تازہ ترین پوسٹس

زمانہ غیبت میں امام زمان عج کے ناصرین ابدال کون ہیں ، ان کی صفات کیا ہیں؟_ علامہ آغا علی اصغر سیفی صاحب

زمانہ غیبت میں امام زمان عج کے ناصرین ابدال کون ہیں ، ان کی صفات کیا ہیں؟ ابدال میں ایک ہستی کے حالات:

استاد محترم علامہ آغا علی اصغر سیفی صاحب

 

بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم:
اما بعد فقال امام جعفر صادقؑ
الّلهمّ صلّ على الأبدال و الأوتاد و السیّاح و العباد و المخلصین و الزهّاد و أهل الجدّ و الاجتهاد و اخصص محمّداً و أهل بیته بأفضل صلواتک و أجزک کراماتک»

ہماری گفتگو زمانہ غیبت کے ناصرین یعنی وہ لوگ جو اس زمانہؑ غیبت میں امام زمانہؑ عج کے خدمتگار ہیں ان پر ظاہراً شروع ہوئی تھی اور اس حوالے سے کچھ مطالب بیان ہوئے۔ اور اسی موضوع کو آگے بڑھائیں گے۔

ابدال:
وہ لوگ جو زمانہؑ غیبت میں امام زمانہؑ کے ہمراہ ہیں اور ان کی خدمت میں رہتے ہیں انہیں ابدال کا عنوان دیا گیا ہے۔ اور ابدال فقط مکتب تشیع میں اصطلاح نہیں بلکہ مکتب اہلسنت میں بھی اس موضوع پر بات ہوئی ہے اور اس حوالے سے روایات اور گفتگو ہے۔ البتہ! اہلسنت اس کو تصوف اور صوفیت کی جانب لے جاتے ہیں ۔ جبکہ تشیع کے اندر ابدال وہ لوگ ہیں کہ جو امام زماںؑ عج کی خدمت میں رہتے ہیں اور یہ 30 نفر ہیں اور بعض روایات میں 40 اور یہاں تک کہ بعض میں 70 تک ان کی تعداد بیان ہوئی ہے۔ لیکن! جو معتبرروایت ہے وہ 30 نفر کی معلوم ہوتی ہے ۔ جیسا کہ امام محمد باقرؑ نے فرمایا:

لَا بُدَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ مِنْ عُزْلَةٍ وَ لَا بُدَّ فِي عُزْلَتِهِ مِنْ قُوَّةٍ و وَ مَا بِثَلَاثِينَ مِنْ وَحْشَةٍ۔۔۔۔۔۔
“یقیناً اسی زمانہ غیبت میں امام زمانؑ عج کے لیے تنہائی ہے ۔ اگرچہ وہ تنہا ہیں لیکن! پروردگار کی جانب سے انہیں قدرت حاصل ہے”

ظاہر ہے کہ وہ ولیؑ پروردگار ہیں اور انہوں نے بہت سارے امور انجام دینے ہیں۔ بے شک زمانہ غیبت ہی کیوں نہ ہو وہ پروردگار کی دی ہوئی قدرت سے اپنے فرائض میں مشغول ہیں۔

اس کے بعد فرمایا:
” تیس نفر ان کی خدمت میں رہتے ہیں تاکہ امامؑ اپنے امور کو انجام دینے میں تنہائی کا شکار نہ ہوں”۔

اب یہ جو ابدال کے حوالے سے گفتگو ہے یہ اور بھی بہت ساری روایات میں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث رسولؐ خدا ﷺ میں ابدال کی صفات پوچھی گئی۔ جن میں سے ہم چند صفات کی جانب اشارہ کریں گے تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ ابدال کیسے لوگ ہیں اور آیا ہم بھی زمرہ ابدال میں آسکتے ہیں یا نہیں۔

ابدال کی خصوصیات جو احادیث میں آئیں ہیں:
ابدال کا دل، حضرت ابراھیمؑ کا جیسا ھوتا ہے:

