تازہ ترین پوسٹس

درس معرفت و اخلاق_ آخرالزمان کے فتنوں سے کیسے نجات پائیں، شیخ بہائیؒ کے عرفانی اشعار

درس معرفت و اخلاق
آخرالزمان کے فتنوں سے کیسے نجات پائیں: شیخ بہائیؒ کے عرفانی اشعار

مدرسہ الامام المنتظر (عج) قم میں دعائے ندبہ کے بعد خطاب

استاد محترم قبلہ آغا علی اصغر سیفی صاحب


امام سجادؑ علیہ السلام سے بہت ہی معروف روایت ہے کہ انہوں نے جناب ابو خالد کابلی سے فرمایا:

آخرالزمان میں تاریک راتوں کی مانند فتنوں پہ فتنے آئیں گے اور یہ فتنے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لیں گے۔
جیسا کہ ہم آخرالزمان میں آج ہیں۔ لیکن! ان فتنوں سے کون نجات پائے گا؟؟

اس میں معصومؑ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
جو اپنے زمانے کے اماؑم عج سے متوسل ہوگا اورجو ان کی معرفت رکھے گا۔ اس وقت ہمارا سب سے اہم ترین فریضہ جو ہے وہ معرفت امام زمانؑ عج حاصل کرنا ہے۔

مشہور حدیث ہےکہ:پیغمبرؐ اسلامﷺ نے فرمایا:
مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِہِ فَقَدْ مَاتَ مِييتَۃً جَاہِلِيَّۃ
جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے، تو یقینا وہ جاہلیت کی موت کے ساتھ دنیا سے چلا جائے گا۔

یہاں معرفتِ پروردگار کا ذکر نہیں ہوا، معرفت رسولؐﷺ کا ذکر نہیں ہوا اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی معرفت کی اہمیت نہیں ہے۔ نہیں، بہت اہمیت ہے۔ معرفتِ امامؑ کا اس لیے ذکر ہوا ہے کہ معرفتِ اماؑم ہی معرفت خدا تک پہنچنے کا باب ہے۔ معرفتِ امام رسولؐ اللہ ﷺ کی سنت کو جاننے کا باب ہے۔ ِاس وقت دین کی پہچان خود امامؑ عج ہیں۔ امام سے پتہ چلے گا کہ دین کیا ہے۔ اس وقت بھی اپ دیکھیں جو مختلف فرقے اور مکاتب ہیں ، وہ سب اماموں کی وجہ سے تبدیل ہوئے ہیں ورنہ ! سب کا خدا ایک ہے، سب کا رسولؐﷺ ایک ہے، سب اہل قبلہ ہیں۔ لیکن! اماموں کے فرق سے توحید بھی بدل گئی حتٰی رسولؐ اللہ ﷺ کی طرف نگاہ بدل گئی۔ حتٰی نماز یہاں تک کہ ہر چیز بدل گئی۔کیوں؟
کیونکہ ! امامؑ وہ ہے جو دین کی تفہیم دینے والا اور دین کی تشریح کرنے والا۔ ابھی بھی کتنے فرقے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا ایک ہی نبیؐﷺ اور ایک ہی کتاب ہے۔ تو پھر فرق کیوں ہے؟

فرق اماموں نے ڈالا ہے۔ اس لیے اماؑم کی معرفت واجب ہے کہ جب تک صحیح امام تک نہیں پہنچیں گے صحیح خدا تک نہیں پہنچیں گے. صحیح دین تک نہیں پہنچیں گے.

 

خدا تبدیل ہو جاتا ہے

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اردگرد جو دیگر مکاتب ہیں وہ کس قسم کا خدا مانتے ہیں۔۔ جو نظر آتا ہے، جو جسم رکھتا ہے۔ شیعہ کہتے ہیں خدا جو ہے وہ جسم و جسمانیت سے پاک ہے۔ تو کس وجہ سے یہ فرق پڑا ہے؟؟

