کتاب شریف : لقاءاللہ
آیت اللہ مرحوم میرزا جواد ملکی تبریزیؒ
درس لقاءاللہ : 26
توبہ کیسے کرنی چاہیے؟
قوم یونس کی توبہ
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
﷽۔۔
موضوع سخن کتاب شریف لقاءاللہ ہے۔ اور ہماری گفتگو توبہ کے موضوع پر پہنچی تھی کہ ایک انسان جب توبہ کرے تو کیسے کرے؟
کتاب کے مصنف آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے توبہ کرنی ہے وہ اسے چاہیے کہ جب سے وہ بالغ ہوا تب سے ہونے والے اپنے تمام گناہ کاپی پر لکھے۔ یعنی اُس زمانے سے لیکر اب تک اپنے تمام تر گناہ لکھے اور بلخصوص وہ تمام گناہ جو مالی ہیں۔
روایت :
ایک شخص جو شہید ہوتا ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک شہید کا کتنا مقام اور مرتبہ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ شہید کے سارے گناہوں کو معاف کر دے گا لیکن! اگر اس کے سر پر کسی کا حق ہے اور بلخصوص حق مالی۔ اگر وہ دنیا سے مقروض گیا ہے تو جب تک وہ شخص کہ جس نے اسے قرض دیا تھا وہ اسے معاف نہیں کرتا۔ تب تک خدا بھی اسے معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ مالی مسائل بڑے اہم ہیں۔
عرض کیا تھا کہ ایک زبان کا مسئلہ اور دوسرا مال کا مسئلہ بڑے سخت ہیں۔
کہتے ہیں کہ جہنم میں جو لوگ گرفتار ہونگے وہ دو چیزوں کی وجہ سے ہونگے۔ زبان اور مال اور لوگ ان دونوں معاملات میں غافل ہیں۔
جناب ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ جب سے آپ بالغ ہوئے آپ اپنے گناہ لکھیں ۔ کہ میں نے کس کس کا مال لیا اور واپس نہیں کیا پھر وہ چاہے چوری سے لیا، چھین کر یا مذاق میں اور مجھے معلوم ہے کہ اس نے مجھے معاف نہیں کیا۔ اور کس کس کا اپنی زبان سے دل دکھایا۔ چاہے مذاق کیا ، چاہے توہین کی یعنی ہمارے مذاق سے اللہ نہ کرے کہ دوسرا بےعزت ہوا ہو۔ تو یہ ساری چیزیں لکھے۔ کیونکہ ایسا نہ ہو کہ کل فرشتہ ہمارے تمام اعمال لکھے ہوئے ہمارے ہاتھ میں تھما دے۔ اور کہے کہ جہنم میں چلو۔ تو چاہیے کہ وہ تمام گناہ لکھے جائیں اور پھر ان کی بخشش کا اہتمام کرے کیونکہ اصلِ توبہ سے پہلے یہ کام ضروری ہے۔
عرض کیا تھا اور خود آیت اللہ جواد ملکی تبریزیؒ فرما رہے ہیں کہ اپنے ہر عذر کے گناہ خود لکھے۔ یعنی جتنا یاد آتا ہے میں اس کو لکھوں یعنی آنکھ ، زبان ، کان سے کئے گئے گناہ لکھے۔ بالآخر آنکھ خیانت کرتی ہے یعنی ہر چیز کو لکھے ہاتھ سے جس کو ضرب لگائی لکھے ، پاؤں سے چل کر جہاں نہیں جانا تھا اور گئے ان کولکھے اور پھر ان کی توبہ کا اہتمام کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے۔
سورہ المومن 19
يَعْلَمُ خَآئِنَةَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِى الصُّدُوْرُ (19)
وہ آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھید جانتا ہے۔
یہاں ایک نکتہ جناب ملکی تبریزیؒ بیان فرماتے ہیں جسے استاد محترم علامہ علی اصغر سیفی صاحب اپنے انداز میں بیان فرما رہے ہیں۔
جن چیزوں کا تعلق میرے اور خدا کے درمیان ہے وہ تو اللہ معاف فرما دے گا اور اس میں بھی معصومؑ فرماتے ہیں کہ قضا کو ادا کرے۔ لیکن! وہ جو دوسروں کو اذیت دینے والے مسئلے تھے۔ وہ معاف نہیں ہونگے۔
مثال کے طور پر نامحرم کی طرف نگاہ کرنا یہ میرا اور اللہ کا مسئلہ ہے اللہ اسے توبہ سے معاف کرے گا۔ اور اس توبہ کا طریقہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے اور آگے بھی بیان کیا جائے گا۔ لیکن! وہ گناہ جس سے دوسروں کو اذیت پہنچی ہے جیسے مالی نقصان۔ اور حقوق الناس کے بارے میں حقیقیت بھی یہی ہے۔ جب تک وہ شخص معاف نہیں کرے گا اور اس کا دل راضی نہیں ہوگا تب تک اللہ معاف نہیں کرے گا۔
ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کے اندر اور شائد ہر جگہ پر ہو۔ کہ اہل حدیث کے اندر ایک خاص سیرت ہے البتہ ہم اس کی تائید نہیں کرتے ان کے اندر ہے کہ جب کوئی بیمار ہو اور قریب الموت ہو تو سارے عزیزواقارب آتے ہیں تاکہ وہ ہمیں بخش دے۔ اور ہم اسے بخش دیں۔ البتہ ہم اس کی تائید نہیں کرتے کیونکہ اس کے برے اثرات بھی ہیں ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ شخص صحت یاب ہوجائے۔ لیکن! رشتہ داروں اور دوستوں کے آنے سے وہ ڈس ھارٹ ہو اور مر جاتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ شائد اس کا آخری وقت آن پہنچا اور جو اس نے نہیں بھی مرنا ہوتا وہ مرجاتا ہے۔
ہم اس لیے اس کی تائید نہیں کرتے کیونکہ یہ وہ چیز ہے کہ جو کسی کی موت کے قریب نہیں بلکہ زندگی میں کرنی چاہیے۔
لیکن! پھر بھی اس اعتبار سے اچھا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو بخشنے کے لیے کوئی نہ کوئی وقت تو رکھا ہے لیکن ہمارے ہاں تو ایسا بلکل نہیں ہے۔
لہذا ہوسکتا یہاں سوال آئے جس کا جواب گذشتہ دروس میں دیا جا چکا ہے کہ ہم نے جس سے ہم نے زیادتی کی وہ تو اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ ہاں! اس کے ورثاء موجود ہیں تو ان کے ساتھ جا کر اپنا معاملہ ٹھیک کریں اور اس کے ورثہ کو پیسے ادا کریں۔ اور توہین کے حوالے سے ورثا کو نہیں بتائیں گے بلکہ اس مرحوم کے لیے صدقہ اور خیرات کریں اور مال خرچ کریں تاکہ اس کی روح وہاں خوشحال ہو اور اللہ سے کہے کہ یہ میرا عمل اس کے اس عمل کے جبران میں قرار دے جو میں نے اس کا دل دکھایا تھا۔ لیکن! مال کے بارے میں ورثاء کو اس کا مال ادا کرے۔
لیکن! ایک حقیقی سوال ہے ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہم نے کس کس کا دل دکھایا ہے کس کس کی غیبت کی یہ تو ہمیں یاد ہی نہیں تو اب کیا کریں ؟؟ تو یہاں استغفار اور توبہ ہے اور کچھ اپنا مال ان لوگوں کے لیے خیرات کرنا کہ جن کا علم ہمیں نہیں بلکہ اللہ کو ہے۔ کہ خدایا اس کا جبران قرار دے کہ اگر وہ دنیا میں ہیں تو میں ان کی نیابت میں خرچ کر رہا ہوں اور اگر وہ دنیا میں نہیں ہیں تو میں ان کے ایصال ثواب کے لیے خرچ کر رہا ہوں۔ تاکہ جب روز قیامت جب وہ آئے تو آپ کہیں کہ مجھے یاد نہیں تھا اگر مجھے یاد ہوتا تو میں تمھیں ڈھونڈ کر تم سے معذرت کرتا۔ اور تمھارا دل راضی کرتا۔ لیکن ! میں نے خدا کی راہ میں اس نیت سے مال خرچ کیا تاکہ اگر تم زندہ ہو تو تمھیں ثواب پہنچے اور اس دکھ کا مداوا ہو اور وہ مال آخرت میں تیرے کام آئے اور اگر تو دنیا سے چلا گیا ہے تو تیری روح کی خوشی کے لیے ثواب ہے۔
2۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے کن لوگوں کا دل دکھایا اور غیبت کی۔ لیکن! جب ہم ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں تو دو قسم کے رد عمل ہوتے ہیں۔
1۔ وہ آسانی سے بخش دیتے ہیں
2۔ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں مجھے یاد ہے سب اس لیے میں تو تجھے مرتے دم تک معاف نہیں کروں گا۔ (خصوصاً خواتین جو کبھی بھی نہیں بخشتیں۔ حتی بخشنے میں زوجہ بھی سخت ہیں اور فطرتاً خواتین کنجوس ہیں اور یہ کنجوسی ان کے لیے عیب نہیں ہے لیکن! اب یہاں خاتون کا امتحان ہے کہ وہ بخش دے )
اگر کوئی خاتون دوسری خاتون کے پاس اپنا غرور اور اپنی انا ختم کر کے خود چل کر آگئی ہے تو دوسری خاتون ( ماں ، بیٹی، ساس، نند، پھوپھی ، خالہ، مامی،چاچی، دیورانی وغیرہ) تو انہیں بخش دے۔ اور اگر مدمقابل شخص نہیں بخشتا تو تم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے تو اب یہ ضروری ہے کہ اس کی نیابت میں خیرات کر اور اس کا ایصال ثواب اس کے اعمال نامہ میں بھیج دے اور روزقیامت اگر وہ تمھاری شکایت لگانے والوں میں سے ہو تو آپ کے پاس بھی دفاع موجود ہو کہ آپ نے اس کے مدمقابل ایک ایسا کام کیا ہے کہ جو آپ کی ڈھال بنے گا۔ اور اس کا مداوا ہوگا۔
اصل توبہ:
ہم نے ایک نماز گذشتہ دروس میں بیان کی تھی۔ (نماز توبہ، ماہ ذیقعد کی پہلی اتوار کو ادا کی جاتی ہے)۔
عزیزان
ہم بعض چیزوں کو بہت سادہ لیتے ہیں لیکن! حقیقت میں یہ سادہ نہیں ہوتیں۔ مثلاً گناہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں نافرمانی ہوتی ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہوتا ہے۔
مثلاً ہم انسان اپنے سے چھوٹوں کو بڑی مشکل سے بخشتے ہیں اور اس بات کو بڑی مشکل سے دل سے نکالتے ہیں کہ جب وہ کوئی ناپسندیدہ عمل کرتے ہیں تو پروردگار جس کی اتنی کبریائی ہے اتنی عظمت ہے تو اس کے مدمقابل سرکشی کرنا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
اللہ اکبر!
اسی لیے جناب ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ اےشخص جب تو اللہ کی بارگاہ میں اپنے یہ تمام حقوق ادا کرنے کے بعد تو اللہ کی بارگاہ میں معافی طلب کرنے کے لیے بیٹھا ہے تو پھر تو عام حالت میں نہ بیٹھ بلکہ اس طرح بیٹھ کہ تو توبہ کرنے کے لیے آیا ہے اور تیرے بدن پر شرمندگی کے آثار نمایاں ہونے چاہیے۔
جناب ملکی تبریزیؒ نے یہ چیز ابن طاوؤسؒ کی کتاب اقبال سے ذکر کی ہے۔
فرماتے ہیں:
جب تو بیٹھے تو بارگاہ پروردگار میں اس طرح بیٹھ کر توبہ کر کہ جس طرح روز محشر لوگ ندامت سے اللہ کی بارگاہ میں بیٹھیں گے اور معافی مانگیں گے۔ اب ویسا عمل کر۔
روز محشر گناہگار اس حالت میں اٹھیں گے کہ ان کا دائیاں ہاتھ گردن سے بندھا ہوگا اور بائیاں ہاتھ سینے پر رکھا ہوگا۔ یہ قرآن کی آیات میں ہے۔
عمل توبہ:
فرماتے ہیں:
اپنا دائیاں ہاتھ اپنی گردن پر رکھ اور اگر ہوسکے تو اپنے سر میں خاکستر ڈال عاجزی اختیار کر۔ یعنی ایسی حالت میں نہ بیٹھ کہ جیسے وہ بخشے نہ بخشے ہمیں کوئی فرق نہیں۔ آج کل توبہ اسی طرح ہو رہی ہوتی ہے کہ ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی دل سے توبہ نہیں ہوتی ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ اگر اللہ ہمیں نہ بخشے تو کیا ہوگا۔
استغفراللہ !
فرماتے ہیں کہ اپنے سر میں خاک ڈال، اپنا دائیاں ہاتھ اپنی گردن پہ قرار دے اور بائیاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ۔ پھر اپنے گناہ یاد کر۔ کیونکہ یہ چیزیں بہتر ہیں قبر اور برزخ کے عذاب سے کہ جس میں انسان نے مبتلا ہونا ہے۔
کہتے ہیں کہ روز قیامت جب ہم قبر سے اٹھیں گے۔ اور اہل فساق کہ جنہوں نے توبہ نہیں کی ہوگی تو وہ زنجیروں میں بندھے ہونگے اور ان کی زنجیر ھفتاد ذراع لمبی ہوگی۔
یعنی سر کی طرف سے داخل ہوگی نیچے سے نکلے گی اور پاؤں کی طرف تک وہ بندھا ہوا ہوگا۔ اور اس کے بعد ملائکہ غلاظ و شداد (عذاب کے ملائکہ) تازیانوں کے ساتھ اسے وہاں حاضر کریں گے۔
کہتے ہیں کہ جہنم میں پھینکے جانے سے بہتر ہے کہ دنیا میں توبہ کی جائے۔
بحث شفاعت :
ہمارے ہاں درست بیان نہیں ہوتی۔ اور اہل ممبر پر بہت افسوس ہوتا ہے جب وہ شفاعت کے موضوع پر جنت بانٹ رہے ہوتے ہیں ۔
درست ہے ہم سب شفاعت کے قائل ہیں لیکن! شفاعت حقوق اللہ میں ہے۔ نہ کہ حقوق العباد میں نہیں۔
آئمہؑ معصومینؑ نے فرما دیا ہے کہ” لوگوں کے ساتھ اپنے معاملات خود ٹھیک کر کے آؤ اس میں کوئی شفاعت نہیں ہے”۔
حتی شہید کہ جس کا اتنا مقام ہے کہ وہ کتنے ہی لوگوں کو جنت میں بھیجے گا اللہ اس کے بارے میں بھی فرما رہا ہے کہ اگر اس پر بھی کسی کا حق ہے تو وہ بھی جنت میں نہیں بھیجا جائے گا۔ وہ بھی وہاں کھڑا ہے کیونکہ شہادت فائدہ نہیں رکھتی جب تک اس کی گردن پر لوگوں کے حقوق ہیں۔ اور یہ حقائق ہیں۔
شفاعت ان لوگوں کی ہے کہ جن کی گردن پر حقوق الناس نہیں ہیں اور اس مسئلے میں آئمہ معصومینؑ بری الذمہ ہیں۔
آئمہؑ معصومینؑ کو دوسرا شیعہ بھی اتنا ہی عزیز ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میری شفاعت تو کریں لیکن ! دوسرے شیعہ کی نہ کریں کہ جس کا دل دکھا ہوا ہے۔
اللہ اکبر!
زیارات کرنے کا ثواب اور مستحبات کا ثواب اس وقت ملے گا جب واجبات ادا ہونگے۔
اہلسنتؔ کے اندر آج کل چلا ہوا کہ وہ زیادہ عمرے کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ الحاج لکھواتے ہیں۔ تاکہ پتہ چلے کہ اس شخص نے دس، بیس عمرے کئے ہوئے ہیں۔ اور شیعوں میں زوار ہونے کا مسئلہ چلا ہوا ہے۔ فخر سے پیش کیا جاتا ہے ہم زوار ہیں زیادہ زیارات کئیں ہیں ، ناموں کے ساتھ کربلائی، مشہدی لگا ہوتا ہے۔
یہ مستحب عمل ہیں اللہ انہیں تب قبول کرے گا کہ جب اس نے واجبات ادا کئے ہونگے۔ ایک آدمی جو عمرے پر عمرہ ادا کرے لیکن! حج نہ کرے، ایک آدمی کہ حج واجب تھا ادا نہ کرے اور زیارات کرتا رہے۔ ایک ایسا آدمی جو کسی کا مال کھا کر زیارات پر جائے تو یہ چیزیں ان کے منہ پر ماری جائیں گی۔
ہمارے ہاں جو اہل ممبر جنتیں بانٹتے ہیں ایک زیارت کا اتنا ثواب ہے تو یہ اس صورت میں ہے کہ جب انسان حقوق الناس پورے کرے۔ وگرنہ ان کا کوئی فائدہ نہیں۔
اللہ اکبر!
پروردگار ہمیں حقوق الناس کے سلسلے میں بچائے کہ روز قیامت ان لوگوں میں سے نہ ہوں کہ جن کے ذمہ حقوق الناس ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اس وقت تک جہنم میں پڑے رہیں گے کہ جب تک وہ شخص ان کو معاف نہ کرے کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہمیں یاد رہے کہ ہم نے کس کس کا حق دینا ہے اور اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین!
ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ نے ہمیں راہ بتائی ہے۔ حق الناس ادا کئے جائیں یا پھر اگر وہ شخص موجود نہیں تو اس کے لیے خیرات کی جائے۔
عرض کیا تھا کہ صاحب کتاب جناب عباس قمیؒ کہ جن کے فرزند نے یہ بات ذکر کی کہ یہ جب دنیا سے گئے تو اپنے کسی شاگرد کے خواب میں آئے اور اس سے کہا کہ جب میں دنیا سے گیا تو میرے ذمہ دو حق تھے۔
1۔ قصائی سے اس دن گوشت لیا تھا جس کے پیسے میرے ذمہ تھے۔
2۔ میرے پاس کسی عالم کی کتاب تھی۔
اور میں وہاں پھنس گیا ہوں۔ جب قصائی کو پتہ چلا تو اس نے معاف کر دیا اور خواب میں اپنے فرزند کو کتاب کے متعلق بتایا کہ وہ کتاب فلاں ، فلاں جگہ پڑی ہے اسے فلاں عالم کو پہنچا دو۔ جب وہ عالم دلی طور پر کتاب لینے کے بعد مطمئن ہوا تو جناب عباس قمیؒ کے لیے اس عالم میں آسانی ہوئی۔
استاد محترم علامہ علی اصغر سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ:
وہ 1990 میں مدرسہ رضویہ ، چیچہ وطنی پاکستان میں جب داخل ہوئے تو وہاں وہ آہستہ آہستہ حقوق الناس کی جانب متوجہ ہوئے اور انہیں یاد آیا کہ ان کے ذمہ بھی کچھ چیزیں ہیں جو انہوں نے جا کر ادا کیں۔ مثلاً ایک مقام سے دودھ لیا تھا تو پیسے دینا بھول گئے تھے۔ جب حقوق الناس کا پتہ چلا تو اسے ڈھونڈنے نکلے معلوم ہوا کہ وہ تو فوت ہوگیا ہے پھر وہ اس کے گھر پہنچے اور احتیاطً اضافی رقم دی کیونکہ تاخیر ہو چکی تھی۔
یہاں بیان کرنے کا ہدف خود ثنائی نہیں بلکہ یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے کیونکہ زندگی کی سانسیں کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہیں اور اسلیے ضروری ہے کہ جلد از جلد حقوق الناس ادا کئے جائیں۔
فرماتے ہیں کہ ایک مرحوم عالم کے گھر ان کے وفات کے بعد جانا ہوا تو ان کے بچوں نے اپنے والد کی ایک ڈائری دکھائی کہ جس میں لکھا تھا کہ میں نے اتنے روزے اور نمازیں استجاری لیے۔ لیکن! میں نے اتنے ادا کر سکا اور اتنے ادا نہیں کئے اور جو اس نے ادا نہیں کئے تھے تو وہ چالیس سال سے اوپر تھے۔
اس کے بچوں نے کہا کہ آغا صاحب کچھ کریئے۔ کیونکہ ہمارے والد مشکل میں ہونگے۔ یہ باعث افسوس بات تھی۔ وہ عالم زمانہ طلبی میں قم کے اندر استجاری اعمال لیتا رہا لیکن! ڈائری میں لکھتے رہے لیکن! بیماری کی وجہ سے پڑھ نہیں سکے۔ اور سوچا کہ بچے بعد میں پڑھ لیں گے تو جس نے استجاری اعمال لے کر ادا نہیں کئیے تو وہ سوچ لے کہ اس کا ٹھکانہ کہاں ہے۔ یعنی ہمیں چاہیے کہ جب تک پہلی استجاری چیز ادا نہ کر لیں تب تک دوسری نہیں لے سکتے۔ اگر ایک مرتبہ چھوڑنے کی عادت پڑ گئی تو پھر شیطان ہمیں عادت ڈال دے گا کہ جہاں پہلی لکھی ہیں وہاں ایک اور بھی لکھ دو۔ اور ابھی تو زندگی پڑی ہے۔ یعنی انسان کو شیطان لمبی امیدوں میں مبتلا کر دیتا ہے جبکہ کل کی صبح کا کوئی ضمانت نامہ نہیں ہے۔ اور کسی کا ذمہ ادا کرنا آسان نہیں ہے۔ اور یہاں تو پیسہ لیا ہوتا ہے کہ جس کا حساب دینا ہے۔
آغا ملکی تبریزیؒ فرما رہے ہیں کہ حقوق الناس کو لکھو اور ایک ایک کر کے اس کی بخشش کا سامان کرو۔ کیونکہ بعد میں کوئی نہیں کرتا اور اگر بعد میں کوئی کرے تو وہ کوئی بہت ہی نیک اور صالح اولاد ہوگی وگرنہ کوئی نہیں کرتا۔
پروردگار ہمیں توفیق دے ہم دل و جان سے بارگاہ پروردگار میں توبہ کریں۔
یہاں جناب ملکی تبریزیؒ نے قوم یونؑس کا ایک واقعہ نقل کیا:
قوم یونسؑ کی توبہ:
حضرت یونسؑ جب اپنی قوم سے مایوس ہوگئے تو ان کے لیے دنیا کے عذاب کی دعا کر دی۔ یہ آخرت کا عذاب نہیں تھا۔ کیونکہ آخرت کا عذاب تو کئی گناہ سنگین ہے۔
جب عذاب ہوا اور سورج کا رنگ زرد ہونا شروع ہوا اور پھر سیاہی کی جانب آنا شروع ہوا اور پھر ہوائیں چلنے لگیں۔ تو قوم یونس میں ایک عالم تھا جناب روبیل نے لوگوں کو کہا کہ یہ جو زمین و آسمان کی حالت بدل رہی ہے تو یہ عذاب کی علامت ہے اگر تم توبہ کر لو تو عذاب ٹل جائے گا۔ نبیؑ یونسؑ تو ہمارے درمیان سے چلے گئے۔ اب قوم نے پوچھا کہ کس طرح توبہ کریں۔ اب جناب روبیل کو الہام ہوا یا وہ جانتے تھے انہوں نے کہا کہ انسانوں اور جانوروں میں بچوں کو ماؤں سے جدا کرو، مرد بوسیدہ لباس پہنیں، خواتین دوسری جگہ پر چلیں جائیں۔ اور بچے انسان اور جانوروں کے جدا کسی مقام پر ہوں خواتین گریہ و زاری کریں۔ بچے بھی گریہ کرتے تھے اور اس وقت ایک چیخ و پکار تھی۔ مرد علیحدہ سجدوں میں گرے ہوئے تھے اور انہوں نے توبہ کا ایک سماں باندھا کیونکہ انہوں نے سخت ترین نافرمانی کی تھی اور بارگاہ اقدس میں مسلسل پکار رہے تھے۔
ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین
یا ارحم الرحمین
جناب ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنی ہے تو ان ملتوں سے سیکھیں کہ جنہوں نے اپنے برے اعمال سے ہمیں توبہ کر کے دکھائی۔
پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم حقیقی معنوں میں تائبین میں قرار دے۔ ہمیں امام زمانؑ عج کے ناصرین میں سے قرار دے۔
والسلام،
عالمی مرکز مہدویت قم ایران