جناب عبادۃ بن الصامت رسولؐ اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ نبیؐ کریم ﷺ نے فرمایا:

الأبدال فى هذه الامّة ثلاثون مثل ابراهیم خلیل الرّحمان
ابدال تیس نفر ہیں اور وہ ابراھیم خلیل رحمان کی طرح ہیں یعنی توحید، ایمان، استحکام اور استقامت میں مثل قلب ابراہیمؑ ہیں اور باطل و شرک و شیطان و ہوائے نفس کے مدمقابل قلب ابراہیمؑ رکھتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور حدیث جو جناب مسعود نے رسولؐ خداﷺ سے نقل کی کہ:
لایزال اربعون رجلاً من امّتى قلوبهم على قلب ابراهیم یدفع اللّه بهم عن أهل الأرض یقال لهم الأبدال
یہ چالیس ابدال جو کہ قلب ابراھیم رکھتے ہیں یہ وہ ہیں کہ جن کے وجود کی برکت سے پروردگار لوگوں کی مشکلات دور کرتا ہے ۔ یہ بہت ہی متبرک لوگ ہیں۔ البتہ اس کا ایک اور مطلب بھی ہے کہ یہ ہمیشہ لوگوں کی خدمت میں رہتے ہیں اور ان کے کام آتے ہیں۔

اگر کوئی انسان کسی مشکل میں پھنسے اور اپنے زمانے کے ولیؑ عج کو پکارے تو اس وقت امامؑ عج کی جانب سے یہی لوگ جاتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تشرفات اور ملاقات کے اندر ضروری نہیں کہ امام زمانؑ عج بنفس نفیس خود تشریف لائیں بلکہ اپنی طرف سے ایک ہستی کو ، ایک شخص کو ، ایک خدمتگار کو بھیجتے ہیں ۔ بالآخر امامؑ کا ایک اہم فریضہ لوگوں کی مشکلات کو دور کرنا ہے۔ اسی لیے تو حکم ہے کہ اپنے امور میں اپنے وقت کے امامؑ عج کو پکاریں
یاصاحب الزمانؑ عج ادرکنی
یا غیاث المستغیثین ادرکنی

یہ متبرک جملات جو ہم کہتے ہیں ان کا ہدف یہی ہے کہ اپنے ولیؑ کو پکاریں کیونکہ وہ ہماری مشکلات کو دور کرتے ہیں۔ جیسے امامؑ عج فرماتے ہیں کہ :
انی امان لاھل الارض
میں ہوں اہل الارض کے لیے وسیلہ امن ہوں ان کی مشکلات کو دور کرنے میں وسیلہ ہوں ۔اب ظاہر ہے کہ امام کا ایک نظام ہے کہ ان مشکلات کو دور کرنے میں بہت سے لوگ امام کے ساتھ مددگار ہیں اور ان میں سےایک گروہ ابدال کا ہے۔


ان کی ایک اور صفت جو احادیث میں بیان ہوئی وہ یہ ہے کہ:

الرضا بالقضاء:
جو کچھ اللہ کی جانب سے مقدر ہوتا ہے یہ لوگ اس پر راضی ہیں۔ اگر یہ لوگ مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو توحید میں اور ایمان میں اس مقام پر ہیں کہ قضا پر راضی ہیں۔

والصبر عن محارم اللہ
جس چیز کو اللہ نے حرام کیا یہ اس پر صابر ہیں۔ یعنی ہر قسم کی زحمت کو برداشت کرتے ہیں لیکن! خود کو حرام میں مبتلا نہیں ہونے دیتے۔

والغصب فی ذات اللہ،
ان کا غصہ اگر کسی پر ہوتا ہے تو وہ ذاتی نہیں ہوتا وہ بھی خدا کے لیے ہوتا ہے۔

ان کی ایک اہم صفت کے حوالے سے نبیؐ کریمﷺ فرماتے ہیں کہ:

