تازہ ترین پوسٹس

 زیارت آل یاسین_ امام مہدی عج اللّٰہ تعالیٰ کا میثاق 

زیارت آل یاسین
درس: 16

امام مہدی عج اللّٰہ تعالیٰ کا میثاق

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

موضوع سخن زیارت مبارکہ آل یاسین اور ہم اس سلام پر پہنچے ہیں

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا مِیْثَاقَ ﷲِ الَّذِیْ ٲَخَذَھٗ وَوَكَّدَہ

سلام ہو آپ پر اے اللہ کے میثاق ، اے اللہ کے عہد و پیمان جسے خدا نے خود لیا اور اسے مضبوطی سے لیا ہے

یہاں امام زمان عجل اللہ فرج الشریف کا ایک لقب “میثاق اللہ” بیان ہوا ہے . امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف اللہ کا وہ عہد و پیمان ہیں جو پوری نوع بشر سے حتی انبیاء اور دیگر آئمہ سے اللہ نے لیا کہ وہ سب امام کی اطاعت کریں گے اور ان کی نصرت کریں گے
قرآن مجید کے اندر پروردگار کئی طرح کے میثاق کا ذکر کر رہا ہے۔
میثاق کہتے کسے ہیں؟
یعنی کسی بات کو محکم کرنے کے لیے مضبوط کرنے کے لیے جو ہم عہد و پیمان لیتے ہیں جو وعدے لیتے ہیں اسے میثاق کہتے ہیں۔
اب آپ قرآن مجید میں دیکھیں سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے:

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِىٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِـمْ ذُرِّيَّتَـهُـمْ وَاَشْهَدَهُـمْ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غَافِلِيْنَ (172)
اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر اقرار کرایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، انہوں نے کہا ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں، (یوں نہ ہو کہ) کہیں قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر نہ تھی۔

کہ ہم نے اولاد آدم کی پشت میں جو مخلوقات تھی یہی جو زرات تھے مخلوقات اللہ تعالیٰ کی جنہوں نے آگے پیدا ہونا تھا ان سب سے اللہ نے ایک میثاق لیا کہ کہا آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں سب نے کہا کیوں نہیں ہم اس کے گواہی دیتے ہیں
اسی طرح اللہ نے نبیوں سے بھی میثاق لیا حتی خود ہمارے پیغمبر سے جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر سات میں ذکر ہے:

وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُـمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْـرَاهِيْـمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَـمَ ۖ وَاَخَذْنَا مِنْـهُـمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا (7)

اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسٰی اور مریم کے بیٹے عیسٰی سے بھی، اور ان سے ہم نے پکا عہد لیا تھا۔

روایات یہ بتاتی ہیں کہ اللہ نے جو نوع بشر سے میثاق لیا تھا اپنی ربوبیت کا یہ میثاق جو ہے پھر خدا نے ایک فرشتے کا سپرد کیا وہ کون سا فرشتہ ہے ؟

کہ جب اللہ نے عالم ملائکہ میں سے سب فرشتوں کو اکٹھا کر کے ان سے میثاق لیا تو جس فرشتے نے سب سے پہلے سبقت کی لبّیک کہا تو خدا نے یہ نوع بشر کا میثاق بھی اس کے سپرد کر دیا اور پھر اسے خوبصورت جسم میں تبدیل کر دیا اور خانہ کعبہ میں اسے ٹھہرا دیا خانہ کعبہ اس کا مسکن بن گیا بعد میں لوگوں کے لمس کرنے سے وہ سیاہ ہو گیا یعنی یہی حجرِ اسود ، یہ اللہ کا ایک مقربین ترین فرشتہ ہےجس کے پاس تمام مخلوقات کا میثاق ہے اس لئے جب ہم حجرِ اسود کی طرف جاتے ہیں اسے لمس کرتے ہیں چومتے ہیں تو گویا ہم یہ کہتے ہیں اور کہنا چاہئے کہ میں نے اپنی امانت کو ادا کیا میں اپنے عہد کا پابند ہوں اور تو بھی میرے لئے گواہی دے کہ میں وفادار ہوں میں اپنے رب کو ماننے والا اور جب اللہ نے نبیوں سے میثاق لیا تھا تو سب سے پہلا نبی جس نے سبقت کی اور خدا کو جواب دیا اور اس میثاق پر عہد باندھا وہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قریش کے بعض لوگ آئے ہمارے پیغمبر کی خدمت میں کہ آپ تو سب سے آخر میں آئے ہیں پھر آپ کا اتنا مقام کہ آپ سب سے افضل ہیں تو آپ نے فرمایا:

جب اللہ پیغمبروں سے میثاق لے رہا تھا تو سب سے پہلے میں نے ہی خدا کی ربوبیت کا جواب دیا تھا اس لئے اللہ نے مجھے سب پر افضلیت بخشی۔
قرآن مجید کے اندر بعض آیات میں بڑے خاص مطالب ہیں۔
یہ جو سورہ آل عمران کی 81 نمبر آیت ہے اس میں اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو فرما رہا ہے :
وَاِذْ اَخَذَ اللّـٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَابٍ وَّحِكْمَةٍ ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٝ ۚ قَالَ ءَاَقْرَرْتُـمْ وَاَخَذْتُـمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِىْ ۖ قَالُوْا اَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشَّاهِدِيْنَ (81)
اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب اور علم سے دوں پھر تمہارے پاس پیغمبر آئے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہے تو اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا، فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا، انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا، اللہ نے فرمایا تو اب تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

وہ جو تمہارے بعد نبی آئیں گے جو تمہاری تصدیق کریں گے آپ نے ان کی اطاعت بھی کرنی ہے اور ان کی نصرت بھی کرنی ہے
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں
سورہ زخرف میں آیت نمبر 45 میں پروردگار ہمارے نبی کو فرما رہا ہے:

وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۖ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْـمٰنِ اٰلِـهَةً يُّعْبَدُوْنَ (45)

اور آپ ان سب پیغمبروں سے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے پوچھ لیجیے، کیا ہم نے رحمان کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا لیے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے۔

کہ تو ان نبیوں سے پوچھ کہ خدا رحمن نے کوئی اور بھی خدا ہمارے لئے قرار دیا ہے کہ جن کی ہم پرستش کریں۔
اس حوالے سے جناب نافع امام باقر علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ میں کتنے سال مدت تھی ؟ فرمایا:
پانچ سو سال۔
تو کہنے لگے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے پیغمبر باقی نبیوں سے پوچھتے حالانکہ ان سے جو پچھلے نبی تھے وہ پانچ سو سال پہلے آئے اور چلے گئے یعنی پروردگار کے پاس چلے گئے اتنا فاصلہ ہے تو کیسے ہمارے نبی افضل ہیں تو فرمایا یہ سورہ اسراء کی آیت نمبر ایک کو دیکھو کہ جس میں اللہ تعالیٰ جو ہے وہ فرما رہا کہ:
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾

منزہ ہے وہ ذات جو اپنے عبد کو رات کی تاریکیوں میں مسجد الحرام سےمسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبر اسلام کو بیت المقدس میں لے گیا تو وہاں خدا نے جو اپنی ایک نشانی دکھائی وہ یہ کہ وہاں سارے پیغمبروں کو اول سے آخر تک سب کو وہاں جمع کیا اور پھر حضرت جبرائیل کو حکم دیا کہ آذان کہیں حضرت جبرائیل نے آذان اور اقامت کہی اور اس کے بعد ہمارے پیغمبر امام والی جگہ پہ آئے اور انہوں نے امامت کی سب نے ان کی اقتدا کی اور ایک عظیم نماز قائم ہوئی اور جب نماز کے بعد پیغمبر فارغ ہوئے تو انہوں نے باقی پیغمبروں سے یہ پوچھا کہ تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو اور کس کی عبادت کرتے ہوتو سب نے کہا۔
ہم یہی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں وہ تنہا اور واحد ہے اور ہم یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ تُو خدا کا پیغمبر ہے اور ہم اس عہد و پیمان پر ہمیشہ باقی ہیں۔

تو جناب نافع کہتے ہیں کہ سچ کہا ہے فرزند رسول
تو یہ جو قرآن میں کہا گیا کہ پیغمبروں کو اللہ نے حکم دیا کہ تم نے نصرت کرنی ہے اور تم نے اطاعت کرنی ہے۔
اس کے حوالے سے امام باقر اور امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ سورہ مبارکہ آل عمران کی 81 نمبر آیت کا کیا مطلب ہے ؟فرمایا:
یہ رجعت میں سارے پیغمبر واپس آئیں گے حضرت آدم سے لے کر آخر تک اور وہ جو ایک عظیم جنگ ہوگی جس میں عالمِ کفر اور عالمِ اسلام دونوں مدد مقابل ہوں گے کہ یہ سارے پیغمبر اس جنگ میں ہمارے نبی اور اسی طرح امیر المومنین ع یعنی سلسلہ ولایت کی مدد کریں گے۔
اب یہ رجعت کیسے ہوگی اس کے حوالے سے مختلف احادیث ہیں اور اس رجعت میں نبی بھی آئیں گے اوصیاء بھی آئیں گے جیسے مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
میں نے اپنے عہد کو پورا کیا اور میں نے اپنے پیغمبر کی مدد کی اور پھر بھی دوبارہ میں آوں گا یعنی میں رجعت بھی کروں گا۔
اسی طرح ہم اصولِ کافی میں ایسی احادیث دیکھتے ہیں۔

جس میں اللہ تعالیٰ جو ہے وہ پیغمبروں کے ایک عہد کی بات کر رہا ہے کہ خدا نے تمام پیغمبروں سے یہ عہد لیا آیا میں تمہارا خدا نہیں ہوں اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے رسول نہیں ہے اور یہ علی بن ابی طالب امیر المومنین ع نہیں سب نے کہا کیوں نہیں
اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اولعزم پیغمبروں سے ایک پیمان لیا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ہے وہ میرے رسول ہے اور علی امیر المومنین ع ہے۔
اور ان کے بعد جو اوصیاء ہیں وہ میرے حکم کے والی ہیں اور میرے علم کے خزانہ دار ہے اور مہدی عج وہ ہے جس کے ذریعے میں اپنے دین کی مدد کروں گا اور اپنی الہی حکومت کو دنیا پر آشکار کروں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا اور اسی کے ذریعے چاہیے کوئی چاہے یا نہ چاہے میری عبادت ہوگی سب پیغمبروں نے اقرار کیا اور گواہی دی۔

کیونکہ ہماری گفتگو میثاق میں جاری ہے احادیث ہی بتاتی ہیں کہ جتنے بھی میثاق لیے گئے ان سب میں بالاترین درجہ جو ہے وہ ولایت کا ہے۔
امام باقرعلیہ السلام نے جناب زرارہ کو کہا کہ اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے۔
نماز
زکوة
حج
روزہ
ولایت
جناب زرارہ کہنے لگے کہ ان میں سے کونسی چیز سب سے برتر ہے۔
تو فرمایا ولایت سب سے برتر ہے کیونکہ ولایت باقی سب کی چابی ہے اور اللہ کا جو ولی ہے وہ ان سب چیزوں کی طرف راہنما ہوتا ہے اس لئے کہتے ہیں کہ ولایت سب سے بڑا مصداق ہے وہ اس اعتبار سے سب سے برترہے کہ اگر یہ ہے تو باقی چیزیں ہیں اگر یہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں۔
اس لئے تو ہماری احادیث میں ہےکہ اگر کوئی شخص ساری رات عبادت کرے سارے سال سب دن روزے رکھے اور اپنے سارے اموال کو صدقہ دے اور اپنی ساری عمر حج کرتا رہے لیکن اگر اپنے زمانے کے ولی کی ولایت کو نہیں جانتا یعنی معرفت نہیں رکھتا زمانے کے امام کی اور اسے یہ پتہ نہیں ہے کہ میں کس کی پیروی کروں اور اپنے اعمال میں کس کو اپنا رہنما قرار دوں تو اسے کوئی ثواب حاصل نہیں ہوگا اور نہ وہ اہل ایمان نہیں ہوگا۔

تو پس آج وقت کے ولی جو اس الہی میثاق کی تجلی ہے جن کی معرفت اور جن کی اطاعت ہمارے دین کا معیار ہے اور جن کی وجہ سے ہمارے اعمال قبول ہوتے ہیں اور جو حقیقی معنی میں دنیا دین اور آخرت کے حوالے سے ہمارے امام ہمارے رہنما ہے وہ مہدی زمان عج ہے۔
اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے مولا ع پر اپنے سلام بھیجے اور اللہ ہمارا یہ سلام اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے آمین۔

والسلام۔
عالمی مرکز مہدویت قم المقدس ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *