اخلاق منتظرین قسط 4
اخلاقی تربیت کی اہمیت اور اسکے مراحل
استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
ھماری گفتگو کا موضوع اپنی اخلاقی تربیت ھے ۔انسان دوسروں کی تربیت تو آسانی سے کرلیتا ھے لیکن مشکل ترین کام یہ ھے کہ وہ اپنی تربیت کرے۔ اور اسی کو جھاد اکبر کہا گیا ھے ۔ ھم نے اپنی گفتگو کا آغاز انسان شناسی سے کیا اور امام شناسی تک پہنچے ۔
معلمین اخلاق
عرض کیا تھا کہ اپنی تربیت کے لیے پہلا قدم یہ ھے کہ ھم معلمین اخلاق جو انبیاء ھیں اور اس کے بعد ان کے اوصیاء ھیں ۔ ان کے فرامین پڑھیں انکی معرفت حاصل کریں ۔کیونکہ یہ اسوہ ھیں ۔یہ ھمیں ھدایت دینے کے لیے بھیجے گئے۔ ان کے پاس علوم الہی بھی ھے اور تزکیہ نفس کرنے کا ھنر بھی انہی کے پاس ھے ۔
تو لھذا سب سے پہلے ان کے فرامین سے انس پیدا کریں ۔ روزانہ مطالعہ کریں ۔اگر ھمارے لیے ھماری تربیت واقعی ایک اھم ترین مسئلہ ھے تو ھم اس کے لیے ٹائم کتنا دیتے ھیں ۔ھم اپنی تربیت کے لیے کتنے فرامین روزانہ پڑھتے ھیں ۔ کتنی اخلاقی کہانیاں کہ جو عبرت آموز ھوں جنکے اندر مختلف اخلاقی درس ھوں جو ھماری آنکھوں کو کھولیں ۔ ھمیں جھنجھوڑیں بیدار کریں وہ کتنی پڑھتے ھیں روز ۔قران مجید کے اندر انبیاء کے قصے ھیں ۔ محمد و آل محمد اور تمام معصومین ع کی زندگی کے اندر بے پناہ واقعات ھیں ۔ اور انکے جو اصحاب ھیں اور اسی طرح ھماری تاریخ کے اندر جو صالحین علماء بزرگان ان کی زندگی کے واقعات یہ ساری وھی چیزیں ھیں کہ جو ھماری تربیت میں کردار ادا کرتے ھیں ۔ انسان جب پیدا ھوتا ھے تو اس وقت تو اس پر کوئی رنگ نہیں ھوتا وہ رنگ فطری ھوتا ھے ،وہ رنگ توحید ھوتا ھے ۔ لیکن جیسے جیسے اس کے دن گزرتے ھیں تو وہ مختلف رنگ لینا شروع کرتا ھے اپنے اردگرد کے لوگوں سے والدین، سے بہن بھائیوں سے ،محلے والوں سے اور یہ رنگ جو ھیں یہ اسکی عادتیں ھیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ اسکا کردار ،اسکی خصلتیں ،صفات ان رنگوں کی وجہ سے ھے ۔ جسے ھم علمی اصطلاح میں *ملکہ* سے تعبیر کرتے ھیں ۔
ملکہ
ملکہ سے مراد وہ چیز جو ھماری جان کی مالک بن گئی ھے ۔ یعنی ایک عام تعبیر میں یوں کہونگا کہ ایک ایسی صفت جو میری جان پر چھا چکی ھے ۔ ملکہ یعنی ملکیت ۔یعنی اس نے قبضہ میں لے لی میری جان کہ اب اسے جان چھڑانا مشکل ھے ۔ بعض عادتیں اتنی پختہ ھوجاتی ھیں کہ لوگ کہتے ھیں فلاں مر تو جائے گا لیکن اس کی عادت نہیں چھوٹے گی یہ وھی ملکہ ھے۔لیکن مایوسی نہیں ھونی چاھییے جب کوئی چیز ملکہ بنتی ھے تو وہ بھی آھستہ آھستہ بنتی ھے اور جب اس سے جان چھڑانی ھے تو وہ بھی آھستہ آھستہ سے چھوٹے گی ۔ لیکن آغاز وھی ھے جو میں نے عرض کیا۔ کہ وہ معرفت سے ھے وہ فرامین کو پڑھنے سے ھے وہ ٹائم دینے سے ھے ۔ اب یہی بچہ جب بڑا ھوتا ھے تو دو قسم کے ملکے بنتے ھیں یا تو وہ اچھی خصلتیں سامنے آتی ھیں تو اس کا مطلب ھے اس کے اردگرد جو لوگ تھے اسکے والدین بہن بھائی وغیرہ جو ماحول تھا وہ بڑا اچھا تھا بڑے اچھے رنگ پڑے ھیں اس پر ۔ لھذا اچھی خصلتیں اس میں نمودار ھونا شروع ھوئی ھیں ۔ لیکن ایک دفعہ ھم دیکھتے ھیں کہ نہیں بری خصلتیں ظاھر ھوئی ھی تو یہ نہیں کہنا چاھییے کہ یہ پیچھے سے لے کر آیا ھے یا اللہ نے اسکو ایسے بنایا ھے یہ غلط بات ھے ۔ خدا فطرت توحید پر خلق کرتا ھے ۔ فطرت اسلام پر خلق کرتا ھے یہ اس کے والدین ھے اسکا گھر ھے ،اس کا ماحول ھے جو اسکو کافر ،فاسق ،نیک جو کچھ بنا رھے ھیں یہ وہ لوگ ھیں ۔اور بعد میں وہ خود بنتا ھے۔
جسمانی اور روحی تربیت
ایک مثال دیتا ھوں کہ ھم اپنے جسم کی تربیت کے لیے کتنا کام کرتے ھیں البتہ وہ جنکو شوق ھے مثلاً فرض کریں کہ بچہ جب بڑا ھوتا ھے اسکو چلنا سکھایا جاتا ھے ۔ کتنا ٹائم دیا جاتا ھے بچے کو یہ پھر جب اور بڑا ھوجاتا ھے تو سائیکل چلانا سیکھ لیتا ھے ، گاڑی چلانا بھی سیکھ لیتا ھے ،تیرنا سیکھ لیتا ھے اور بہت ساری جسمانی ورزشیں آپ دیکھ رھے ھیں کچھ اپنے ذھن کی تربیت کررھے ھوتے ھیں اور ایسے ایسے کام کرتے ھیں کہ ان کے ذھن کا اعتقاد بڑھتا ھے انکی دقت بڑھتی ھے انکی قوت حافظہ بڑھتی ھے فوری طور پر ایک بات کو سمجھنے والی صلاحیت بڑھتی ھے ،تحقیق کی صلاحیت بڑھتی ھے یعنی بہت ساری فکری ورزشیں ھیں ھم کام کرتے ھیں ٹائم دیتے ھیں تو یہ صلاحتیں حاصل ھوتی ھیں ۔ تو جسطرح ھم اپنے جسم اور ذھن کے لیے اتنا ٹائم دیتے ھیں اور بہت ساری جسمانی اور ذھنی صلاحیتوں کو حاصل کرتے ھیں تو روح کے لیے کب ٹائم دیں گے ۔ وہ اصل ھے ھماری جسم اور ذھن کا تعلق دنیا کے امور سے ھے ۔ لیکن روح کا تعلق بھی اسی سے ھے دنیا میں بھی ترقی اور آخرت میں بھی ترقی بلکہ ھماری اگلی جو لامحدود زندگی ھے کیونکہ ھم خلق تو ھوچکے ھیں لیکن ختم نہیں ھونے والے ۔یہ تو رسول اکرم ﷺ کا بھی فرمان ھے کہ
اے انسانوں تم باقی رھنے کے لیے خلق ھوئے ختم ھونے کے لیے نہیں ھو
دیکھیں نہ اس کے بعد قبر ھے عالم برزخ پتہ نہیں کب تک چلے گا ھزاروں سال چلے گا اس کے بعد محشر کا عالم اور عالم محشر کا ایک دن پچاس ھزار سال کی برابر ھوگا ۔اس کے بعد جھنم , جنت وہ بھی ابدی زندگی ھے ۔ اسکی کوئی انتہاء نہیں تو روح کی تربیت کا تعلق اس باقی سارے جہاں سے بھی ھے ۔ دنیا سے بھی ھے جسکی روحی تربیت ھوگی دنیا میں بھی بڑا اچھا انسان نیک انسان بنے گا لوگ اسکی تعریف کریں گے لوگ اسکو دیکھ کر اطمینان کریں گے ،اسکے مرنے کے بعد بھی اسکو یاد کیا جائے گا اور اسکے ذریعے لوگوں کو اتنے فائدے حاصل ھونگے ۔یعنی لوگ کہیں گے کہ ھم نے اس سے سوائے خیر کے کچھ نہیں دیکھا ۔ یہ وھی ھیں جس کی روحی تربیت ھوئی ھو مثلاً ھم جنازے کے اندر بھی گواھی دیتے ھیں نہ البتہ ھماری ایسی بہت ساری گواھیاں جھوٹی ھوتی ھیں لیکن حقیقت میں مومن کو ایسا ھی ھونا چاھیئے ۔ھم جنازے میں حسن ظن رکھتے ھیں۔ کہ ھم کہتے ھیں یا اللہ ھم نے اس سے سوائے خیر کے کچھ نہیں دیکھا ،کاش ایسا ھو کاش ھم ایسے بنیں کہ واقعا یہ گواھی جب دی جائے تو خدا بھی اسکو قبول کرے اور ملائکہ بھی نہ کہ ملائکہ اس پر ھنسیں کہ یہ کس قسم کی گواھی تم دے رھے ھو اس آدمی نے سوائے بدی کے سوائے ضرور کے نقصان کے تو کچھ بھی نہیں پہنچایا ۔ ھماری بہت ساری گواھیاں جھوٹی ھیں کاش یہ سچی ھوجائیں ،واقعا جب میت پر یہ گواھی دی جاتی ھے کہ اے پروردگار میں نے سوائے خیر کے اس میں کچھ نہیں دیکھا کاش یہ درست ھو اور ھم یہ کرسکتے ھیں ھمارے لیے ممکن ھے کہ ھم ایک ایسی ھستی بنیں کہ جس سے سوائے خیر کے کچھ بھی ظاھر نا ھو اپنے لیے بھی خیر اپنے بچوں کے لیے بھی اپنے اردگرد لوگوں کے لیے اپنے بہن بھائیوں کے لیے اپنے محلے کے لیے حتی کہ حیوانوں پرندوں چرندوں ھر چیز کے لیے ھم خیر بنیں ۔ کیوں نہیں بن سکتے بن سکتے ھیں لیکن کب؟ جب ھم سب سے پہلے اپنے لیے خیر بنیں ۔ھب ھمیں اپنی فکر ھو یہ جو ھم کہتے ھیں نہ کہ انسان کو اپنی فکر ھونی چاھیئے یہ اس مسئلے میں ھونی چاھئیے کہ اپنی روح کی تربیت کرے ۔جو شخص اپنی روح کی تربیت کررھا ھے اپنے دین کی تربیت کررھا ھے اپنی خواھشات کی تربیت کررھا ھے اس کے اندر اچھی صفات ھیں شجاعت ھے ،سخاوت ھے ،حلم ھے تواضع ھے،اپنے نفس پر کنٹرول ھے غیبت سے بچا ھوا ھے ،منافقت سے بچا ھوا ھے،مکرو فریب سے بچا ھے،ریا کاری سے بچا ھوا ھے یہ جو لوگ ھیں جنکے اندر ایسا قلب سلیم ھو یہ کہ جنہیں اپنی فکر ھے چونکہ جب انسان حقیقی معنوں میں اپنی فکر کرتا ھے تو ساری کی ساری دنیا اس کے شر سے محفوظ ھوجاتی ھے ۔ چونک پھر وہ منبع خیر بن جاتا ھے پھر دنیا کہتی ھے کہ ھم نے اس سے سوائے خیر کے کچھ نہیں دیکھا ۔ لیکن ھمارے ھاں عام طور پر اسکو اپنی فکر سے مطلب اسکو اپنا پیٹ بھرنے کی فکر ھے اسکو خواھشات پوری کرنے کی فکر ھے یہ برے معنوں میں استعمال ہوتا ھے یعنی لوگ برائی میں صرف اپنی فکر کرتے ھیں ۔ کاش ھم اپنی تربیت اور آئیندہ کے جو جہان ھیں جہاں ھم نے پتہ نہیں کہاں کہاں حساب دینے ھیں اور کتنے مرحلے ھیں دنیا تو کچھ بھی نہیں ھے دیکھیں مثال اسکی میں ایسے دونگا جیسے ایک قطرہ ایک طرف ھے اور سمندر ایک طرف ھے ۔ اس طرح ایک قطرے کی سمندر کے مدمقابل کوئی اھمیت نہیں ۔ اس طرح اگلے جہانوں کے مقابلے میں دنیا کی کوئی اھمیت نہیں ھے یعنی زمانے کے اعتبار سے کوئی اھمیت نہیں ھے ۔ البتہ اس اعتبار سے اھمیت ھے کہ ھم نے اس دنیا میں اس جہان کو بنانا ھے ۔ اس جہان میں ھم نے کیسے رھنا ھے وہ فیصلہ یہ دنیا کرے گی لیکن زمانے کے اعتبار سے مدت کے اعتبار سے یہ دنیا ایسی ھی ھے جیسے سمندر کے مدمقابل ایک قطرہ۔ آگے سمندر ھے زمانے کے اعتبار سے لامحدود زندگی ھے لیکن اس کا فیصلہ ھم نے اسی دنیا میں کرنا ھے ۔ اس لیے کہتے ھیں کہ *دنیا آخرت کی کھیتی ھے*.
ھم نے یہاں کیا بونا ھے اپنے آپ کو کیسے بنانا ھے ۔یہ ساری چیزیں فیصلہ کرے گی آگے والے سفر میں ۔ کس طرح اس دنیا سے نکلنا ھے اس پل کو کیسے پار کرنا ھے کس حالت میں پار کرنا ھے ۔
اھم ترین مسئلہ
تو سب سے اھم ترین جو مسئلہ ھے وہ یہ کہ ھم دیکھیں کہ ھمارے اندر کون کونسے ملکہ ھیں ۔ کس کس چیز نے ھمارے روح اور جان کو اپنے قبضہ میں کیا ھوا ھے پہلے اس کا تجزیہ کریں ۔ کون سی ایسی خصلتیں ھیں جو ھمیں چھوڑ نہیں رھی یا اگر ھمیں تھوڑی سی ٹینشن بھی ھے تھوڑا سا ھم سوچتے ھیں پشیمانی ھے لیکن کچھ خصلتیں ھیں جن نے ھمارے وجود کو پکڑا ھوا ھے چھوڑ نہیں رھے ۔ اپنا مطالعہ کریں یعنی اگر اچھی خصلتیں ھیں تو پھر تو شکر کریں خدا کا ۔اور اسکو بڑھائیں فرض کریں اگر آپ کے اندر حلم ھے تواضع ھے سخاوت ھے ،صداقت ھے آپ کے اندر لوگوں کے ساتھ مہربانی اور صلہ رحمی ھے انکو بڑھائیں لیکن اگر کوئی بری خصلت ھے غیبت ھے ،نفاق ھے ،ریاکاری ھے ،اگر کوئی اس طرح کی بری خصلت ھے تو آپ اپنا مطالعہ کریں اسکو لکھ لیں کہ میرے اندر کون کونسی خصلتیں ھیں اب یہ ان سے جان چھڑانے پر ھم گفتگو کریں گے۔
بری خصلت سے جان چھڑانا
چونکہ بری خصلتیں ملکہ بن چکے ھیں جیسے بچہ بڑا ھوتا جارھا ھے جسم بڑھ رھا ھے اسی طرح یہ خصلتیں بھی بڑی ھوگئیں ھیں اور پکی ھوگئی ھیں ۔ چونکہ بچپن میں جس وقت یہ شروع ھوئی تھی اسی وقت اس کو ختم کرنا چاھییے تھا ۔ لیکن یہ ختم نہیں کی گئیں یا نہیں ھوئیں یا کوئی رھنمائی نہیں ھوئی تو اب یہ بڑھ کر پختہ ھوگئی ھیں جیسا کہ کہتے ھیں کہ ایک چور شخص پرانے زمانے میں بزرگ لوگ یہ قصہ سناتے تھے کہ ایک چور کو جس نے بہت بڑا ڈاکہ مارا تھا اور اس ڈاکے میں اس نے کسی انسان کو بھی قتل کردیا بالآخر اسکو پھانسی کی سزا ھوئی تو اس سے آخری خواھش کا پوچھا اس نے کہا میری والدہ کو بلایا جائے جب والدہ کو بلایا گیا تو اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اپنی زبان باھر نکالو ۔ وہ حیران ھوئی لیکن اس نے کہا نکال زبان میری یہ آخری خواھش ھے اس نے زبان نکالی تو بیٹے نے زبان پر کاٹا والدہ چیخی کہ یہ تم نے کیا کیا اس نے کہا کہ جب میں نے ھمسائے کے گھر سے انڈہ چرایا تھا اور تیرے پاس لایا تھا کاش تو اپنی زبان سے مجھے روکتی تو آج میں یہاں تک نا پہنچتا. بعض دفعہ ھم بچوں سے کچھ ایسے چھوٹے چھوٹے پیمانے پر خطائیں دیکھتے ھیں اور ھم کہتے ھیں کہ کوئی بات نہیں بچہ ھے ۔یہ خطا یپش خیمہ ھے آغاز ھے بری خصلت کا ایک بہت بڑے ملکہ کا اس کا ھمیں نہیں پتہ کہ یہ بعد میں کیا بن کر نکلے گا اگر ھم اس کو وہیں سے روک دیں اور وہیں سے تربیت شروع کردیں تو شروع سے روکنا آسان ھے شروع سے ھر بری خصلت کا بری صفت اور عادت کا جب آغاز ھورھا ھے تو اسکو روکنا آسان ھے لیکن جیسے جیسے ٹائم گزرتا چلا جائے گا تو یہ بڑھتی چلی جائیں گی پھر اسکو روکنا مشکل ھوجائے گا پھر اس پر زیادہ کام کی ضرورت ھوگی اور اگر یہ ملکہ بن جائے پھر تو یہ بہت بڑا جھاد ھے اسکو ختم کرنا ۔
لھذا میرے عزیزان اگر ھمارے بچے ھیں چھوٹے بہن بھائی ھیں تو شروع سے یہ کام کریں اور اپنے اوپر مایوس نہیں ھونا چاھیئے ابھی بھی ٹائم ھے ۔ھمیں نہیں پتہ کب تک سانس ھے لیکن ٹائم ھے ھمارے پاس اپنے اوپر بھی کام کریں اس کے لیے سب سے پہلے اپنا مطالعہ کریں کہ میرے اندر کیا بری خصلتیں ھیں ۔ قرآن اور احادیث میں ھمیں راہ بتائے گئے ھیں طریقے سارے موجود ھیں ۔ تو سارے کام ھم نے کرنے ھیں لیکن نکتہء آغاز ڈھونڈنا ھے کہ کہاں سے شروع کرنا ھے ۔ بعض دفعہ درس اخلاق دیا جاتا ھے آپ جو پتہ ھے جب انسان کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ھے تو پہلے اسکی بیماری کو سمجھتا ھے اور دیکھتا ھے کہ یہ کہاں سے شروع ھوئی تھی وہیں سے ٹھیک ھوگی اس کا نکتہ آغاز دیکھنا ھے ۔ بیماری کو ڈاکٹر جتنی سمجھنے میں دقت کرتا ھے اتنا ھی اس کا نسخہ اچھا اور شفا بخش ھوتا ھے ۔ ھم سب سے پہلے اپنی بیماری کو سمجھیں تو سہی کہ کہاں سے شروع ھوئی ھے اور کتنے اس نے مراحل طے کیے ھیں ۔ اور ھم کہاں پہنچے ھوئے ھیں البتہ ھوسکتا ھے کچھ بیماریاں ابھی شروع ھورھی ھوں ۔ لازمی نہیں کہ بچپن سے ھی شروع ھوں ۔ لیکن کچھ بیماریاں تو ھمارے اندر ملکہ بن چکی ھیں لھذا اپنی روحی بیماریوں کی ایک لسٹ بنائیں جس میں دیکھیں کہ کونسی بیماری ملکہ بن چکی ھے کونسی ھے جس میں میں ابھی ابھی مبتلا ھورھا ھوں تو ان سب کو ھم نے درست کرنا ھے ۔نئی بننے والی بیماری کو روکنا آسان ھے لیکن جو ملکہ بن چکی ھے اس پر کافی کام کرنا ھوگا ۔
اللّٰہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ھوں کہ پرودگار ھم سب کو بااخلاق عبد اور اپنے ولی کا بااخلاق تربیت یافتہ ناصر بننے کی توفیق دے ۔ اور اس بحث کا ھم پر اثر ھو ۔ اور خدا کی بارگاہ میں دعا ھے کہ خدا ھم سب کو قرآن اور آل محمد کی رھنمائی میں تربیت حاصل کرنے کی اور بالخصوص امام زمانہ ع کے دامن سے متمسک ھوکر باطنی ھدایت حاصل کرنے کی خدا ھم سب کو توفیق دے