یعفون عمّن ظلمهم و یحسنون الى من أساء الیهم و یتواسون فیما آتاهم اللّه؛
جو شخص ان (ابدال) کے حق میں ظلم کرے یہ اسے بخش دیتے ہیں اور جو ان کے ساتھ برائی کرے یہ اس کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور اللہ نے جو کچھ ان کو عطا کیا یہ اپنے اس رزق کو دوسروں کے ساتھ تقسیم کرتے ہیں۔

یعنی اگر کسی نے ابدال کی وادی میں قدم رکھنا ہے تو وہ ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرے۔

ابن مسعودؒ نے ایک اور حدیث رسولؐ خدا ﷺ سے نقل کی کہ فرماتے ہیں کہ:
ابدال کو اگر پہنچاننا ہے تو نماز، روزے اور صدقے سے نہیں پہچانیں گے۔ (کیونکہ یہ تو عام لوگ بھی کرتے ہیں)

پوچھا: اے نبیؐ خدا ﷺ پھر ابدال کیسے درک ہونگے(یعنی پھر ہم انہیں کیسے پہچانیں گے۔)
فرمایا:
وہ اہل سخاوت ہیں۔ وہ دائماً سخاوت ہیں اور لوگوں کے امور میں ان کی رہنمائی کرنے والے ہیں۔

عرض خدمت یہ ہے کہ یہ گروہ بالآخر زمانہ غیبت میں موجود ہے اور اگر ہم تشرفات اور ملاقات کے باب کو کھولیں تو جو واقعات علامہ مجلسیؒ نے لکھے اور محدث نوریؒ نے کتاب شریف نجم الثاقب میں یا پھر شیخ طوسیؒ کتاب الغیبۃ میں لکھا ہے۔ تو جہاں ملاقات امام زمانؑ میں خود حضرتؑ عج کا آنا ذکر ہے وہاں ابدال سے ملاقاتوں کا بھی ذکر ہے۔ حتی ہمارے علما اور فقہا سے ابدال سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں اور وہ حیران ہوتے تھےکہ میں تو وقت کا فقیہ ہوں اور ایک معمولی شخص اس قدر معنوی طور پر ترقی یافتہ ہو جاتا ہے کہ مولاؑ عج نے اسے ابدال میں سے قرار دیا ہے۔ یعنی لازمی نہیں ہے کہ جس نے جزو ابدال میں سے ہونا ہو وہ فقیہ ہو بلکہ اس کی اپنی خصوصیات ہیں جیسے کہ ہم عرض کر چکے ہیں۔

دور حاضر میں اس کی بہترین مثال جو بہت سارے بزرگان سے ثابت ہے ، جناب جعفر مجتہدیؒ کہ جن کی قبر مبارک مشہد میں ہے ان کے حوالے سے بہت سارے واقعات ہیں۔

مرحوم علامہ سید محمد باقرشفتی رشتیؒ:

آج ہم ابدال میں سے ایک ہستی کا ذکر کریں گے۔ ایران کے سب سے پہلے فقیہ کہ جن کو حجۃ الاسلام کا لقب ملا وہ مرحوم علامہ سید محمد باقرشفتی رشتی کہ جن کا مقبرہ اصفحان شہر کی مسجدِ سید کے ساتھ ہے۔ بانی مسجد بھی یہی تھے اور یہ بہت بڑی شخصیت تھے۔ ان کی زندگی کے بہت واقعات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ شروع میں ایک عام طالب علم تھے اور بہت ساری مالی مشکلات کا شکار تھے جیسا کہ ناداری اور غربت پھر ان کی ایک آزمائش ہوئی اور سید نے اس میں الحمدللہ استقامت کا ثبوت دیا۔ تو پھر اللہ نے ان پر مال کے دروازے کھول دیے ۔ یعنی وہی فقیہ جو غربت میں تھے اتنے مال دار ہوگئے کہ جمعہ والے دن اسی مسجد سید میں بیٹھتے تھے اور فقراء اور نادار لوگ آتے تھے اور سید یہ نہیں دیکھتے تھے کہ میں کتنا مال دے رہا ہوں یہ مشت مشت دیتے تھے۔ اور اس کے علاوہ ان کا اتنا بڑا مقام تھا کہ سلطنت ان سے خوفزدہ تھی۔ اور ان کا بہت زیادہ احترام تھا حتی کہ یہاں تک نقل ہوتا ہے کہ شہر اصفہان میں حدود شرعی کو اجراء کرتے تھے۔ مثلاً! مجرم ان کے پاس لائے جاتے تھے۔ ان کا بہت رعب اور دبدبہ تھا۔

روایت:
ایک مرتبہ حجۃ الاسلام علامہ سید محمد باقر شفتی رشتیؒ حج کے لیے قافلے کے ساتھ ایران سے عراق پہنچے۔ اور درمیان سفر میں لوگوں نے اپنے اموال ان کو دے دیے۔ ان کے پاس مضبوط لوہے کا صندوق تھا جس میں لوگوں کے اموال محفوظ تھے۔ جب یہ نجف پہنچے اور بعد از زیارت مسجد سہلہ ، اعمال کر کے جب اپنے گھرمیں پہنچے تو دیکھا کہ وہ صندوق کھلا ہوا ہے۔ اور تالا ٹوٹا ہوا ہے اور وہ اموال غائب ہو چکے ہیں۔ اب یہ فوراً مسجد سہلہ کی جانب دوڑے اور امام زمانؑ سے توسل کیا کیونکہ بالآخر کاروان کی ساری ذمہ داری ان کی تھی۔ وہاں انہوں نے بڑے خاص انداز سے مولاؑ عج کو پکارا۔

اس واقعہ کے راوی خود سید محمد باقرؒ شفتی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک جوان کو دیکھا کہ جو بہت خوبصورت ہیں اور نہایت اطمینان سے ان کی جانب چلتے ہوئے آرہے ہیں انہوں نے کہا:
سید کیوں اتنے پریشان ہو۔
سید چونکہ سفید ریش ایک فقہ ، درویش اور بزرگ شخصیت تھے اور جب جوان کو دیکھا تو متوجہ ہوئے کہ یہ صاحب العصرؑ عج
اللھم صلی علی محمدؐﷺ وآل محمدؑ
بالآخر جن کی بھی ملاقاتیں امامؑ سے ہوئیں ہیں انہوں نے ہمیشہ امام کو جوان دیکھا ہے۔ علامہ مجلسیؒ، علامہ حلیؒ، سید بحرالعلومؒ اور سید ابن طاؤس کی ملاقاتیں پڑھیں۔

کسی نے امام حسنؑ مجتبیٰ سے پوچھا کہ جب مہدیؑ ظہور کریں گے تو کیسے ہونگے۔

فرمایا؛ چالیس سال سے کم جوان کی شکل میں ظہور کریں گے۔
کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو اتنی طولانی عمر رکھتا ہے وہ جوان ظہور کرے۔
فرمایا یہ خدا کی قدرت کا ظہار ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے
دوسرے لفظوں میں :
وہی خدا جو ابراہیمؑ کے لیے آگ گلزار کر سکتا ہے، موسیٰؑ کے لیے پانی میں راستے بنا سکتا ہے۔ جو صالحؑ کے لیے کوہ سے ناقہ نکال سکتا ہے جو نوحؑ کو اتنی طولانی عمر دے سکتا ہے ، جو مردوں کو زندہ کر سکتا ہے وہ مہدیؑ عج کو بھی جوان رکھ سکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب اس جوان نے یہ کہا کہ اے سید ! کیوں اتنے پریشان ہو۔ تو ان کے اس جملے سے میرے اندر کا سارا غم اور اضطراب دور ہو گیا اور میں حالت اطمینان میں آگیا۔
کہا: مولاؑ عج آپؑ تو جانتے ہیں کہ کیا ہوا آپؑ کو تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ کیا ہوا۔

سید کہتے ہیں کہ امامؑ مسجد سہلہ کے دروازے پر کھڑے تھے اور ایران کی جانب رخ کر کے تین مرتبہ کہا
ھالو، ھالو ھالو

ایران میں عام طور پر یہ اصطلاح ریڑھی بان کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بازاروں میں لوگوں کا سامان لے کر ادھر ادھر منتقل کرتے ہیں۔
سید بڑے حیران ہوئے۔
جب مولاؑ عج نے تین مرتبہ ھالو کہا۔
ایک شخص دوڑتا ہوا پہنچا
کہا مولاؑ حکم کریں۔
فرمایا سید کا ایک کام کر دو۔
اس کے بعد انہوں نے سید سے خداحافظی کی اور مولاؑ عج چلے گئے۔

اب جب سید نے ھالو کو دیکھا تو کہا کہ تم تو اصفہان کے ہی ہو کہا جی قبلہ میں آپ کے شہر کا ہی ھالو محمد حسین کشیکی ہوں۔

کہا: اے محمد حسینؒ! تیرا کیا مقام ہے کہ تجھے مولاؑ عج نے پکارا ہے
اللہ اکبر!

اے محمد حسینؒ تیرا کیا مقام ہے! مجھے بہت تعجب ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اس مقام تک پہنچ چکے ہو کہ فقہاء کی مشکلات کو حل کرو کہ تم یاران امام زمانؑ عج میں سے ہو۔
مولاؑ عج نے تمھیں تین مرتبہ پکارا ہے۔
کہا کہ جب مولاؑ عج نے مجھے پہلے پکارا میں اصفہان کے بازار میں تھا۔
جب دو بار پھر پکارا تو میں راستے میں تھا۔

اس سے سید متوجہ ہوئے کہ یہ ھالو محمد حسینؒ طی الارض بھی تھے کیونکہ ابدال نے لوگوں کے کام کرنے ہوتے ہیں اس لیے وہ طی الارض بھی ہوتے ہیں۔

کہا سید آپ گھر جائیں میں آپ کے گھر آرہا ہوں۔
کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر پہنچا اور کچھ دیر بعد ھالو ان کے گھر پہنچا اور مال ان کو دیا۔ اور پھر کہا کہ میری آپ سے ایک خواہش ہے کہ یہ ذکر کسی سے نہ کرنا۔

مختصر یہ کہ بہت سے باتوں کے بعد اس نے کہا کہ اگر آپ یہ مجھ سے وعدہ کریں کہ یہ راز کسی پر افشاں نہ کریں تو آپ حج پر جارہے ہیں اور میں مقام عرفہ پہ آپ کو وہاں لے جاؤں گا کہ جہاں مولاؑ عج کا خیمہ نصب ہوتا ہے۔ میں آپ کی خدمت ضرور کروں گا۔

سید کہتے ہیں کہ جب ہم عرفہ پہنچے تو میں صبح سے انتظار میں تھا اور بالآخر میں نے ھالو کو ہجوم سے اپنی جانب میں سے آتے دیکھا وہ مجھے ملا اور کہا کہ آئیں میں آپ کو اس جگہ پر لے جاؤں کہ جس جگہ مولاؑ عج کا خیمہ نصب ہے۔

سید کہتے ہیں کہ جب ہم اس مقام پر پہنچے کہ جہاں مولاؑ عج کا خیمہ نصب تھا تو اس نے کہا کہ یہ مولاؑ کا خیمہ ہے میں نے پوچھا کہ اندر کیوں نہیں گئے کہا کہ اندر مجھے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں صرف یہی تک آپ کو لا سکتا تھا یہ کہہ کر ھالو نے خداحافظی کی۔

سید کہتے ہیں کہ چونکہ اندر جانے کی اجازت نہ تھی تو میں پھر اسی خیمہ کہ پاس بیٹھ کر اپنے اعمال کو انجام دیتا رہا۔
سبحان اللہ!

