عدالت کا ایک اہم مسئلہ پروردگار کا حکیم ہونا، حکیم کا معنی ، اشاعرہ کا عقیدہ اور مکتب تشیع کا جواب
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
موضوع سخن : پروردگار کی عدالت ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے مکتب اہل تشیع اور اہلسنت کے اختلاف کو بیان کیا اور واضح کیا کہ ہم کیوں عدل کو اصول دین میں پیش کرتے ہیں اور عدلیہ کہلاتے ہیں۔
مباحث عدل کے اندر ایک اہم مسئلہ پروردگار کا حکیم ہونا ہے۔ یہ بھی مسئلہ عدل ہے اور اس میں بھی اختلاف جاری ہے۔
مکتب اہلبیتؑ کا یہ نظریہ اور عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے یعنی صاحب حکمت و دانائی ہے۔ یعنی اللہ اشیاء کے حقائق کو جانتا ہے۔ حکیم یعنی بہت بڑا عالم ، جو بابصیرت اور بلندترین اخلاقی و فکری کمالات کا بھی مالک ہو۔ حکیم یعنی جس کام کو انجام دیتا ہے اس کام کی مصلحت کو بھی سمجھتا ہے اور جس کام سے روکتا ہے اس کے نقصان اور ضرر کو بھی جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنا تعارف حکیم بھی کرایا ہے۔ اور ہماری اس بحث عدل سے حکیم کا تعلق کیسے ہوا وہ اس اعتبار سے کرتے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ چونکہ حکیم ہے اس لیے اس سے کبھی بھی کوئی قبیح فعل صادر نہیں ہو گا۔
پروردگار عالم کبھی بھی کسی نیک شخص، نبی یا شہید کو جہنم میں نہیں ڈالے گا اور کبھی بھی برے ، ظالم اور جابر کو جنت میں نہیں بھیجے گا۔
پروردگار کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں دیتا اور تکلیف نہیں دیتا کیونکہ وہ حکیم ہے۔ خدا خود کسی شخص پر یا کسی امت پر ظلم نہیں کرتا کیونکہ وہ حکیم ہے۔
اس موضوع کےاندر دو نظریے ہیں۔
اہل تسنن کا مشہور کلامی فرقہ وہی اشاعرہ اور ماتریدیہ یہاں آکر اس بات کا بھی انکار کر دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بحث فضول ہے۔ اللہ جو کام کرے گا وہ کام صحیح ہے۔ آپ کو حق نہیں کہ آپ خدا کے کاموں میں صحیح اور غلط کی تشخیص کریں۔ خدا جو کر رہا ہے وہ صحیح ہے اورجو نہیں کر رہا وہ غلط ہے۔ مثلاً اگر اللہ نے ارادہ کیا ہے ظلم کا تو پھر ظلم ٹھیک ہے اور اگر اللہ نے نیکوں کو جہنم میں ڈالنا ہے تو بس پھر وہی صحیح ہے کہ نیک لوگ جہنم میں جائیں۔
اب یہاں مکتب عدلیہ یا مکتب اہلبیتؑ یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ۔ اچھائی یا برائی خود افعال کی ذات میں موجود ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ کون سی چیزیں صحیح ہیں اور کون سی غلط اور اللہ نے یہ تشخیص کی طاقت اور عقل ہمیں دی تو وہ خود کبھی بھی غلط کام انجام نہیں دے سکتا۔
اب اللہ تعالیٰ غلط کام انجام نہیں دے سکتا تو اس حوالے سے پہلے مرحلے میں چار نکات پیش کیے جاتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ جو شخص غلط کام کرتا ہے تو اس کی چار میں سے ایک وجہ ہوتی ہے اور یہ وجہ اللہ کی ذات میں نہیں۔ مثلاً:
1۔ وہ شخص غلط کام کرتا ہے جو بے پرواہ ہو۔ اور وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فضول کام انجام دیتا ہے۔ اور اللہ نہ تو فضول کام کرتا ہے اور نہ ہی وہ لاپرواہ ذات ہے۔
2۔ وہ شخص غلط کام کرے گا جو جاہل اور نادان ہو۔ اور اسے معلوم نہ ہو کہ یہ بات غلط ہے۔ یہ بات بھی اللہ کے حوالے سے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اللہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ہے۔ وہ ہر شئ کو جانتا ہے۔
3۔ وہ شخص جو جانتا ہے کہ یہ کام غلط ہے اور وہ اپنی کسی مجبوری میں کر رہا ہے۔ اللہ کے حوالےسے یہ صحیح نہیں ہے۔ چونکہ اللہ غنی مطلق ہے وہ بے نیاز ہے اور اسے کوئی چیز بھی مجبور نہیں کر سکتی۔
4۔ یا پھر وہ شخص غلط کا کرے گا جسے کوئی ظالم مجبور کرے کہ یہ کام کرو۔ یہ بات بھی اللہ کے حوالے سے غلط ہے۔ کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اور اسے کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔
بس ہم ان چار نکات کو سامنے رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں کوئی معقول وجہ سامنے نہیں آرہی کہ ہم اللہ کی طرف نسبت دیں کہ وہ کوئی قبیح فعل کرے۔ خدا کبھی کوئی قبیح فعل نہیں کرے گا۔ وہ قادر مطلق ہے۔ با ارادہ ہے۔ صاحب اختیار ہے اور سب سے بڑا عالم ہے اور چیزوں کے بارے میں اچھائی اور برائی سمجھتا ہے۔ اور جو خود ہمیں غلط کاموں سے روکتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس سے کوئی غلط فعل صادر ہو۔ بس تو جو چیز قبیح ہے وہ محال ہے کہ اللہ سے صادر ہو۔ اللہ ان چیزوں سے منزہ ہے۔
البتہ اس نظریہ اہل تشییع کو مخالفین قبول نہیں کرتے۔ کہ ہم چیزوں کے صحیح یا غلط کا معیار اپنی عقل یا چیزوں کی ذاتی حیثیت کو نہیں دیں گے بلکہ اللہ کے فعل سے سمجھیں گے۔
جبکہ ہم کہتے ہیں کہ نہیں خدا نے کچھ چیزوں کو ایسا پیدا کیا ہے تو وہ ذاتاً ہمیں غلط نظر آ رہی ہیں۔ جیسا کہ ظلم ہمیں ذاتاً غلط نظر آ رہا ہے نہ کہ خدا روکے گا تو وہ رکےگا۔
اگر ہم دنیا کے کسی بھی مکتب یا دین میں چلیں جائیں سب کا یہ کہنا ہے کہ ظلم ، جھوٹ اور کسی کا حق کھانا غلط ہے۔ اللہ نے ہمیں عقل و شعور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اللہ با اختیار ہے کر سکتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا نہ کرے نعوذ باللہ اگر خدا سے غلط کام ہو تو پھر لوگوں کا خدا سے اطمینان اٹھ جائے گا۔ اور پھر کسے لوگوں کو اعتماد رہے گا کہ خدا ہمیں جنت دے گا۔ اور دشمنوں اور مخالفین کو جہنم میں ڈالے گا۔
یا اگر خدا سے غلط کام ہو سکتا ہو تو پھر اس کے بھیجے سفیروں اور انبیاؑ پر یا آئمہ ؑ پر لوگ کیسے اعتماد کریں گے۔ کیونکہ ایک غلط کام وعدہ خلافی بھی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ سارے کہیں کہ ہم اتنی کوشش کریں محنت کریں خود کو پاکیزہ رکھیں ، عیش و نوش اور گناہوں سے پرہیز کریں لیکن آخر میں خدا وعدہ خلافی کر دےاور ہمیں کچھ نہ ملے۔ اس طرح تو تمام نظام درھم برھم ہو جائے گا۔
ہمارا پہلا وظیفہ یہ ہے کہ پروردگار کی تسبیح کریں اور اسے منزہ اور پاک سمجھیں۔
پروردگار عالم ہم سب کو صحیح عقیدہ رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم۔