یہ فرق امام کی وجہ سے ہے کہ جس نے دین کی تشریح کی جس نے قرانی آیات کی تفسیر کی جس نے رسولؐ اللہﷺ کی سنت بیان کی۔ جس نے رسولؐ اللہﷺ کے فرامین بیان کیے۔ تو امام اس عنوان سے مہم ہے۔ یعنی! ظاہری طور پر اگر ہم نے دین لینا ہے پھر بھی امام سے توسل ضروری ہے اور اگر ہم نے باطنی طور پر ہدایت لینی ہے پھر بھی امامؑ سے حاصل کرنی ضروری ہے کیونکہ! اس وقت ھادی وہ ہیں۔ اس وقت جانشین رسولؐﷺ وہ ہیں، اس وقت حجت خدا وہ ہیں۔

چونکہ جناب ابو خالد کابلی کا ذکر آیا تو ایک اور روایت جو امام سجادؑ علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں :

اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ ﷺ وَ آلِ مُحمّد ﷺ فرماتے ہیں کہ:
إن أهل زمان غيبته القائلين بإمامته والمنتظرين لظهوره أفضل من أهل كل زمان،

وہ لوگ جو مہدؑی عج کی امت میں اُن کی غیبت کے زمانے میں جو ان کی امامت کا اقرار کرتے ہوں گے اور اُن کے ظہور کے منتظر ہوں گے۔ فرماتے ہیں: وہ تمام زمانے والوں سے افضل ہیں۔ یعنی! آخری زمانے کے لوگ پچھلے لوگوں سے بھی افضل ہیں۔

ہمارے ہاں ایک تصور یہ ہے کہ کاش ہم امام صادقؑ علیہ السلام کے زمانے میں ہوتے یا کاش مولا علیؑ علیہ السلام کے زمانے میں ہوتے۔ اے کاش ہم سید الشہداؑء کے زمانے میں ہوتے۔ مولا امام سید سجادؑ فرما رہے ہیں کہ:
نہیں، جو مہدیؑ عج کے زمانے کے لوگ ہیں، حتٰی جو ان کی غیبت کے زمانے کے لوگ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان کی شرط یہ ہے کہ:
۔ امام مہدیؑ عج کی امامت پر عقیدہ رکھتے ہوں۔
۔ امامؑ عج کے ظہور کا انتظار کرتے ہوں۔

یعنی! انتظار جو اپنی شرائط کے ساتھ اور اپنی صفات کے ساتھ ہو۔ فرماتے ہیں:
أفضل من أهل كل زمان
یہ لوگ تمام زمانوں سے افضل ہیں۔ اور ہم نے اور روایتوں میں بھی پڑھا ہے کہ زمانہ غیبت کے لوگ خیر البریہ ہیں یعنی! یہ تمام زمانوں میں سے افضل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسولؐ اللہﷺ اپنے بھائی سے کہا کرتے تھے۔ : میرے بھائی۔ اصحاب پوچھا کرتے تھے یا رسولؐ اللہ ﷺ آپؐ کن کو اپنا بھائی کہہ رہے ہیں آیا ہم اپ کے بھائی نہیں ہیں؟؟ فرمایا: آپ میرے صحابی ہیں ۔ میرے بھائی وہ ہیں کہ جنہوں نے مجھے نہیں دیکھا ہوگا لیکن! مجھ پہ ایمان رکھتے ہوں گے۔

غیبت کے زمانے کے لوگوں کی ایک فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کسی حجت کو نہیں دیکھا لیکن! ایمان میں باقی ادوار کے مومنین جن کے زمانے میں حجت ظاہر تھی ان سے کم نہیں ہیں۔ بلکہ انہی کی طرح قربانیاں دے رہے ہیں. انہی کی طرح دین کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اس کے بعد معصومؑ فرماتے ہیں کہ:

لان الله تبارك وتعالى أعطاهم من العقول والأفهام والمعرفة ما صارت به الغيبة عندهم بمنزلة المشاهدة۔

پروردگار ان آخرالزمان کے لوگوں کو ایسی عقل ، ایسی فہم اور ایسی معرفت عطا کرے گا۔ (البتہ! یہ خود بھی قدم اٹھائیں گے تو خدا عطا کرے گا) کہ غیبت ان کے لیے مشاہدے کی مانند ہو جائے گی۔ سبحان اللہ!

امام محمد باقرؑ علیہ السلام کا بھی فرمان ہے کہ :
اہل معرفت ایسے ہیں جیسے وہ اپنے امامؑ عج کے خیمہ میں ان کے ساتھ ہیں۔

یعنی! معرفت ایسی ہونی چاہیے کہ انسان جس کی معرفت رکھتا ہے اسے محسوس کرے۔ معرفت عِلم نہیں ہے، چند باتوں کا جاننا نہیں ہے، جیسے ہم مختلف قسم کی کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ اس سے ہمارے عِلم میں اور معلومات میں تو اضافہ ہو رہا ہے، لیکن! لازمی نہیں ہے کہ ہماری معرفت میں بھی اضافہ ہو۔ معرفت انسان کے عقیدے، قلب اور عمل کو تبدیل کرتی ہے۔ اہل معرفت اپنے عمل سے پہچانے جاتے ہیں۔ عالم بے عمل ہو سکتا ہے ایک آدمی علامہ ہو جائے بہت سارے اس کے اندر علم ہوں لیکن! لازمی نہیں ہے کہ اپنے علم پر عمل کرے۔ اس لیے عالم کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں، ایک عالم بے عمل اور ایک عالم با عمل۔
لیکن! اہل معرفت کی دو قسمیں بیان نہیں ہوئی ہیں۔

وہ ہمیشہ باعمل ہوتے ہیں چونکہ معرفت صرف علم نہیں ہے، معرفت صرف الفاظ کا ذخیرہ اپنے ذہنوں میں اکٹھا کرنا نہیں ہے، معرفت جو دل پہ اثر کرے جو انسان کے اندر کی دنیا کو تبدیل کرے۔ اس کا گفتار، کردار انداز، اور اس کی نگاہ بدل جائے ۔

معرفت، یعنی! کردار سازی ہے معرفت یعنی! انسان کا کمال اور رشد ہے۔ اس لیے ہمیشہ آئمہؑ علیہ السلام نے ہم سے معرفت مانگی ہے۔ یہ نہیں کہا کہ جو زمانے کے امامؑ کے بارے میں علم حاصل کرے بلکہ! یہ کہا کہ جو زمانے کے امامؑ کے بارے میں معرفت رکھتا ہو۔ اس لیے کہتے ہیں کہ معرفت یعنی! منزل یقین تک پہنچنا۔
ہم لوگ یہ جو مختلف کتابیں وغیرہ پڑھتے ہیں یہ اسی لیے ہے کہ ہم اس منزل پر پہنچیں ان کتابوں کا فلسفہ جو ہے وہ یہی ہے ورنہ اگر یہ ہمیں اس منزل تک نہیں پہنچاتیں تو یہ صرف حجاب ہے۔ چونکہ طالب علموں کا ماحول ہے اور آپ سب اہل علم ہیں تو بہت بڑی ہستی عالم تشیع کی شیخ بہائیؒ رحمۃ اللہ علیہ ان کی غزل ہے اسی موضوع پر ہمیں اسی حقیقت کی طرف لا رہے ہیں کہ ہمیں کس منزل پر آنا چاہیے تھا اور ہم کس چیز پہ اکتفا کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ:
ایھا القوم الذین فی المدرسہ
کل ما حصلتموہ وسوسہ
اے مدرسوں میں پڑھنے والے طلاب، اے علوم دینیہ کے طلاب، اے علوم حاصل کرنے والے طلاب، تم جو کچھ بھی حاصل کر رہے ہو یہ سارا وسوسہ ہے، یہ سارا اپ کو تحرک اور انگیزہ دینے کے لیے ہے، یہ سوچنے کے لیے ہے اور یہ کوئی علم نہیں ہے۔

جیسے مولانا رومیؒ اور شمس تبریزیؒ کا واقعہ ہے، شمس تبریزیؒ پاکستان والے نہیں بلکہ ایران کے ہیں اور جو مولانا رومیؒ کے استاد تھے اورعلامہ اقبالؒ کے بھی روحانی استاد ہیں۔ کہتے ہیں کہ: مولانا رومیؒ کتابوں کا ڈھیر لگا نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے مدرسےمیں پڑھا رہے تھے جناب شمس تبریزؒ وہاں سے گزرے تو انہوں نے کہا یہ کیا پڑھا رہے ہو علم پڑھا رہے ہو۔ انہوں نے ٹھوکر ماری اور ساری کتابیں پانی میں گر گئیں۔ اس زمانے میں کتابیں ہاتھ سے قلم و دوات سے لکھی جاتی تھیں اور ظاہر ہے کہ پانی لگنے سے ہی کتاب ختم۔
انہوں نے کہا آپ نے میرا سارا عِلم بہا دیا تو شمس تبریؒز نے کہا کہ:
عِلم انسان کے اندر ہوتا ہے آپ نے جو اتنا چالیس، پچاس سال پڑھا ہے اور پڑھا رہے ہیں تو ابھی تک اپ کے اندر علم نہیں آیا اور ابھی تک آپ محتاج ہیں کہ چند کتابیں ہوں تو آپ پڑھائیں گے ؟۔ مولانا رومی: میرے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا، تو شمس تبریز نے دوبارہ کتابیں نہر سے نکال نکال کر دینی شروع کیں تو دیکھا کہ کتابیں گیلی نہیں ہوئی۔ حیران ہوئے کہا: یہ کیا ؟؟ شمس تبریزؒ نے کہا یہ علم ہے اور یہ ہے انسان۔ علم نور ہے اور انسان کے اندر جب علم حقیقی معنوں میں آتا ہے تو صاحب کرامات ہو جاتا ہے۔ اور یہی بات شیخ بہائیؒ فرماتے ہیں۔ سبحان اللہ۔

علم کیا ہے
ہم خود بھی علم کی یہی تعریف کرتے ہیں کہ علم نور ہے اور وہ نور کہ جس سے اللہ جہاں چاہتا ہے وہاں اس نور کو دیتا ہے۔

أَلْعِلْمُ نُورٌ یقْذِفُهُ الله‌ُ فِی قَلْبِ مَنْ یشآءُ؛
شیخ بہائی ؒ فرماتے ہیں کہ اے مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علموں، تم جو کچھ بھی حاصل کر رہے ہو وہ سب وسوسہ ہے۔

اگلا جملہ فرماتے ہیں کہ:

(فکرکم ان کان فی غیر الحبیب ﷺ)
(ما لکم فی النشأۃ الاخری نصیب)
اگر تمہاری فکروں میں حبیب ﷺ کے علاؤہ کوئی ہے، تو تمہارے لیے حیاتِ اُخری(آخرت) میں کوئی حصہ نہیں۔

فرماتے ہیں کہ: تم سب کی فکر جو ہے وہ اپنے محبوب کے لیے نہیں ہوتی۔ محبوب یعنی ! رب، محبوب یعنی! زمانے کے امامؑ ،یعنی حجتؑ خدا، محبوب یعنی! رسولؐ اللہ ﷺ یعنی ! یہ ہستیاں ہیں جو حقیقی محبت کے لائق ہیں۔ اور ان سب سے بڑھ کر تو خود خدائے محبت خود پروردگارہے۔ فرماتے ہیں کہ: اے طُلاب عِلم!، اگر آپ سب کا پورے دن کا ہم و غم، فکر ہمارے رب سے ہٹ کر کہ جو ہمارا محبوبِ واقعی ہے کوئی اور چیز، ہدف ہو تو فرماتے ہیں کہ:اُس جہاں میں پھر ہمارا حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہم اپنی آخرت کو گویا برباد کر رہے ہیں۔

اہداف علم:
اگر ہمارا ہدف شہرت, پیسہ، جاہ، مقام کی خواہش ہے اگر یہ اہداف ہیں اپنے محبوب حقیقی کو چھوڑ کر تو پھر اُس جہاں میں، جہاں دوبارہ اللہ نے ہمیں زندگی دینی ہے اور زندگی حقیقی وہاں پھر ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے۔

قصہ:
ایک عالم دین کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے وفات پائی تو اپنے کسی شاگرد کو خواب میں آکر بیان کیا:

کہتے ہیں جب منکر نکیر آئے اور انہوں نے کہا کہ خدا کے لیے کیا لے کر آئے ہو تو انہوں نے گننا شروع کر دیا کہ میں نے اتنی کتابیں لکھیں۔ تو جواب ملا اُس پر تو تم نے اپنا نام لکھا تھا اپنی شہرت کے لیے لکھیں۔ کہا میں نے اتنے درس پڑھائے اتنے شاگرد اتنے مراکز، اتنے مدرسے بنائے جیسے ایک عالم دین ظاہر ہے کہ مختلف کام کرتے ہیں۔ کہا: کہ ان سب میں تم نے اپنا بورڈ لگایا ہوا تھا سارا تم نے اپنی شہرت کے لیے کیا۔ آخر خدا دلوں کے حال جانتا ہے اور پروردگار ہماری نیتوں کو ہمارے اِرادوں کو جانتا ہے۔

پوچھا: اللہ کے لیے کیا لے کے آئے ہو ؟ اور تم نے کون سا کام خدائی کیا ہے ؟؟ اپنے محبوب کے لیے وہ ذات جس نے ساری نعمتیں تجھے دی تھی انواع و اقسام کے رزق دیے تھے جو تجھ سے اتنی محبت کرتا تھا ۔اس کے لیے تو نے کیا کیا ؟ یہ تو سارے کام تو نے اپنے لیے کی۔ پھر وہ کہنے لگا: میں نے نمازیں پڑھیں میں نے عزاداری کی جواب ملا یہ تو عام عوام الناس کا کام ہے۔ تو عالم تھا تجھ پہ خدا کا اتنا خرچ ہوا ہے ۔عام لوگوں سے ہٹ کر تو نے مال امام کی شکل میں بہت کچھ لیا ہے۔
اس سے توقع زیادہ نہ رکھ کہ عام لوگوں کی طرح تو آ کے اپنی نمازیں اور عزاداری پیش کر دے، وہ تو ہر ادمی کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اپنے رب کے لیے کر تو کیا لے کے ائے۔

اس کے بعد جناب بہائیؒ کہتے ہیں:اے علماء، اے دینی طلاب، اپنے دلوں کی تختی پر جہاں اس طرح کے ہر علم ہیں ان کو دھوئیں۔ اور جو روز قیامت آپ کو نجات دینے والا نہیں ہے علم نور کا باعث بنے نہ کہ حجاب کا۔

جیسے دیکھا گیا ہے کہ جتنا جتنا آدمی اگے بڑھ رہا ہے اتنا ہی خدا سے دور ہو رہا ہے اتنا ہی عبادت سے دور ہو رہا ہے، روحانیت سے دور ہو رہا ہے۔ یہ تو غلط ہو گیا ہے۔ جبکہ علم کا فرض یہ ہے کہ وہ حجاب دور کرے اور بیشتر نزدیک کرے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مدرسہ کے جو علوم ہیں حتی یہ ہماری عبادات حتی مسجدوں کی عبادات، انسان کو بجائے خدا کے قریب کرنے کے خدا سے دور کردیتی ہیں۔ تکبر میں مبتلا کر دیتی ہیں اس لیے وہ امام خمینی رحمۃ اللہ کا جو مشہور جملہ ہے :

(که من از مسجد و مدرسه، بیزار شدم)
کیوں، کیونکہ ! یہ سب لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کا بہانہ بن گئے ہیں۔ لوگوں کی اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا نہ کہ خدائی کام کرنے کے۔ فرماتے ہیں کہ :
فاغسلوا یا قوم عن لوح الفؤاد
کل علم لیس ینجی فی المعاد

اپنے دلوں کو دھوئیں صرف علم حاصل کرنے سے ہمیں نجات روحانیت نہیں ملے گی۔

اگر یہ علم اگر یہ کتابیں ہمارے اندر روحانیت معنویت نہیں لاتیں اور ہمارے اخلاق کو تبدیل نہیں کر رہیں ہمارے اندر انقلاب نہیں لا رہیں تو ان روحانی رکاوٹوں کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کہاں مشکل ہے اس کو دور کریں ۔ وگرنہ اس کو پڑھتے پڑھتے رتبہ بڑھتا جائے گا ڈاکٹر اور جانے کیا کیا بن جائے گا، لیکن! صرف حجابات میں ہم نے اضافہ کیا ہے۔ پہلے تو شیخ بہائیؒ عربی میں اشعار پڑھ رہے تھے اور اب انہوں نے دو شعر فارسی میں کہے: فرماتے ہیں کہ:

(ساقیا! یک جرعہ از روی کرم)
(بر بھایی ریز، از جام قدم)

کہتے ہیں کہ: اے ساقی وہ جو تیرے پاس عظمت والا جام ہے اس میں سے ایک گھونٹ، مہربانی کر محبت کر، میرے اوپر پھینک دے میں پینے کے قابل نہیں ہوں۔ لیکن! میرے اوپر ڈال یعنی! یہاں اپنے وقت کے امامؑ عج سے خطاب ہے کہ مولؑا عج اپنے کرم سے، یہ جو خدا کی عبادات کی لذت مجھے ائے میرے اخلاق کامل ہوں اور میں اندر سے زندہ ہوں اور میرے اندر اپنے رب کا عشق پیدا ہو محبت پیدا ہو اس جام کا ایک گھونٹ، شاید میں پینے کے قابل نہیں لیکن! میرے مولاؑ عج تو مجھ پہ ڈال دے کہ شاید میں تبدیل ہو جاوں۔

فرماتے ہیں کہ:

(تا کند شق، پرده‌ی پندار را)
(ھم بہ چشم یار بیند یار را)

تاکہ میں جو ان حجابات میں پڑا رہتا ہوں وہ کھلیں۔ اور مجھے اپنا محبوب، اپنا رب نظر آئے اور اپنے رب کی محبت نظر آئے۔ تاکہ ایک یار اپنے یار کو دیکھے۔
یہ ساری چیزیں اسی عنوان سے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس علمی زندگی کے ساتھ ساتھ جو ہم حاصل کر رہے ہیں کے ساتھ ساتھ ایک روحانی اور معنوی زندگی کا لطف اور لذت بھی ہمیں حاصل ہو۔ کیونکہ جب ہمارے اندر نور نہیں ہوگا تو یہ سب کچھ خسارے میں چلا جائے گا۔

ان سب چیزوں سے بچنے کے لیے یہ روحانی پروگرام بہت ضروری ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دعاؤں کے پروگراموں میں شرکت کریں دعاؤں کا پروگرام رکھیں چونکہ ایک چیز جو ان حجابات کو توڑتی ہیں وہ یہ دعائیں ہیں۔ اسی طرح تلاوت قران ہے اسی طرح حرم میں جانا ہے۔ ایک طالب علم جو حرم میں جاتا ہے وہ مادی خواہشات کے لیے نہیں جانا چاہیے وہاں جا کے یہ مانگنا چاہیے۔ جب ہم بی بی معصومہؑ سے توسل کریں تو وہ اسی عنوان سے ہو کہ میرے اوپر جو حجابات ہیں وہ ختم ہوں ۔میرے اندر جو قساوت ہے وہ ختم ہو مجھ سے جو گناہ ختم نہیں ہو رہا ہے میں اپ کے دامن سے متوسل ہوتا ہوں مجھے توفیق دے میں گناہوں کے شر سے نجات پاؤں چونکہ دن گزرتے جا رہے ہیں گناہ گاڑھے ہوتے جا رہے ہیں بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ایک ایسا مقام آتا ہے کہ بیماری قابل علاج نہیں رہتی۔ کیوں کہا جاتا ہے کہ بوڑھوں کی تربیت نہیں ہو سکتی اور جو کچھ کرنا ہے جوانی میں ہی کر لو۔ اگر جسمانی بیماری بڑھتی جائے اور اس کا علاج نہ ہو تو وہ انسان کو مار دیتی ہے کیونکہ پھر وہ قابل علاج نہیں ہوتی۔ اسی طرح اندر کی بیماریاں بھی انسان کے ایمان کو ختم کردیتی ہیں۔ اور اس کی روحانیت کو بالکل صفر کر دیتی ہیں۔ اور پھر وہ قابل ہدایت نہیں رہتا۔

سورہ البقرۃ آیت 18:
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (18)
بہرے گونگے اندھے ہیں سو وہ نہیں لوٹیں گے۔

ہم لوگوں چاہیے کہ جب ہم حرم جائیں تو ہم اس لیے جائیں کہ ہمیں روحانی زندگی جو ہے وہ ملے اور اب باطن جو ہے وہ نورانی ہو اور جو برے اخلاق ہیں جو ہم چاہتے ہیں ختم ہو جائیں، وہ ختم ہوں آمین!۔ یہاں ہمیں چاہیے کہ ہم وقت امامؑ وقت عج سے اس عنوان سے توسل کریں۔آمین!

پروردگار کی بارگاہ میں دعا ہے کہ پروردگار ہم سب کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت_قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *