تازہ ترین پوسٹس

زیارت آل یاسین_ محمدؐ و آل محمدؑ ﷺ کے مقامات

زیارت آل یاسین
درس 8
محمدؐ ﷺ و آل محمدؑ ﷺ کے مقامات

استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب

 

۔ ﷽۔۔

سلسلہ گفتگو زیارت آل یاسین ہے اور ہم اس سلام پر پہنچے ہیں کہ:

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا بَابَ ﷲِ وَدَیَّانَ دِیْنِہٖ
سلام ہو آپ پر اے خدا کے باب اور اس کے دین کی حفاظت کرنے والے

عرض کیا تھا کہ باب اللہ سے مراد اس زمانے میں وصیؑ پیغمبرؐﷺ، خلیفہ پروردگار، حجت خداؑ امام مہدیؑ عج ہیں۔ اور ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہم اپنے زمانے کے امام ؑ عج کی اطاعت کریں اور ان سے دین لیں، کیونکہ یہ وہی ہستی ہیں جو بعنوان بابِ خدا پیغمبرؐ اسلام نے منبع اور مصدرِ دین کے عنوان سے ہمارے لیے بیان کرایا، اور فرمایا:

اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن کتاب اللہ وعترتِی اہلبیتؑی
قیامت تک یہ دو ہستیاں قرآن ناطق اور قرآن صامت ہیں اور جو بھی ان سے تمسک کرے گا وہ نجات پائے گا۔

لیکن! ہم دیکھ رہے ہیں کہ اکثر مسلمانوں نے پیغمبرؐ اسلامﷺ کے اس فرمان کو سنا تو ضرور لیکن اطاعت نہیں کی۔ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی عبادت بھی کرتے ہیں اور پیغمبرؐﷺ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن! دین کو پیغمبرؐ ﷺ کے اہلبیتؑ سے نہیں لیا۔ ہوسکتا ہے کہ اصحاب سے لیا ہو یا اور لوگوں سے لیا ہو۔

حالانکہ ! اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی ایسی عبادت کو قبول نہیں کیا کہ جو ایسی راہ سے لی جائے کہ جس راہ کو اللہ نے معین نہ کیا ہو۔

امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پہلی نافرمانی ابلیس نے کی کیونکہ! اس نے اللہ کے مدمقابل یہ کہا کہ تو مجھے معاف کر میں آدمؑ کو تو سجدہ نہیں کروں گا لیکن! اس کے عوض میں تیری ایسی عبادت کروں گا کہ جو نہ کسی فرشتے نے کی ہو اور نہ ہی کسی پیغمبرؑ نے۔

اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ:
مجھے تیری عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس عبادت کو چاہتا ہوں کی جسے میں نے خود ارادہ کیا ہے کہ جسے میں پسند کرتا ہوں نہ کہ جسے تو پسند کرتا ہے۔

 

شیطان نے اللہ کے حکم دیے گئے سجدے کو رد کیا، نافرمانی کی تو پروردگار نے بھی اس کو رجیم قرار دیتے ہوئے نکال دیا۔ فرمایا:

قَالَ فَاخْرجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ وَّ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ
اللہ نے فرمایا: تو جنت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے۔ اور بیشک قیامت تک تجھ پر لعنت ہے

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مولا امام صادقؑ ایک اور روایت میں بنی اسرائیل کے ایک عالم ، عابد کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہ جس نے اتنی اللہ کی عبادت کی کہ اس کا بدن سوکھی لکڑی کی مانند ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اپنے پیغمبرؑ کو وحی کی اور فرمایا:

مجھے اپنی عزت اور عظمت کی قسم ! اسے کہو کہ اگر تو میری اتنی عبادت کر کہ تیری مثال اس چربی کی مانند ہو جائے کہ جو ابلتی ہوئی دیگ میں ہو اور پھر اس کا نام و نشان نہ رہے پھر بھی میں تیری عبادت کو قبول نہیں کروں گا مگر! اس طرح عبادت کر کہ جس طرح میں نے فرمان دیا ہے۔
یعنی !
ہم جو اللہ کی عبادت کر رہے ہیں وہ اس رب کی مرضی سے ہونی چاہیے نہ کہ ہماری مرضی سے۔

ایک اہم درس:
اللہ کی حجتوں کے مدمقابل تکبر اور اپنی مرضی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ ان کے سامنے سرتسلیم خم ہوں اور تواضع کریں اور ان سے لیں۔

دیان دینہ کا معنیٰ، محمدؐ ﷺ و آل محمدؑ ﷺ کے مقامات:

دیان کے کئی معنیٰ ہیں۔
1۔ لوگوں کو اجرت دینے والا ، یعنی ان کے اعمال کا اجر دینے والا۔

بعض لوگ اسے دیان دئن پڑھتے ہیں۔
دئن سے مراد جزا ہے جیسے روز قیامت خدا لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا۔ اور حقیقیت میں اسے دین پڑھنا چاہیے ۔

دین کا بھی معنیٰ تقریباً وہی ہے یعنی! جزا اور لوگوں کے امور۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (3)
جزا کے دن کا مالک۔

دیان کا ایک معنیٰ قاضی ہے جیسے اہلسنت کے ایک بہت بڑے عالم جناب زمخشری کہتے ہیں کہ :
یہاں دیان ، دینتہُ سے ہے یعنی میں نے اس پر حکم دیا ، میں نے اس پر فیصلہ کیا۔ اور پھر لکھتے ہیں کہ امام علیؑ پیغمبرؐﷺ کے بعد اس امت کے دیان ہیں ۔ یعنی! اس امت کے قاضی ہیں۔
البتہ! اس حوالے سے پیغمبرؐﷺ کا بھی فرمان ہے کہ اے علیؑ تو میری امت کا قاضی ہے۔ (یعنی! ان کے امور میں فیصلہ کرنے والا)

اور ہماری ایک معروف کتاب : کتابِ سُلیم بن قیس ہلالی میں آیا ہے کہ، پیغمبرؐﷺ فرماتے ہیں :

علؑی اس امت کے دیان ہیں اور ان کے امور پر شاھد بھی ہیں۔
یعنی امت کے اعمال سے آگاہ بھی ہیں۔ اور یہ جو صفت مولا علیؑ کو حاصل ہوئی ہے یہ تمام آئمہؑ کو حاصل ہے۔ جیسا کہ ہم *زیارت جامعہ کبیرہ* میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

وَأَنْتُمْ أَھْلُہُ وَمَعْدِنُہُ وَمِیراثُ النُّبُوَّةِ عِنْدَکُمْ وَ إیابُ الْخَلْقِ إلَیْکُمْ وَحِسابُھُمْ عَلَیْکُمْ وَفَصْلُ الْخِطابِ عِنْدَکُمْ
آپ حق والے ہیں اور مرکز حق ہیں نبوت کی میراث آپؑ کے پاس ہے لوگوں کی واپسی آپؑ کی طرف اور ان کا حساب آپ کو لینا ہے۔ آپ حق و باطل کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔

یعنی! جس طرح پیغمبرؐﷺ کا خطاب آخری حرف ہوتا ہے اسی طرح ان کے وصؑی کا خطاب بھی آخری حرف ہوتا ہے۔ اور جس طرح لوگوں کے امور کی بازگشت پیغمبرؐﷺ کی طرف ہے اور وہ لوگوں کے امور کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے امور کے شاہد ہیں اور ان کے حکم کرنے والے ہیں ۔ تو یہی منصب ان کے بعد ان کے اوصیاءؑ کا ہے۔

اسی لیے پیغمبرؐ ﷺ اور ان کے اوصیا کا مقام ہر چیز سے بالاتر ہے حتی ملائکہ سے بھی۔ جیسا کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:

واقعہ معراج میں ایک مقام پر حضرت جبرائیلؑ نے آذان و اقامت کہی اور پیغمبرؐ اسلامﷺ سے کہا کہ آپؐﷺ اب آگے بڑھیں اور ہم ملائکہ کے امامِ جماعت ہوں۔

تو پیغمبرؐﷺ نے فرمایا: اے جبرائیلؑ آپ آگے بڑھیں۔

جناب جبرائیلؑ نے کہا: جس دن سے ہم ملائکہ کو اللہ نے حکم دیا کہ جناب آدمؑ کو سجدہ کریں اس کے بعد ہم نے پھر آدمؑ اور ان کی اولاد پر سبقت نہیں کی۔

سبحان اللہ!

عرض خدمت ہے کہ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ جن کے مقام کا یہ عالم ہے اور قرآن مجید کے اندر جو لفظِ “شاھد” کی گفتگو بار بار ہوئی ہے تو اس میں پیغمبرؐﷺ اور ان کے اوصیاؑ کا ذکر ہوا ہے کہ شاھد ہیں تو ان کے امور پر حکم کریں گے۔

ہم سورہ بقرہ آیت نمبر 143 میں دیکھتے ہیں۔

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُـوْنُـوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا
اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو،

یعنی مطلب یہ ہے کہ اوصیاؑء لوگوں کے امور پر شاھد ہیں اور پیغمبرؐﷺ ان پر شاھد ہیں۔

اسی طرح سورہ ھود کی آیت 17 میں پروردگار فرما رہا ہے کہ :
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا ا وَّرَحْـمَةً
بھلا (برابری ہو سکتی ہے) وہ شخص جو اپنے رب کے روشن حجت رکھتا ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک شاھد بھی ہو اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب گواہ تھی جو امام اور رحمت تھی،

یہاں شاھد سے مراد امیرالمومنینؑ ہیں۔

اب یہاں یہ کوئی نہ سوچے کہ جب امت کے امور اللہ نے پیغمبرؐﷺ اور اوصیاؑء کو سونپے تو خود خدا ہمارے امور سے لاتعلق ہوگیا
ہرگز ایسی بات نہیں ہے۔ یہ اللہ کا ایک نظام ہے اور اس کے منشاء کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ اصل خدا ہے ۔ مرکز تو خدا ہے اور خدا اس تمام نظام پر شاھد ہے۔ خدا اصل سرپرست ہے۔

جیسے امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ روز قیامت اللہ کے علاوہ کوئی اور ہو اور لوگوں کے امور کا حساب کرنا شروع کردے تو پچاس ہزار سال سے زائد وقت درکار ہوگا لیکن! لوگوں کے امور کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔

لیکن !
یہ ذات پروردگار ہے کہ جو ایک ساعت میں تمام امور کو انجام دے گا۔
سبحان اللہ!

یہ اللہ کا نظام، قدرت ، اسکی حکمت اور دقت ہے۔ وہ کام جو اللہ نے چند لحظوں میں کرنے ہیں وہ دنیا کی ٹیکنولوجی ہوسکتا ہے کہ پچاس ہزار سال میں بھی مکمل نہ کر سکے۔ تو اس وقت یعنی روز محشر اللہ ایک نظام بنائے گا۔ کہ خدا اور اس کے ساتھ ملائکہ کی ایک فوج لوگوں کے امور اور حساب کتاب کو بہت ہی سُرعت سے انجام دیں گے۔

تفسیر قمی :
محمدؐ ﷺ و آل محمدؑ ﷺ کی روز محشر میں جو عظیم منزلتیں:

رسولؐ خداﷺ نے فرمایا:
جب میں حوض کوثر پہ آؤں گا تو اے علیؑ اس کوثر کے ساقی تم ہو۔ اور حسنؑ اپنے شیعوں کی حمایت اور دفاع کریں گے اور حسینؑ اسوقت کہ اللہ انہیں اختیار دے گا کہ شیعوں کے امور میں حکم دیں گے۔ اور علی ؑ ابن الحسینؑ اپنے شیعوں کے آگے آگے ہونگے اور انہیں بہشت کی جانب لے جانے والے ہونگے۔ اور محمد ابن علیؑ (امام محمد باقرؑ)لوگوں میں خیرات و برکات بانٹیں گے۔ اور امام جعفر صادقؑ لوگوں کی راہنمائی کریں گے۔ اور امام موسیٰؑ ابن جعفرؑ اپنے شیعوں کو منافقوں اور دشمنوں سے جدا کریں گے اور انہیں شمار کریں گے۔ اور امام علیؑ ابن موسیٰؑ رضاؑ مومنین کو زینت دیں گے۔ اور محمدؑ ابن علیؑ اہل بہشت کو ان کی بہشت میں جگہ دکھائیں گے۔ اور علیؑ ابن محمدؑ شیعوں کا خطبہ پڑھیں گے اور ان کی حورالعین سے شادی کروائیں گے۔ اور حسن ابن علیؑ اہل بہشت کا چراغ ہونگے کہ جن کی روشنی سے اہل بہشت نورانی ہونگے ۔ اور امام مہدیؑ عج روز قیامت اپنے شیعوں کے شفیع بنیں گے۔
سبحان اللہ!

اسی طرح مناقب ابی طالبؑ میں ایک اور روایت ہے کہ
پیغمبرؐ اسلامﷺ فرماتے ہیں کہ:
اے علیؑ میں لوگوں کو ڈرانے والا ہوں اور تو ان کو ہدایت کرنے والا ہے ، حسنؑ ان کے رہبر ہیں۔ حسینؑ رہنما ہیں اور علیؑ ابن الحسینؑ ان کو جمع کرنے والے ہیں۔ اور محؑمد ابن علؑی ان کو آگاہ کرنے والے ہیں اور جعفرؑ ابن محمدؑ ان حقائق کو لکھنے والے ہیں اور موسؑیٰ ابن جعفؑر ان کو شمار کرنے والے ہیں اور علؑی بن موسیٰؑ روز محشر ان کو پل صراط سے نجات دینے والے ہیں اور دشمنوں کو دور کرنے والے ہیں۔ اور دوستوں کو نزدیک کرنے والے ہیں۔ محمؑد بن علیؑ رہبر و رہنما ہیں اور علیؑ بن محمدؑ ان کو حرکت دینے والے ہیں اور ان کے عالم ہیں۔ اور حسن ابن علیؑ اس دن اپنے شیعوں کو ندا دیں گے اور بخشش کریں گے اور امام قائمؑ عج لوگوں کے امور کی جانچ پڑتال کریں گے اور ان کے امور پر شاھد ہونگے۔

تو یہ جو مختلف مقامات اور منزلیں ہمارے آئمہؑ یہ ان کی عظمتوں کے ایک گوشے کا اظہار ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان ہستیوں کی سچی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جو ان کے مقامات ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے توسل اور مستفید ہونے کی توفیق دے۔
آمین۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت – قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *