت سرپرست اور محافظ، رہبر، ناصر و مددگار، راہنما اور نگہبان بن جا، تاکہ ان کو اپنی زمین میں اپنی رغبت اور مرضی سے سکونت دے اور ان کو طولانی زمانہ تک زمین پربہرہ مند فرما”۔
( کمال الدین،ج١ ،باب٤٥،ح٤ص٢٣٧.)
حقیقی منتظر صدقہ دیتے وقت پہلے اپنے امام عليہ السلام کے وجود شریف کو مدّ نظر رکھتا ہے اور ہر طریقہ سے اس محبوب کے دامن سے متوسل ہوتا ہے اور ان کے مبارک ظہور کا مشتاق رہتا ہے اور ان کے بے مثال جمال پْر نور کے دیدار کے لئے آہ و نالہ کرتا رہتا ہے۔
”عَزِیز عَلَیَّ اَنْ اَرَی الخَلْقَ وَ لَا تُریٰ” ( مفاتیح الجنان،دعائے ندبہ.)
”(واقعاً) میرے لئے کتنا سخت ہے کہ میں سب کو دیکھوں لیکن آپ کا دیدار نہ ہوسکے!!”۔
راہ انتظار پر چلنے والا (عاشق) امام مہدی عليہ السلام کے نام سے منسوب محافل اور مجالس میں شریک ہوتا ہے تاکہ اپنے دل میں ان کی محبت کی جڑوں کو مستحکم کرے اور امام عصر عليہ السلام کے نام سے منسوب مقدس مقامات جیسے مسجد سہلہ، مسجد جمکران اور سرداب مقدس میں حاضر ہوتا رہتا ہے۔
امام مہدی عليہ السلام کے ظہور کا انتظار کرنے والوں کی زندگی میں آپ کی یاد کا بہترین جلوہ یہ ہے کہ ہر روز اپنے امام عليہ السلام سے تجدید عہد کریں اور وفاداری کا پیمان باندھیں اور اس عہد نامے پر برقرار رہنے کا اعلان کریں۔
جیسا کہ دعائے عہد کے فقرات میں ہم پڑھتے ہیں:
”اللّٰہُمَّ اِنیِّ اُجَدِّدُ لَہُ فی صَبِیحَةِ یَوْمِی ہَذَا وَ مَا عِشْتُ مِن اَیَّامِی عَہْداً وَ عَقْدًا وَ بَیْعَةً لَہُ فِی عُنُقیِ لاَ اَحْولُ عَنھا وَ لاَ اَزُوْلُ اَبَداً، اللّٰہُمَّ اجْعَلنِی مِنْ اَنصَارِہِ وَ اَعوَانِہِ ، وَالذَّآبِّینَ عَنْہُ وَ المُسَارِعِینَ اِلَیہِ فِی قَضَآء ِ حَوَآئِجِہِ وَ المُمتَثِلِینَ لِاوَامِرِہِ وَ المُحَامِینَ عَنْہ وَ السَّابِقِیْنَ اِلیٰ اِرَادَتِہِ وَ المُستَشہَدِیْنَ بَینَ یَدَیہِ ” (دعائے عہد , مفاتیح الجنان)
اگرایک شخص ہمیشہ اس دعائے عہد کو پڑھتا رہے اور دل کی گہرائی سے اس کے مضمون پرکاربند رہے تو ہرگز سستی میں مبتلا نہ ہوگا اور اپنے امام کی آرزوؤں کو عملی جامہ پہنانے اور آپ کے ظہور کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہے گا اور ایک لمحہ کیلئے بھی بے کار نہیں بیٹھے گا ۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ ایسا شخص ہی اس امام برحق کے ظہور کے وقت ان کے ہمراہ حاضرہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمایا:
”جو شخص چالیس دن تک ہر صبح اپنے خدا سے یہ عہد کرے تو خدا ان کو ہمارے قائم کا ناصر و مددگار قرار دے گا اور اگر امام مہدی عليہ السلام کے ظہور سے پہلے اسے موت بھی آجائے تو خداوندعالم اسے قبر سے اٹھائے گا (تاکہ حضرت قائم عليہ السلام کی نصرت و مدد کرے)…۔
منتظرین کا چوتھا وظیفہ:
وحدت اور ہم دلی
امام زمانہ عليہ السلام کے ظہور کی انتظار کرنے والے افراد کی انفرادی ذ مہ داریوں سے بات کو آگے بڑھائیں تو ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہی کہنا چاہئے کہ ان کے پاس ایک ایسا منصوبہ ہو جس سے امام زمانہ عليہ السلام کے اہداف پورے ہوتے ہوں۔
دوسرے الفاظ میں آپ کے منتظر معاشرہ کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح سعی وکوشش کرے کہ
جس سے امام مہدی عليہ السلام کی حکومت کے اسباب فراہم ہوسکیں۔
امام عصر عليہ السلام اپنے فرمان میں اس طرح کے افراد کے لئے یہ بشارت دیتے ہیں:
”اگر ہمارے شیعہ (کہ خداوند عالم ان کو اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے) اپنے کئے ہوئے عہدو پیمان پر یکدل اور مصمم ہوں تو ہرگز (ہمارے)دیدار کی نعمت میں دیر نہیں ہوگی اور مکمل و حقیقی معرفت کے ساتھ ہماری ملاقات جلد ہی ہوجائے گی”۔ (احتجاج،ج٢،ش٣٦٠،ص٦٠٠.)
اور یہ عہد و پیمان وہی ہے جو کتاب خدا اور الٰہی نمائندوں کے کلام میں بیان ہوا ہے، جن میں سے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
1– آئمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی کرنے کی ہر ممکن کوشش اور آئمہ ہدیٰ ع کے چاہنے والوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو میری نسل سے قائم کو اس حال میں دیکھیں کہ ان کے قیام سے پہلے خود ان کی پیروی کریں اور ان کے دوستوں سے دوستی اوران کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کریں، تو ایسے افراد میرے دوست اور میرے ساتھی ہیں اور روز قیامت میرے نزدیک میری تمام امت میں سے عزیز و عظیم افراد ہوں گے”۔ (کمال الدین،ج١، باب٢٥، ح٢،ص٥٣٥.)
2– دین میں تحریفات ،بدعتوں اور معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں اور فحشاء کے مقابلہ میں انتظار کرنے والوں کو بے توجہ نہیں رہنا چاہئے، بلکہ نیک سنتوں اور اخلاقی اقدار کے بھلائے جانے پر ان کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
حضرت رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
”یقینا اس امت کے آخری زمانہ (آخر الزمان) میں ایک گروہ ایسا آئے گاجن کی جزاء اسلام میں سبقت کرنے والوں کی طرح ہوگی تو وہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرتے ہوں گے اور اہل فتنہ (و فساد) سے جنگ (مقابلہ) کرتے ہوں گے”۔ ( دلائل النبوة،ج٦،ص٥١٣.)
3– ظہور کا انتظار کرنے والوں کا یہ فریضہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ تعاون اور نصرت و مدد کو اپنے منصوبوں میں پیش نظر رکھیں اور اس معاشرہ کے افراد تنگ نظری اور خود پرستی سے پرہیز کرتے ہوئے معاشرہ میں غریب اورحاجت مند لوگوں پر دھیان دیں اور ان کے معاملے میں لاپرواہی نہ کریں۔
شیعوں کی ایک جماعت نے حضرت محمد باقر عليہ السلام سے نصیحت کی درخواست کی تو امام عليہ السلام نے فرمایا:
”تم میں سے صاحب حیثیت لوگ غریبوں کی مدد کریں اور مالدار افراد حاجت مندوں کے ساتھ محبت و مہربانی سے پیش آئیں اور تم میں سے ہر شخص دوسرے کے لئے نیک نیتی سے کام لے”۔
(بحار الانوار،ج٥٢،باب٢٢،ح٥،ص١٢٣.)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تعاون اور مدد کا دائرہ فقط ان کے اپنے علاقے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انتظار کرنے والوں کی خیر اور احسان دور دراز کے علاقوں میں بھی پہنچتا ہے کیونکہ انتظار کے پرچم تلے کسی طرح کی جدائی اور غیریت و دوئیت کا احساس نہیں ہوتا۔
4– انتظار کرنے والے معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں مہدوی رنگ و بو پیدا کریں، ان کے نام اور ان کی یاد کا پرچم ہر جگہ لہرائیں اور امام عليہ السلام کے کلام اور کردار کو اپنی گفتگو اور عمل کے ذریعہ عام کریں اور اس راہ میں بھرپورکوشش کریں کہ بے شک آئمہ معصومین کا لُطف ِخاص ان کے شامل حال ہوگا۔
امام محمد باقر عليہ السلام کے صحابی عبد الحمید واسطی آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:
‘‘ہم نے امام عليہ السلام کے ظہور کے انتظار میں اپنی پوری زندگی وقف کردی کہ جس کی وجہ سے ہمیں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
امام عليہ السلام نے جواب میں فرمایا:
اے عبد الحمید! کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ خداوندعالم نے اس بندہ کے لئے جس نے خود کو خداوندعالم کے لئے وقف کردیا ہے مشکلات سے نجات کے لئے کوئی راستہ نہیں قرار دیا ہے؟
خدا کی قسم، اس نے ایسے لوگوں کی مشکلات کے حل کے لئے راستہ مقر ر کیا ہے۔ خداوندعالم رحمت کرے اس شخص پر جو ہمارے امرِ (ولایت) کو زندہ رکھے”۔
(بحارالانوار،ج٥٢،باب٢٢،ح١٦،ص١٢٦.)
آخری نکتہ یہ ہے انتظار کرنے والے معاشرے کو کوشش کرنا چاہئے کہ تمام اجتماعی پہلوؤں میں دوسرے معاشروں کے لئے نمونہ قرار پائے اور منجی عالم بشریت کے ظہور کیلئے تمام لازمی راستوں کو ہموار کرے۔
انتظار کے اثرات:
بعض لوگوں کا یہ خیال خام ہے کہ عالمی مصلح (اصلاح کرنے والے) کا انتظار انسان پرجمود اور لا تعلقی کی حالت طاری کر دیتا ہے اور جو لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ایک عالمی مصلح آئے گا اور ظلم و جور اور برائیوں کا خاتمہ کردے گا وہ برائیوں اور پستیوں کے مقابل ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں، خود کوئی قدم نہیں اٹھاتے اور ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھتے رہیں!!
لیکن یہ نظریہ ایک سطحی نظریہ ہے اور اس میں دقت نظر سے کام نہیں لیا گیا۔ کیونکہ امام مہدی عليہ السلام کے انتظار کے سلسلہ میں بیان ہونے والے مطالب کے پیش نظر واضح ہے کہ انتظار کا مسئلہ اپنی بے مثال خصوصیات اور امام مہدی عليہ السلام کی بے مثال عظمت کے پیش نظر نہ صرف انسان میں جمود اور بے حسی پیدا نہیں کرتا بلکہ حرکت ،جوش و جذبہ اور ارتقاء کا بہترین سبب ہے۔
انتظار ، منتظر میں ایک مبارک اور با مقصد جذبہ پیدا کرتا ہے اور منتظر جتنا بھی انتظار کی حقیقت کے نزدیک ہوتا جاتا ہے مقصد کی طرف اس کی رفتار بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے انتظار کے زیر سایہ انسان خود پرستی سے آزاد ہوکرخود کو اسلامی معاشرے کا ایک حصہ تصور کرتا ہے، لہٰذا معاشرے کی اصلاح کے لئے حتی الامکان کوشش کرتا ہے اور جب ایک معاشرے کے افراد یہ جذبہ رکھتے ہوں تو پھر اس معاشرے میں فضائل اور اقدار رائج ہونے لگتے ہیں اور معاشرے کے سب لوگ نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے لگتے ہیں اور ایسے ماحول میں کہ جو اصلاح، کمال، امید اور نشاط بخش فضا اور تعاون وہمدردی کا ماحول ہے،دینی عقائد اور مہدوی نظریہ معاشرے کے افراد میں پیدا ہوتا ہے اور اس انتظار کی برکت سے منتظرین فساد اور برائیوں کے دلدل میں نہیں پھنستے بلکہ اپنے دینی اور نظر یاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
وہ انتظار کے زمانہ میں پیش آنے والی مشکلات میں صبر و استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور خداوندعالم کا وعدہ پورا ہونے کی امید میں ہر مصیبت اور پریشانی کو برداشت کرلیتے ہیں اور لمحہ بھر سستی اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتے۔
واقعاً کونسا ایسا مکتب اور مذہب ہوگا جس میں اس کے ماننے والوں کے لئے ایک روشن مستقبل پیش کیا گیا ہو؟ ایسا راستہ جو الٰہی جذبہ و نصب العین کے تحت طے کیا جائے، جس کے نتیجہ میں اجر عظیم حاصل ہو۔
(جاری ہے……)
طالب دعا: علی اصغر سیفی