آغا سیدؒ کہتے ہیں کہ جب ہم حج کر کے اصفہان پہنچے تو شاندار استقبال تھا اور ایک بہت بڑا حج ولیمہ گورنمنٹ کی جانب سے رکھا گیا تھا۔ ہر طبقے کے لوگ آرہے تھے تو کہتے ہیں کہ اسی دوران میں نے ھالو کو آتے دیکھا تو میں نے اٹھ کر محمد حسین کا استقبال کیا اور اس نے آہستہ سے کان میں کہا کہ آغا میرا راز افشاں نہ کرنا آپ اسی طرح مجھ سے ملیں جیسے اور لوگوں سے مل رہے ہیں۔

آقا سیدؒ کہتے ہیں کہ:
اس کے بعد ہماری دوستی ہوگئی کیونکہ میں اس کے مقام کو جانتا تھا۔ کہتے ہیں ایک دن محمد حسینؒ آئے اور کہا کہ آقا اب صرف چار گھنٹے کے بعد میں مرنے والا ہوں۔ اور میری خواہش ہے کہ میرے امور میرا غسل و کفن آپ خود انجام دیں۔

کہا: کہ ایسی باتیں نہ کرو
کہا کہ یہ طے شدہ بات ہے۔ یعنی یہاں سے ہم جانتے ہیں کہ جو یہ مخصوص لوگ ہوتے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ یہ اپنے امور کو ترتیب دے دیتے ہیں وگرنہ اگر انسان ناگہانی موت مر جائے تو اپنے امور کو ترتیب نہیں دے سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نائب آخر علی بن محمد سمریؒ کو جو آخری توقیع امام زمانؑ عج موصول ہوئی تھی اس میں خبر تھی کہ اے محمد سمریؒ تم چھ دن بعد انتقال کر جاؤ گے لہذا اپنے امور کو انجام دو۔

سیدؒ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں ضرور آپ کے امور انجام دوں گا صرف مجھے ایک بات بتا دو۔ کہ ھالو تم کس طرح اس مقام تک پہنچے۔ جبکہ ہم اہل علم سارا دن عبادات اور علم میں گذارتے ہیں۔

اس ھالو نے فقط ایک جملہ کہا:
سید، دنیا یہی ہے۔
یعنی، ایک آدمی اس دنیا میں آتا ہے اور صرف اور صرف گناہ کرتا ہے اور ایک آدمی آتا ہے اور اتنی نیکیاں کماتا ہے کہ مولاؑ اسے ابدال میں منتخب کرتے ہیں۔

یعنی !
یہی دنیا ہے اور اس میں دونوں راہیں کھلیں ہیں یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم نے کس راہ میں قدم رکھنا ہے۔ اگر ابدال اور مولاؑ کے ناصرین بننا ہے تو صفات بیان ہوئیں ہیں۔ دنیا کی مذمت ہمارے رویے کی وجہ سے ہے۔ دنیا منبع خیرات بھی ہے۔ دنیا سے ہی بہشت میں جانا ہے۔ ہماری مرضی ہے کہ گناہ کرتے کرتے اہل جہنم بنیں یا پھر خود کو سنواریں اور اپنی ایک راہ معین کریں اور اس طرح ترقی اور کمال پائیں کہ ابدال بنیں:
ابدال بدل کی جمع ہے۔

ابدال کی تعریف:
علامہ طریحی مجمع البحرین فرماتے ہیں کہ یہ وہ خدا کے صالحین ہیں کہ اللہ پسند نہیں کرتا کہ زمین ان سے خالی رہے اور اگر ان میں سے ایک شخص مر جائے تو اس کی جگہ دوسرا شخص لے لیتا ہے

پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم مولاؑ عج کے خدمتگاروں میں سے قرار پائیں۔
الہیٰ آمین!
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *