درس امامت :10
پہلا حصہ: امام پر نص اور الہیٰ تعیین کی ضرورت
استاد محترم حجت الاسلام والمسلمین علامہ علی اصغر سیفی صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید:عقائدِ شیعہ میں امامت ایک بنیادی موضوع ہے، اور آج ہم اس اہم مسئلے پر گفتگو کریں گے کہ امام کا منصوص ہونا کیوں ضروری ہے؟
ہم اپنے دروس کو “کشف المراد” کی روشنی میں آگے بڑھا رہے ہیں، جو صدیوں پہلے علامہ حلیؒ نے لکھی تھی۔ یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے، جس میں خواجہ نصیر الدین طوسیؒ کے دروس کی تشریح موجود ہے۔ خواجہ نصیر الدین طوسیؒ کو بو علی سینا کے بعد عالمِ اسلام کا بڑا مفکر اور محقق مانا جاتا ہے۔اس کتاب میں عصمت اور افضلیت کے بعد امامت کے سب سے اہم مسئلے “نص” یعنی امام کا اللہ کی طرف سے مقرر ہونا پر بات کی گئی ہے۔
1۔ امام کا اللہ کی طرف سے مقرر ہونا کیوں ضروری ہے؟
تمام مسلمان متفق ہیں کہ نبیؑ کو اللہ مقرر کرتا ہے اور نبیؑ کے بغیر امت گمراہی کا شکار ہو سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام کو بھی اللہ مقرر کرتا ہے یا نہیں؟
نبیؑ کے انتخاب پر کسی کو اعتراض نہیں، کیونکہ نبیؑ کا تقرر اللہ کا کام ہے۔
لیکن بعض مکاتب فکر یہ سمجھتے ہیں کہ امام کو لوگ خود چن سکتے ہیں۔
شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے، کیونکہ اگر امام لوگوں کے چنے ہوئے ہوں تو وہ معصوم نہیں ہوں گے، اور غلطیوں کا امکان رہے گا۔
2۔مختلف مکاتب فکر اور امام کی تعیین
(1) فرقہ عباسیہ: یہ ایک قدیم فرقہ تھا جو کہتا تھا کہ امام دو طریقوں سے منتخب ہو سکتا ہے:
1۔ نص ،یعنی اللہ اور رسولﷺ کی جانب سے انتخاب
2۔ وراثت ،یعنی خاندان کے اندر امامت منتقل ہو
لیکن یہ فرقہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ امام کے لیے کوئی نص موجود نہیں، لہذا امامت وراثت سے چلی اور حضرت عباسؓ (چچا رسولﷺ )کو امامت کا وارث قرار دیا گیا۔
یہ عقیدہ منطقی اور شرعی طور پر باطل تھا، کیونکہ : امامت الہیٰ منصب ہے، نہ کہ وراثتی اور نہ قرآن اور نہ ہی سنت میں اس کی کوئی دلیل ہے۔یہ فرقہ خود بھی ختم ہو گیا، کیونکہ ان کا عقیدہ دلیل کے بغیر تھا۔
(2) فرقہ زیدیہ: زیدیہ فرقہ امام زین العابدینؑ کے فرزند حضرت زیدؑ سے منسوب ہے۔یہ کہتے ہیں کہ امام دو طریقوں سے معین ہو سکتا ہے:
1۔ نص یعنی اللہ اور رسولؐ کی طرف سے مقرر ہو
2۔خود اپنی طرف دعوت دے یعنی جو شخص ظالم کے خلاف تلوار اٹھائے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے اور خود کو امام کے طور پر پیش کرے، وہ امام بن سکتا ہے۔
اس نظریے کی کمزوریاں:
1۔ اگر ایک وقت میں کئی لوگ قیام کر دیں تو امت کس کو امام مانے گی؟
2۔ نہ قرآن اور نہ حدیث میں اس نظریے کی کوئی بنیاد موجود ہے۔
لہذا یہ نظریہ بھی عقلی اور نقلی دلائل کی بنیاد پر مسترد کر دیا گیا۔
(3) اہلسنت کا نظریہ: اہلسنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر نص یعنی اللہ اور رسولؐ کی طرف سے نامزدگی ہو تو وہ امام کو مانیں گے، لیکن اگر نص نہ ہو تو امت خود شورائی طریقے سے امام کا انتخاب کر سکتی ہے، جیسا کہ انہوں نے حضرت ابوبکرکو منتخب کیا۔
شیعہ اس نظریے کو دو بنیادی دلائل کی بنا پر مسترد کرتے ہیں:
1۔امام کا معصوم ہونا ضروری ہے، اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کون معصوم ہے۔
2۔ رسول اکرمؐ نے امت کو ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے آگاہ کیا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ امامت جیسے اہم مسئلے پر خاموش رہیں؟
لہذا امام کا انتخاب “شورائی” طریقے سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہونا چاہیے۔
(4)شیعہ اثنا عشریہ کا نظریہ:
شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک امامت کا واحد راستہ “نص” ہے۔
امام اللہ کی جانب سے مقرر ہوتا ہے، اور اس کا اعلان نبیؐ کرتے ہیں۔
اگر امامت کے لیے انتخاب کا دروازہ کھول دیا جائے تو امت انتشار کا شکار ہو جائے گی۔
شیعہ عقیدہ دو دلائل سے ثابت ہے:
(1) امام کا معصوم ہونا شرط ہے:
معصوم وہ ہوتا ہے جو ہر گناہ اور خطا سے محفوظ ہو۔
امام کو صرف اللہ ہی جان سکتا ہے کہ وہ معصوم ہے یا نہیں۔
اگر امام کو لوگ خود چنیں، تو وہ کسی غیر معصوم کو بھی منتخب کر سکتے ہیں، جو امت کو گمراہی میں ڈال سکتا ہے۔
لہذا امام کا انتخاب اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔
(2) قرآن و سنت میں امام کی تعیین کا ذکر ہے:
قرآن نے ہر معاملے میں ہدایت دی ہے۔سنت نبویؐ نے زندگی کے ہر پہلو کو واضح کیا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ رسولؐ نے امامت جیسے بڑے مسئلے کو بغیر وضاحت چھوڑ دیا ہو؟
نتیجہ: امامت کا معاملہ بھی اللہ اور رسولؐ نے واضح کر دیا ہے، اور امام کا تعین صرف نص کے ذریعے ہوتا ہے۔
خلاصہ:
1۔ شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ ہے کہ امام اللہ کی طرف سے مقرر ہوتا ہے، اور رسولؐ اس کا اعلان کرتے ہیں۔
2۔ امامت کا انتخاب لوگوں کے ہاتھ میں دینا، امت میں انتشار اور گمراہی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
3۔ شیعہ عقیدہ دو مضبوط دلائل پر قائم ہے: امام کا معصوم ہونا اور قرآن و سنت میں امام کے تعین کا ذکر ہونا۔
نتیجہ: امام کو اللہ ہی معین کر سکتا ہے، اور اس کے لیے “نص” ضروری ہے۔
والسلام علیکم
عالمی مرکز مهدویت قم