سوال :
سلام علیکم !
سوال یہ ہے کہ ایسے بالغ جو اپنی اچھی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اپنے مطالبات کو پورا کروانے کیلئے یتیمی کا سہارا لیں اور لوگ اسی ڈر سے انکی ہر غلط بات بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں تو شریعت میں انکے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :
یتیمی کا عنوان اس وقت تک ہے جب تک وہ بالغ نہیں ہوجاتا یا ہوجاتی لیکن بالغ ہونے کے بعد یتیمی کا عنوان یا حقوق ختم ہوجاتے ہیں اب وہ یتیم نہیں کہلائے گا
اب وہ ایک بالغ جوان خواہ لڑکی یا لڑکا ہے۔
وہ عام مومن جیسے شرعی حقوق رکھتا ہے اور کوئی خاص اسے امتیاز حاصل نہیں ہے
اگر وہ خوامخواہ اپنے آپ کو یتیم ظاہر کرتے کوئی امتیاز یا سہولت لینے کی کوشش کرے تو یہ ناحق کام ہے
بالغ ہونے سے پہلے جب اس پر عنوان یتیم تھا مثلا باپ وفات پاگیا تھا تو جو اسکے پرورش کے ذمہ دار ہیں وہ اسکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں اسے اخلاق سکھایا جائے اگر غلطی کرے اسے سمجھایا جائے اس مسئلہ میں سختی بھی کی جاسکتی ہے
اسے حلال و حرام سکھایا جائے
بالکل دوسرے بچوں کی مانند ہے کوئی فرق نہیں ہے
یتیم ہونے کا مطلب یہ تھا کہ لوگ ایسے بے سرپرست بچوں پر توجہ کریں ان کے بارے خرچ کریں تاکہ معاشرے کا مفید فرد بنیں نہ کہ اسکا مطلب انہیں آزاد چھوڑ دیا جائے اور جو وہ کریں چاھے زیادتی بھی کریں تو انکی یتیمی سے ڈر کر صبر کیا جائے ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
عالمی مرکز مہدویت قم ایران