زیارت آل یاسین
درس 6:
موضوع: امام مہدیؑ عج آج داعی الی اللہ ہیں۔
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
﷽
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ وَرَبَّانِیَّ اٰیَاتِہٖ
موضوع سخن زیارت آل یاسین ہے اور ہماری گفتگو اہم ترین سلام اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ وَرَبَّانِیَّ اٰیَاتِہ، اس میں جاری ہے۔
ہم نے عرض کیا تھا کہ داعی الی اللہ ہر ہستی نہیں ہو سکتی یہ وہی ہستیاں ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے خود اس منصب پر فائز فرمایا۔ اور آج اس دور میں پروردگار کے دین کی طرف دعوت دینے والے، اوراللہ کی راہ میں ہدایت دینے والے صرف اور صرف ایک ہی امام ہیں اور وہ امام مہدیؑ عج ہیں جو پیغمبؐر اسلام ﷺ کے بارھویں وصی ہیں اور جو اللہ کے حکم سے طولانی عمر رکھتے ہیں۔ اور اس وقت پردہ غیبت میں ہیں۔
آپ جناب امام حسن عسکریؑ کی شہادت یعنی 260 ھج سے مقام امامت پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد غیبت صغریٰ جو تقریباً ستر سال جاری رہا۔ جس میں آپؑ کا امت کے ساتھ رابطہ اپنے سفیروں اور خاص نائبین کے ذریعے ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد سے اب تک زمانہ غیبت کبریٰ ہے اور اِس دور میں فقہاء اور مجتہدین مولاؑ کے حکم سے لوگوں کو ظاہری ہدایت کر رہے ہیں، ان کے فقہی مسائل بھی حل کررہے ہیں ، درس اخلاق بھی دے رہے ہیں اور علوم آل محمدؐ ﷺ سے بھی بہرہ مند کر رہے ہیں۔ اور امامؑ عج بعنوانِ ولیؑ خدا باقی تمام طریقوں کے ساتھ لوگوں ہدایت میں مشغول ہیں۔
اور
اس زمانے میں بہت ساری ہستیاں جیسے ابدال اور بعض روایات کی رو سے حضرت خضرؑ جیسی ہستیاں آپؑ کی خدمت میں ہیں ۔
اس وقت داعی الی اللہ جو ہستی ہیں وہ امام مہدیؑ عج ہیں اور آپ کی معرفت اور اطاعت واجب ہے اور آپؑ سے تمسک اور توسل ضروری ہے۔ اگر خدا کے علوم حاصل کرنے ہیں اور الہیٰ ہدایت سے بہرہ مند ہونا ہے تو اس کا واحد راستہ امام مہدیؑ عج کی ذات مبارکہ ہے۔
اللہم صلی علی محمدؐ ﷺ وآل محمدؑ ﷺ
قرآن مجید کے اندر سورہ نور کی آیت نمبر 35 اور 36 میں اللہ تعالیٰ نے نور الہیٰ اور کچھ خاص گھروں کا ذکر کیا۔
اَللّهُ نُـوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ مَثَلُ نُـوْرِهٖ كَمِشْكَاةٍ فِيْـهَا مِصْبَاحٌ ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِىْ زُجَاجَةٍ ۖ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّـهَا كَوْكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُـوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَكَادُ زَيْتُـهَا يُضِيٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّوْرٌ عَلٰى نُـوْرٍ ۗ يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللّـٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللّـٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْـمٌ (35)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں چراغ ہو، چراغ شیشے کی قندیل میں ہے، قندیل گویا کہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ستارا ہے زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے اگرچہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو، روشنی پر روشنی ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
فِىْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّـٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَـرَ فِيْـهَا اسْمُهٝ ۙ يُسَبِّـحُ لَـهٝ فِيْـهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (36)
ان گھروں میں جن کی تعظیم کرنے اور ان میں اس کا نام یاد کرنے کا اللہ نے حکم دیا، ان میں صبح اور شام اللہ کی تسبیح پڑھتے ہیں۔
آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ:
يَـهْدِى اللّـٰهُ لِنُـوْرِهٖ مَنْ يَّشَآءُ
خدا جسے چاہتا ہے اسے اپنےنور کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ یعنی امام کی طرف بھی تمسک لینا ہے تو اس کے لیے اللہ سے اہلیت اور توفیق مانگیں۔
اور اسی طرح آیت نمبر 36 میں پروردگار فرما رہا ہے کہ
فِىْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّـٰهُ اَنْ تُرْفَعَ
کچھ ایسے گھر ہیں کہ جنہیں اللہ نے مقام رفعت (بلندیوں والا مقام ) بخشا ہے۔
وَيُذْكَـرَ فِيْـهَا اسْمُهٝ
اس کے اندر ذکر خدا جاری ہے۔ ان گھروں کے اندر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کا ذکر ہوتا ہے۔
اہلسنت کے ایک عالم جناب سیوطی نے اپنی تفسیر دُرِ منثور میں ایک صحابی رسولؐ ﷺ جناب انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ جب رسولؐ اللہ ﷺ نے اس آیہ مجیدہ کی تلاوت کی یعنی فِىْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّـٰهُ اَنْ تُرْفَعَ تو اس وقت ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ یہ کون سے گھر ہیں؟
فرمایا:
یہ نبیوں کے گھر ہیں۔ کہ جہاں پروردگار کا ذکر جاری ہوتا ہے اور جنہیں اللہ نے مقام رفعت بخشا ہے۔ تو اس وقت جناب ابوبکر اٹھے اور پوچھا اے اللہ کے رسولؐ ﷺ آیا علیؑ اور فاطمہؑ کا گھر بھی یہ مقام رکھتا ہے۔
فرمایا کیوں نہیں بلکہ ایسے تمام گھروں میں بلند ترین مقام علیؑ اور فاطمہ کا گھر رکھتا ہے۔
تو یہاں رسولؐ اللہﷺ نے اپنے بعد تاقیامت لوگوں کو بتا دیا کہ اگر ہدایت لینی ہے تو فاطمہؑ اور علیؑ کے گھر سے لیں اور اگر کوئی گھر ہے جہاں ذکر خدا حقیقی معنوں میں جاری ہوتا ہے تو وہ علیؑ اور فاطمہؑ کا گھر ہے۔ اور اسلیے ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث ثقلین میں بھی پیغمبرؐﷺ نے واضح کر کے بتا دیا کہ ہدایت کے بھی منبع کون ہیں
یعنی !
قرآن اور عترت رسولؐ ﷺ جو حوض کوثر پر اکھٹے میرے پاس آئیں گے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ زمین ہمیشہ حجت خدا رکھتی ہے اور اگر زمین میں حجت خدا نہ ہو تو یہ زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے۔
لہذا جس ہستی سے ہم نے تمسک کرنا ہے اور ہدایت لینی ہے وہ حتماً حجت خدا ہیں۔ یہ وہی ہستی ہیں کہ جنہیں اللہ نے منصوب کیا ہے اور یہی ہستی اللہ کی محبوب ترین ہستی ہوتی ہے اور اسے ہی اللہ نے اپنا علم عطا کیا ہے۔ اور پوری مخلوقات اور کائنات کو اور وہ لوگ جو علم کے متلاشی ہیں انہیں بھی انہیں کے وسیلے سے علم حاصل ہوتا ہے۔
بالخصوص حدیث میں آیا ہے کہ:
جب امام مہدیؑ عج کی حکومت شروع ہوگی تو اس وقت پروردگار خود براہ راست امام مہدیؑ عج کے وجود کی برکت سے کہ ان لوگوں نے امام مہدیؑ عج کو اپنا حاکم قرار دیا ہے۔ تو خدا ان سے اتنا راضی ہوگا کہ خود براہ راست علوم کو لوگوں کےدلوں میں منتقل کرے گا۔
سبحان اللہ!
