تازہ ترین پوسٹس

درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد

درس امامت 4
فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام کے لیے عصمت کا وجوب ہے
موضوع سخن امام کے لیے عصمت کا وجوب ہے اور ہم اس سے پہلے کتاب کشف المراد کی رو سے خود امامت کا فلسفہ اور امامؑ عج کے ہونے پر جو دلائل ہیں اور اس میں مختلف فرقوں کی آراء کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں۔ آج موضوع ہے کہ امامؑ کی جو صفات ہونی چاہیے اور اس میں سے اہم ترین صفت جو ہے وہ عصمت ہے۔

پچھلے درس میں عصمت کی تعریف بیان ہوئی تھی کہ
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ:
عصمت امرِ وہبی ہے یعنی خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے لیکن موجودہ علماء کہتے ہیں کہ نہیں عصمت امرِکسبی ہے۔ امام خود عصمت کو کسب کرتے ہیں۔ اور پھر وہ مقامِ امامت کے اہل ہوتے ہیں۔

عصمت کی تعریف:
عصمت ایک ملکہ ہے ۔ ملکہ صفت راسخ کو کہتے ہیں (جو واجبات کو ترک کرنے اور گناہ و اشتباہ او نسیان میں پڑنے سے روک دیتی ہے) اور یہ علم اور اللہ کی بارگاہ میں ارادہ اور عزم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یعنی فقط خدا کی اطاعت کروں گا اور نافرمانی سے بچوں گا۔

یہ دو چیزیں مل کر عصمت کو تشکیل دیتی ہیں
▪️امام کا علم ہے یعنی تمام حقائق کا علم، حلال و حرام کا علم،
▪️پروردگار کی اطاعت کا ارادہ

تمام اسلامی مکاتب کا نقطہ نظر:
آج جو مسئلہ موردِ بحث ہے وہ یہ ہے کہ تمام اسلامی مکاتب کا نقطہ نظر کیا ہے؟
اسلامی مکاتب کے اندر شیعہ اثنا عشری اور اسماعیلیہ یہ دو ہیں کہ جو آئمہؑ کی عصمت کے قائل ہیں۔ باقی کوئی مکتب حتیٰ باقی شیعہ مکاتب جیسے زیدی ہے یا پھر اہلسنت مکاتب جیسے فرتہ اشاعرہ، ماتریدیہ ، معتزلہ وغیرہ ہیں۔ وہابی، اہل حدیث یعنی یہ سب امام کے لیے عصمت کے قائل نہیں ہیں۔

موضوع امامت میں بحث ہم شیعہ اثنا عشری سے ہوتی ہے۔ اسماعیلیہ اس بحث و مناظرہ سے خارج ہیں اثنا عشری اور باقی مسلمان فرقوں کے اندر بنیادی طور پر زیادہ بحث ہوتی ہے۔

دلائل :

یہاں کچھ دلائل ہیں جو علامہ حلیؒ اور خود صاحب تجرید نے پیش کئے ہیں :
1۔ عصمت کے وجوب پر پہلی دلیل:
خواجہ نصیر الدین طوسیؒ نے اور علامہ حلیؒ عصمت کے وجوب پر جو سب سے پہلی دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ:
اگر ہم امام کے لیے عصمت کے قائل نہ ہوں تو تسلسل لازم آئے گا۔

اب ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ تسلسل کیسے لازم آئے گا؟
وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی امت کے اندر امام کے وجود کا جو فلسفہ ہے وہ یہ ہے کہ:
لوگوں کے اندر احتمال خطا ہے۔ اور لوگ اپنے امور اور کردار و گفتار میں معصوم نہیں ہیں چاہے کوئی کتنا ہی نیک ہو لیکن احتمال خطا تو ہے اور اس کی ہم نفی نہیں کر سکتے۔ اب یہ جو عالم بشریت کسی وقت بھی احتمال خطا کے سبب ضلالت کا شکار ہو سکتا ہے تو یہاں ایک ھادی ہونا چاہیے جو فوراً ان کی اصلاح کرے اور انہیں درست راہ بتائے۔

اب سوال یہ ہے کہ :
آیا ھادی انہیں کی مانند ایک شخص ہے جس میں احتمال خطا پایا جائے یا پھر کوئی معصوم ہے۔ اور اگر وہ کوئی معصوم ہیں یعنی ہر طرح کی خطا سے پاک ہے پھر تو ہمارا مسئلہ حل ہے۔ لیکن اگر امام معصوم نہیں تو پھر وہ بھی خطا کر سکتا ہے اور اس کے لیے بھی ایک آدمی کی ضرورت ہے جو اس کی اصلاح کر سکتا ہو (ھادی 2)۔

اب ہم اس سوال کرتے ہیں کہ آیا وہ آدمی (ھادی 2) معصوم ہے اگر وہ معصوم ہے تو پھر ہمارا مسئلہ حل ہے کیونکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ امت کا ھادی معصوم ہونا چاہیے چاہے وہ نبی ہے یا امام۔ لیکن اگر وہ عام لوگوں کی مانند ہے یعنی صاحب عدالت و تقویٰ ہے لیکن احتمال خطا ہے تو اگر وہ خطا کرے تو پوری امت کو انحراف کی طرف لے جائے گا اور اس کے لیے پھر ایک ھادی ہونا ضروری ہے تو یہ ہے تسلسل جو لازم آئے گا۔ یعنی اماموں کا ایک لامحدود سلسلہ کہ جس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ اور نتیجتاً اس طرح کا تسلسل شرعی اور عقلی اعتبار سے باطل ہے۔ بس آپ کو قائل ہونا پڑے گا کہ چاہے پیغمبرؑ ہو یا اس کا وصیؑ اس کے لیے معصوم ہونا ضروری ہے۔ تاکہ امت خطا اور انحراف سے بچ جائے۔

کہتے ہیں کہ امام حسن عسکریؑ کے زمانے میں قم کے ایک فقیہ تھے کہ جن کا نام سعد بن عبداللہ تھا۔ یہ امام عسکریؑ سے ایک سوال کرتے ہیں اور اتفاق سے امام مہدیؑ بھی وہاں موجود ہیں اور اپنے بچپن کے زمانے میں ہیں۔ تو امام عسکریؑ نے فرمایا کہ یہ سوال میرے فرزند سے کرو۔

اب سعد بن عبداللہ نے امام زمانؑ عج سے سوال کیا :
پروردگار ہمارے لیے کیوں امامؑ معین کرتا ہے اور ہم کیوں اپنے لیے امام مقرر نہیں کر سکتے تو وہاں امام زمانؑ عج نے عصمت کی بحث کو بیان فرمایا:
فرمایا :

تم جس شخص کو بھی امام بناؤ گے وہ اپنی طرف سے نیک عادل اور پاک و پاکیزہ ہو۔ تو آیا احتمال دیتے ہو کہ ممکن ہے کہ یہ جو بظاہر پاک و پاکیزہ ہے یہ باطنی طور پر اتنا پاک و پاکیزہ نہ ہو جتنا نظر آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے اپنے کوئی مقاصد اور اہداف ہو جنہیں وہ چھپاتا ہے۔ اور پھر یہ امت کو گمراہ کر دے۔

کہا؛ مولاؑ عج احتمال تو ہے اور ہم اس کی نفی نہیں کرسکتے۔

فرمایا : اسی وجہ سے اللہ خود امام معین کرتا ہے کیونکہ وہ ظاہر کو بھی دیکھتا ہے اور باطن کو بھی۔

دوسری دلیل:
2۔ امام محافظ شریعت ہے:
دوسری دلیل جو علامہ حلیؒ اور صاحب تجرید نے پیش کی وہ یہ ہے کہ امام ؑ محافظ شریعت ہے۔ پیغمبرؐ وحی لانے والے ہیں اور امامؑ پر وحی نہیں آتی اور امام محافظ وحی و شریعت ہیں۔ اور محافظ شریعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو۔ اسی لیے نتیجہ یہ ہے کہ امام معصوم ہونا چاہیے۔

امامت چونکہ عقائد سے مربوط ہے اور عقائد کے حوالے سے گمراہی کا تصور سب سے بڑی گمراہی ہے جو پورے عمل کو فاسد کر دیتی ہے۔
مثلاً جنگ صفین، جنگ جمل ، جنگ نہروان میں امام کے تبدیل ہونے سے یعنی جن لوگوں نے جس کو اپنا امام بنایا تھا اس کے ایک فیصلے سے کچھ لوگ مرنے کے بعد جہنم جارہے ہیں اور کچھ لوگ مرنے کے بعد جنت۔

یعنی ان جنگوں میں جو مقاتلہ ہوا تھا اور چاہے کوئی کتنا ہی پرہیزگار اور متقی تھا لیکن جسے اپنا امام اور پیشوا بنایا تو یہ جنگ اسے جہنم میں کھینچنے کے لیے کافی ہے۔

اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت کے محافظ کون کون ہیں؟
یہاں اہلسنت کہتے ہیں کہ آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ محافظ شریعت امام ہیں جبکہ قرآن ، سنت پیغمبرؐ اور اجماع مسلمین بھی محافظ شریعت ہے۔

اب جواب یہ ہے کہ:
قرآن محافظ شریعت نہیں :
یہ شریعت کا ایک منبع ہے لیکن محافظ شریعت نہیں ہے کیونکہ قرآن کے اندر کلیات بیان ہوئے ہیں جزئیات بیان نہیں ہوئی ہیں۔
قرآن نے کچھ چیزوں کا حکم دیا ہے لیکن وہ کیسے کرنا ہے اور کیسے انجام دینا ہے وہ سنت نبؐوی اور فرامین معصومینؑ بیان کرتے ہیں۔

اس کی جزئیات اور تفصیلات آئمہ معصومینؑ عترت پیغمبرؐ بیان کرتے ہیں اسی لیے تو رسولؐ اللہ نے اپنے بعد فرمایا کہ قرآن اور اہلبیتؑ سے متمسک رہو۔

مثلاً اہلسنت کہتے ہیں کہ سنت بیان کی لیکن ہم کہتے ہیں کہ عترت بیان کی کیونکہ ایک قرآن ہے اور دوسرے اہلبیتؑ رسولؐ جو اس کے شارح ہیں۔ اس کی تشریح کرنے والے ہیں۔

سنت نبویؐ محافظ شریعت نہیں ہے۔
اہلسنت کہتے ہیں کہ سنت نبویؐ محافظ شریعت ہے۔ لیکن ہم کہیں گے کہ یہ جو سنت نبویؐ بیان ہوئی ہے یہ اسی دور کے تقاضوں کے لیے بیان ہوئی ہے یا قیامت تک کے لیے عالم اسلام کو پیش آنے والی مشکلات اور انحرافات کے لیے بیان کی۔

یقیناً پیغبرؐ اکرم نے اس دور کے مطابق بیان کی اور باقی بیان نہیں کی۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ پر دین کامل ہوا ہے لیکن کامل بیان نہیں ہوا چونکہ صدر اسلام میں جتنی ضرورت تھی اتنا بیان ہوا۔ باقی رسولؐ اللہ نے اپنے خلفائے حقیقی کے لیے حصہ چھوڑا کہ وہ بیان کریں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ امامت کا فلسفہ ایک یہ بھی ہے کہ دین بیان کرے۔

دلیل :
اگر ہم کہیں کہ سنت کافی تھی تو کیوں مسلمانوں کے اندر سو سال کے بعد حنفی، مالکی ، حنبلی ، شافعی نے کیوں قیاس کی طرف رجوع کیا اور کہا کہ ایسے ایسے مسائل پیش آرہے ہیں کہ جن کا حل نہ قرآن میں ہے اور نہ سنت نبویؐ میں ہے۔ نتیجتاً فقیہ جو ہے وہ اپنے قیاس سے فقہی مسائل کو حل کر رہا ہے اور پھر ان کے اندر اختلاف پڑ گیا کہ اس نے یہ فتویٰ دے دیا اور فلاں نے وہ فتویٰ دے دیا اور نتیجتاً ایک شریعت کی جگہ چار شریعت بن گئیں۔

مثال :
ہاتھ کھول کر نماز پڑھیں یا باندھ کر اس پر چاروں فقہی متفق نہیں ہیں۔

اگر ساری چیزیں بیان ہوئی ہوتیں تو پھر قیاس و استحسان کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی اور پھر انہوں نے یہ کیوں لکھنا تھا کہ اگر ایک مسئلہ کا حل قرآن اور سنت میں نہیں ہے اور اجماع بھی نہیں ہوسکتا تو پھر فقہی اپنے ذہن سے اور قیاس و استحسان سے بیان کریں

جبکہ دین مکمل ہے تو پھر آپ کو ضرورت نہیں کہ آپ اپنی ناقص عقل سے دین کا مسئلہ حل کریں۔ یعنی دین کو لینے کے لیے امام ضروری ہے اور جس مولاؑ سے باقی ماندہ دین لینا تھا اس کی طرف یہ لوگ نہیں گئے اور اپنے ذہن سے دینی فیصلے کرنے لگے۔ نتیجہ انحراف پیدا ہوا۔

سنت ہمارے پاس دو شکلوں میں موجود ہے۔
باقی مکاتب اسلام میں دین 23 سالہ بیان ہوا ہے اور شیعہ مکتب کے پاس سلسلہ امامت 260 ھج تک رہا اور اتنا دین بیان ہوا کہ سارے مسائل حل ہو گئے۔ کیونکہ ہمارے پاس جو احادیث کا ذخیرہ ہے وہ دوسرے مکاتب سے کہیں زیادہ ہے۔

ہمارے پاس 11 آئمہؑ نے بعنوان وصی پیغمبرؐ انہوں نے دین بیان کیا چاہے انہیں حکومت ملی یا نہیں ملی۔
مثلاً جب بھی لوگ سوال کرتے تھے تو مولاؑ انہیں حل بتاتے تھے ۔ بعض مرتبہ راوی پوچھتے تھے کہ یہ جواب آپ کہاں سے دے رہے ہیں تو قرآن کی آیت بیان کرتے تھے یا فرماتے تھے کہ میں نے اپنے بابا سے انہوں نے اپنے جد بزرگوار سے انہوں نے رسولؐ خدا سے سنا
یعنی سلسلہ روایت میں دین بیان ہو رہا ہے۔

یعنی اگر ہم شیعہ احادیث کو اور اہلسنت احادیث کو جمع کریں تو شیعہ احادیث دس برابر زیادہ ہے۔ ان کے فقہا کا اور ہمارے فقہا کا یہی فرق ہے۔ ان کے فقہاء کا مسئلہ احادیث کا نہ ہونا ہے لہذا وہ اپنے قیاس سے مسئلہ کا حل کر رہا ہے۔ ہمارے فقہا کا مسئلہ احادیث کی کثرت ہے کہ ایک ایک موضوع پر اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں وہ کئی کئی سال اس پر بحث کرتا ہے کہ ہم کس حدیث سے موجودہ دور میں استدلال کریں۔

درس خارج میں اگر ہم جائیں کہ ایک فقہی مسئلہ میں ایک فقیہ کتنا عرصہ معصومینؑ کی روایات بیان کر رہا ہے اور آخرکار ایک روایت پر سند اور متن کے اعتبار سے اکتفا کریں گے اور اس پر وہ فتویٰ دے گا۔

مکتب تشیع کے اندر کوئی فقیہ یہ جرت نہیں کرتا کہ اپنے قیاس سے کوئی فتویٰ دے کہ مجھے یہ اچھا لگ رہا ہے بلکہ ہمارے پاس اتنے فرامین معصومینؑ ہیں اور احادیث ہیں کہ جن میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔

اجماع :
تیسری دلیل اہلسنت کے علماء کہتے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ بن گیا تو ہم اجماع کے ذریعے حل کریں گے۔ اب سوال ہے کہ اجماع آپ کے اندر کون کرے گا آیا سارے غیر معصوم کریں گے تو پھر فرق کیا ہے؟

ایک غیر معصوم کی رائے یا مجموعہ امت غیر معصوم کی رائے ہو تو کوئی فرق نہیں دونوں گمراہ کرنے والی ہے۔ اور امت کہیں بھی جمع نہیں ہوتی۔ کیونکہ امت کا اطلاق ایک مکتب پر نہیں ہوتا تمام مکاتب پر ہوتا ہے۔ جو بھی کلمہ گو ہے امت ہے۔

تو ایک گروہ علماء کا یہاں اجماع ہوا اور یہ غیر معصوم ہیں ان سے خطا ہو سکتی ہے۔ خطا جیسے فردی ہوتی ہے اسی طرح اجتماعی بھی ہوتی ہے۔ تو محافظ شریعت وہ بنے جو خطا سے پاک ہو۔

نتیجہ : اجماع محافظ شریعت نہیں۔

قیاس :
چوتھی چیز قیاس ہے بعض علمائے اہلسنت نے کہا کہ اگر کسی مسئلے کا حل قرآن سے نہیں تو سنت سے سنت سے نہیں تو اجماع سے قیاس و استحسان سے حل کرو۔ جبکہ دین کا مسئلہ کوئی بھی اپنی رائے سے نہیں کر سکتا۔ اور قیاس کرنے والا سب سے پہلا شیطان تھا اور جتنے قیاس کرنے والے ہیں وہ ابلیس کے پیروکار ہیں۔ کیونکہ جب خدا نے ابلیس کو سجدہ کرنےکو کہا تو اس نے قیاس کیا کہ وہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے یعنی اس نے مقایسہ کیا اور اپنے ذہن سے بہتر پا رہا ہے اور اپنی ذہنی رائے کو اللہ کے مد مقابل لایا۔

اللہ تعالیٰ نے دین کامل بھیجا ہے جو لوح محفوظ پر بھی ہے اور پیغمبرؐ لائے اور ان کے بعد معصومینؑ کے پاس ہے۔

قیاس ہمارے نزدیک حق نہیں ہے۔

اصول عملیہ:
کچھ لوگوں نے اس کو دلیل بنایا کہ:
اصل بَرَات یعنی جب حکم شریعہ نہ ملیں تو آپ بری الذمہ ہیں۔ تو یہ تو حکم ثانوی ہے اور حکم ثانوی تب ہوتا ہے کہ جب حکم اولی کی گنجائش نہ ہو۔ یا ہم حکم اولی سے کلی طور پر لا علم ہوں۔ اور احکام ثانوی محافظ دین نہیں ہیں اور پیغمبرؐ اکرم دین بیان کر گئے ہیں اب ہم نے ان ہستیوں سے دین لینا ہے جو معصوم امامؑ ہیں۔

قیاس اور اصول عملیہ میں فرق یہ ہے کہ وہ قیاس سے حکم اولیہ بناتے ہیں۔ اور اس کو واقعیت قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اللہ کا ایک حکم تھا لیکن چونکہ ہمارے فقیہ نے قرآن اور سنت میں تحقیق کی اور اس کو پتہ نہیں چلا اب اس نے جو سوچا اور جاری کیا خدا اپنا حکم مٹا دے گا اس فقہی کا حکم لوح محفوظ پر لکھ دے گا۔ یعنی ایک ناقص العقل فقہی کا حکم اللہ کےحکم پر نافذ ہے۔
نعوذ باللہ!

امیرالمومنینؑ سے لیکر امام حسن عسکریؑ تک جن ہستیوں نے دین کی حفاظت کی وہ آئمہ معصومینؑ ہیں۔

فلسفہ امامت دین اور اصل دین بیان کرنا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ یہاں اہلسنت سوال کریں کہ:
260 ھ تک آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد تو آپ ہم جیسے ہوگئے ہیں۔ آپ کے بھی فقہا ہیں اور ہمارے بھی اور ابھی آپ کو مسائل پیش آتے ہیں تو آپ فقہاء سے رجوع کرتے ہیں؟

جواب: ہمارے پاس اصل دین 99 فیصد بیان ہوچکے ہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایک در صد مسئلہ رہ گیا ہو کہ جس میں ہمیں اصول عملیہ کی ضرورت پڑتی ہو لیکن آپ کے پاس تو بے پناہ مسائل ہیں کہ جس میں آپ نے قیاس سے کام لیا ہے ۔ ہمارے پاس جو 260 ھ تک احادیث کا سلسلہ جاری رہا ہے اس سے ہمیں اتنی احادیث مل گئی ہیں کہ جو ہمارے لیے تا زمانہ ظہور کافی ہیں۔ کجا 23 سالہ احادیث کا ذخیرہ اور کجا ڈھائی صدیوں کا احادیث کا ذخیرہ۔ اور جب عصر ظہور ہوگا تو یہ ایک در صد مسائل بھی بیان ہونگے اور اس زمانے کے مسائل اور باقی ماندہ دین بھی امام مہدیؑ کے ذریعے بیان ہوگا۔
انشاءاللہ ۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *