زیارت آل یٰس
درس17
امام مہدی عج اللہ تعالیٰ کا ضمانت شدہ وعدہ
امام مہدی عج نشان ھدایت ، جاری علم، فریاد رس اور وسیع رحمت پروردگار
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
جملہ:
السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا وَعْدَ اللَّهِ الَّذِي ضَمِنَهُ
(ترجمہ: سلام ہو آپ پر، اے اللہ کا وہ وعدہ جس کا اس نے خود ضامن ہونا قبول کیا!)
تشریح:
1. يَا وَعْدَ اللَّهِ (اے اللہ کے وعدے!):
– یہ لقب امام مہدی (عج) کو اللہ کے ایک عظیم وعدے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
– قرآن و احادیث میں اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ زمین پر صالحین کو اقتدار عطا کیا جائے گا:
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ (الأنبیاء: 105)
اور ہم نے زبور میں ذکر (تورات) کے بعد لکھ دیا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔
– امام زمانہ (عج) کی ظهور کی تحقق، اللہ کے اسی وعدے کی تکمیل ہے۔
2. الَّذِي ضَمِنَهُ (جس کا اس نے خود ضامن ہونا قبول کیا):
– اللہ تعالیٰ نے نہ صرف امام مہدی (عج) کے ظہور کا وعدہ فرمایا، بلکہ خود اس کی ضمانت بھی لی ہے۔
– یہ ضمانت اس بات کی علامت ہے کہ یہ وعدہ حتمی ہے اور کبھی ٹلنے والا نہیں۔
– احادیث میں آیا ہے کہ “اگر دنیا کی عمر صرف ایک دن باقی رہ جائے، تو اللہ اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک فرد (یعنی امام مہدی) ظاہر ہو اور زمین کو عدل سے بھر دے۔” (صحیح احادیث کی روشنی میں)
نتیجہ:
یہ جملہ امام زمانہ (عج) کے ظہور کو اللہ کے اٹل وعدے کے طور پر بیان کرتا ہے، جو نہ صرف بشارت دیتا ہے بلکہ مومنین کے ایمان و یقین کو مضبوط کرتا ہے۔ اس میں دو اہم پیغام ہیں:
1. امام مہدی (عج) کا قیام اللہ کی جانب سے ایک یقینی وعدہ ہے۔
2. اللہ خود اس وعدے کا محافظ اور پورا کرنے والا ہے، لہٰذا مومنین کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
یہ فقرہ ہمیں امام (عج) کے انتظار کی اہمیت یاد دلاتا ہے اور اس عظیم دن کی تیاری کی ترغیب دیتا ہے۔
جملہ:
السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ، وَالْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ، وَالْغَوْثُ وَالرَّحْمَةُ الْواسِعَةُ وَعْداً غَيْرَ مَكْذُوبٍ
ترجمہ:
سلام ہو آپ پر، اے نصب کردہ نشان (علامت)، اے علمِ جاری، اے فریاد رَس اور وسیع رحمت، جو ایک جھوٹ سے پاک وعدہ ہے!
—
تشریح:
1. الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ (نصب کردہ نشان/علامت):
– یہ لقب امام مہدی (عج) کو ایک واضح اور بلند نشان کے طور پر بیان کرتا ہے جو اللہ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔
– جیسے راستے میں کھمبے (علامات) لوگوں کو منزل تک پہنچاتے ہیں، امام (عج) بھی ہدایت کا نشان ہیں۔
– قرآن میں اللہ فرماتا ہے: وَ كُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (یسین: 12)
اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح امام میں شمار کر دیا ہے۔
2. الْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ (علمِ جاری/بہتا ہوا علم):
– امام (عج) کا علم ایک سرچشمے کی طرح ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
– آپ (عج) معصوم ہیں اور آپ کا علم لدنی ہے، جو اللہ کی جانب سے براہِ راست عطا ہوتا ہے۔
– حدیث میں ہے: العلمُ نقطۃٌ کثرّھا الجاھلون (علم ایک نقطہ ہے جسے جاہل لوگوں نے زیادہ کر دیا)۔ امام (عج) اس اصل علم کے حامل ہیں۔
3. الْغَوْثُ (فریاد رَس/نجات دہندہ):
– امام زمانہ (عج) دنیا کے اس وقت نجات دہندہ ہوں گے جب ظلم و جور سے فریادیں بلند ہوں گی۔
– یہ لقب حضرت امام حسین (ع) کی دعا “یا غیاث المستغیثین” کی یاد دلاتا ہے، جو مصائب میں پناہ مانگتے ہیں۔
4. الرَّحْمَةُ الْواسِعَةُ (وسیع رحمت):
– آپ (عج) اللہ کی رحمت کے وسیع دروازے ہیں۔ جس طرح قرآن میں ہے: وَ مَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء: 107)، امام (عج) بھی اسی رحمت کا تسلسل ہیں۔
– آپ کے ظہور کے بعد دنیا عدل و رحمت سے بھر جائے گی۔
5. وَعْداً غَيْرَ مَكْذُوبٍ (جھوٹ سے پاک وعدہ):
– یہ اللہ کے اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
– قرآن میں ہے: وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ (الروم: 6)
یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
—
نتیجہ:
یہ فقرہ امام زمانہ (عج) کی عظمت کو چار بنیادی صفات میں بیان کرتا ہے:
1. ہدایت کا نشان (الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ)
2. علمِ الٰہی کا سرچشمہ (الْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ)
3. مظلوموں کا نجات دہندہ (الْغَوْثُ)
4. اللہ کی وسیع رحمت (الرَّحْمَةُ الْواسِعَةُ)
یہ سب اللہ کے اس پکے وعدے پر مبنی ہیں جو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس زیارت کا پڑھنا مومنین کے دل میں امید اور عزم پیدا کرتا ہے کہ امام (عج) کا ظہور یقینی ہے اور وہ دنیا کو عدل و رحمت سے بھر دیں گے۔
والسلام علیکم و رحمة الله
عالمی مرکز مہدویت_ قم ایران