مولائے کائناتؑ فرماتے ہیں کہ:
اس زمانے میں جب مہدیؑ عج کی حکومت ہوگی، خدا علم کو براہ راست لوگوں کے قلوب میں ڈالے گا۔ اور اتنا علم ڈالے گا کہ کوئی مومن کسی دوسرے کے علوم حتی اپنے بھائی کے علم کا محتاج نہیں ہوگا۔ اور مولاؑ فرماتے ہیں کہ:
یہ وہ زمانہ ہوگا کہ جس کا ذکر سورہ نساء کی آیت نمبر 130 میں ہوا۔
يُغْنِ اللّـٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ وَاسِعًا حَكِـيْمًا (130)
تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے پروا کردے گا، اور اللہ وسعت کرنے والا حکمت والا ہے۔
یعنی اللہ ہر ایک کو اپنی کشائش اور اپنی وسعت سے بے نیاز کر دے اور خدا ہے جو بے پناہ وسعتیں عطا کرنے والا اور صاحب حکمت ہے۔
حتی! امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:
لوگ اس زمانے میں سورج اور چاند کے نور کے بھی محتاج نہیں ہونگے۔ اور فقط اور فقط اپنے امامؑ کے نور سے بہرہ مند ہونگے۔ یہاں نور سے مراد عِلم ہے۔ اور وہی ترقی اور کمال ہے۔
آج دنیا کے لوگ کائنات میں بکھری ہوئی بے پناہ چیزیں جیسے چاند اور سورج میں اپنی ترقی اورکمال ڈھونڈ رہے ہیں اور جو اصلی منبع ہدایت ہے جو ترقی کا کمال ہے لوگ اس سے غافل ہیں۔ اگر وہ لوگ اصلی منبع سے متمسک ہوں تو انہیں ان چیزوں کی طرف جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ چیزیں تو خود اس حجت خدا کی محتاج ہیں۔
سبحان اللہ!
یعنی اُس زمانے میں لوگوں کو اس چیز کا ادراک ہوگا کہ اصل میں منبع نور ولیؑ خدا عج ہیں، یعنی! اگر کمال ہے تو وہاں ہے، اگر روحانی ترقی ہے تو وہاں ہے، اگر علم الہیٰ ہے تو وہاں ہے۔
اب ہمیں معلوم ہوا کہ اس سلام کا معنیٰ کیا ہے؟؟
یعنی!
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ
جب بھی ہم اس سلام کو پڑھیں اپنے ذہنوں میں امام مہدیؑ عج کے مقام کو تصور کریں۔ کہ کائنات میں سب سے زیادہ محبوب خدا، ولیؑ خدا، وہ جو سچا ھادیؑ ہے اور جس ہستی کے پاس اصلِ دین ہے اسے سلام کر رہے ہیں۔
یعنی! ان کے سامنے تواضع سے جھکیں اور کہیں :
” اے پروردگار کے داعی آپؑ پر ہمارا سلام”
اور اس کے بعد فرمایا:
وَرَبَّانِیَّ اٰیَاتِہٖ
یعنی! خدا کی نشانیوں سے آگاہ۔
بعض علماء اس سے مطلب لیتے ہیں کہ وَرَبَّانِیَّ اٰیَاتِہٖ
سے مراد یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے جب بھی طلب کیا جائے تو وہ عطا کرے۔
یعنی
ربانی اٰیاتہ
وہ ہستی کہ جس کے پاس الہیٰ نشانیوں کا بے پناہ سمندر ہے۔ اور اس کا تعلق پروردگار سے ہے اور اسی لیے اللہ ان اولیائے خدا کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔
سبحان اللہ!
اور ایک معنیٰ یہ ہے کہ:
خدا کی آیات ، خدا کی ساری نشانیاں اور سارے علوم ان ہستیوں کے پاس ہیں اور یہ ہیں جو حقیقی معنوں میں لوگوں کے لیے الہیٰ آیات کی تفسیر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں دو تعبیریں ہیں۔
رَّبّٰنِیُّوْنَ اور رِبِّیُّوْنَ
رَّبّٰنِیُّوْنَ کا ذکر سورہ المائدہ کی آیت نمبر 44 اور 63 میں ہے۔
44۔۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْـهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِـهَا النَّبِيُّوْنَ الَّـذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتَابِ اللّـٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا ۚ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ (44)
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے، اس پر اللہ کے فرمانبردار پیغمبر یہود کو حکم کرتے تھے اور اہل اللہ اور علماء بھی اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے، سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو، اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔
63۔۔
لَوْلَا يَنْـهَاهُـمُ الرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِـهِـمُ الْاِثْـمَ وَاَكْلِهِـمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُـوْا يَصْنَعُوْنَ (63)
ان کے مشائخ اور علماء گناہ کی بات کہنے اور حرام مال کھانے سے انہیں کیوں نہیں منع کرتے، البتہ بری ہے وہ چیز جو وہ کرتے ہیں۔
یہاں مراد علما اور فقہاء ہیں
رِبِّیُّوْنَ
اسی طرح قرآن مجید میں ایک جگہ ذکر ہے رِبِّیُّوْنَ
جیسے سورہ آل عمران 146
وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهٝ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْـرٌۚ فَمَا وَهَنُـوْا لِمَآ اَصَابَـهُـمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُـوْا ۗ وَاللّـٰهُ يُحِبُّ الصَّابِـرِيْنَ (146)
اور کئی نبی ہیں جن کے ساتھ ہو کر بہت سے اللہ والے لڑے ہیں، پھر اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچنے پر نہ ہارے ہیں اور نہ سست ہوئے اور نہ وہ دبے ہیں، اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
رَّبّٰنِیُّوْنَ اور رِبِّیُّوْنَ میں فرق:
علماء اور فقہاء دو طرح کے ہیں
۔ باعمل
۔ بے عمل
باعمل علماء:
جو اللہ کی راہ میں ہدایت کرتے ہیں، انبیاءؑ کے وارث ہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔
بے عمل علماء:
جن کے پاس علم ہے، ربانی ہیں لیکن! وہ اپنے وظائف پورے نہیں کرتے۔
لوگ معصیت میں غرق ہیں لیکن! یہ ان کی ہدایت نہیں کرتے۔
اور مولائے کائناتؑ فرماتے ہیں کہ:
“تم سے پہلے لوگ کیوں ہلاک ہوئے؟؟ کیونکہ! وہ نافرمانی کرتے تھے اور ان کے اندر جو علماء تھے وہ انہیں اس کام سے منع نہیں کرتے تھے۔ یعنی امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے تھے اسی لیے وہ سخت عذاب الہیٰ سے دوچار ہوئے۔
لیکن!
رِبِّیُّوْنَ کون ہیں؟
وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهٝ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْـرٌ
جن کے بارے میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 146 میں بیان ہوا ہے کہ وہ ہستیاں ہیں جو پیغمبران خدا کی رکاب میں دشمنان دین سے جہاد کرتے ہیں اور اپنی جان اللہ کی راہ میں دیتے ہیں۔
رِبی
یہ وہ اوصیا ہیں کہ جو نبیؐ کے پروردہ ہیں کہ جو نبیؐ کی طرح خدا سے علم لیتے ہیں اور اخلاص، ایثار اور فداکاری میں کمال تک پہنچے ہوئے ہیں۔
پروردگار ہم سب کو توفیق دے کہ آج کے جو رِبی ہیں یعنی امام مہدیؑ عج ان کی معرفت حاصل کریں اور ان سے ہدایت طلب کریں اور ان کے وجود سے بہرہ مند ہوں۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم