عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

درس اخلاق منتظرین-دوسروں کے حق میں نیکی

سلسلہ اخلاق منتظرین
مہدی مضامین و مقالات

درس اخلاق منتظرین-دوسروں کے حق میں نیکی

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ:

قرآن مجید کی سورہ رحمٰن میں پروردگار عالم فرما رہا ہے ۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
“نیکی کی جزا سوائے نیکی کے اور کچھ بھی نہیں ”

پروردگار عالم تمام انسانوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے ۔ جب انسان کسی سے نیکی کرتا ہے یا احسان کرتا ہے بعض اوقات سب کے سامنے کرتا ہے اور بعض اوقات چھپ کر کرتا ہے ۔

سب کے سامنے نیکی کرنا اگر ریا سے پاک ہو یعنی دکھاوا نہ ہو اپنی تعریف کروانا مقصود نہ ہو تو وہ ظاہری نیکی حکم خدا کی تبلیغ کرنا ہے ۔ لیکن!
اگر ریاکاری شامل حال ہو کہ لوگ متوجہ ہوں اور تعریف کریں تو اس صورت میں اس کے لیے اہم ہے کہ چھپ کر نیکی کرے۔ آئمہؑ ظاہر بظاہر بھی نیکی فرماتے تھے اور شب کی تاریکی میں چھپ کر غریبوں ، مسکینوں ، فقیروں اور یتیموں سے نیکی فرماتے تھے اور دروازے پر دستک دے کر اناج چھوڑ جاتے تھے ۔ لینے والے کو پتہ نہ ہو تا تھا کہ دینے والا کون ہے۔

پیغمبرؐ فرماتے ہیں کہ مومن جو اپنے احسان چھپائے تو اسے پوشیدہ کرے وہ خدا کے نزدیک اپنے مقام اور منزلت میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اور اس کے پاس جو وسیلہ ہے قرب الہیٰ کا تو اس کے لیے یہ بہترین وسیلہ ہے۔ آج تو چھپ کر نیکی کرنے بہت سے مواقع ہیں۔ کسی کی مدد کے لیے مختلف ذرائع ہیں ۔ پرانے زمانے میں لوگ کسی کے ہاتھ کسی کی مدد کرتے تھے اور اپنا نام بتانے سے منع کرتے تھے۔ آج دنیا کے کسی کونے سے بھی کسی ضرورت مند کی مدد ہو سکتی ہے۔ اب نیکی کیا ہے؟

کسی کے بھی حق میں اچھا کام نیکی ہے۔ بعض مرتبہ نیکی مالی ہے بعض مرتبہ علمی و فکری خدمت ہے کسی کی حوصلہ افزائی بھی نیکی ہے۔
لوگ جب آئمہ ؑ کے پاس آتے تھے تو اپنی غربت اور مسکنی کا شکوہ کیا کرتے تھے ۔ آئمہ ؑ ان کو بےمراد نہیں لوٹاتے تھے ہر ممکن ان کی مدد کرتے تھے ۔ لیکن بسا اوقات آئمہؑ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا تو وہ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے کہ تم غریب نہیں بلکہ بادشاہ ہو ۔ تمھارے پاس بہت نایاب گوہر ہے اگر تمھیں دنیا کی دولت دی جائے تو پھر بھی تم وہ گوہر نایاب نہ بیچو گے۔ اور وہ قیمتی ترین شئی ہماری ولایت ہے۔ اتنا حوصلہ دیتے تھے کہ وہ اپنے سارے غم بھول جاتا تھا۔
بسا اوقات ہم محسوس کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو تسلی کی ضرورت ہے یہ نیکی ہے۔ کسی کو دلاسہ دینا اسکے کے درد سننا۔

امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ اسلام کی زیبائی یہی ہے کہ اسلام نے ہمیں احسان کرنے کا اور ایک دوسرے کے حق میں نیکی کرنے کا حکم دیا ۔

ہمیشہ دوسروں کے حق میں نیکی کرو۔ امیرالمونینؑ فرماتے ہیں حتیٰ کہ اپنے دشمنوں اور حاسدین سے نیکی کرو جنہوں نے تیرے ساتھ مکر اور فریب کیا تو ان کے ساتھ بھی نیکی کر۔ جب بھی نیکی کا موقعہ ملے۔ نیکی کر تاکہ تمھاری ان کے ساتھ نیکی ان کو شرمندگی دلائے اور ان کی اصلاح ہو۔ بالاآخر وہ تمھارے ساتھ بدتمیزی نہ کریں گے۔

نیکی کی قسمیں:

  • اپنے مومن بھائیوں اور ہمسایوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ
    اپنی تندی زبان سے ان کو بچاؤ تلخ لہجے میں گفتگو نہ کرو ان کے حق میں احسان کرو ان کی مشکلیں دور کرو۔
  • مولاؑ فرماتے ہیں جو بھی کسی شخص کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی محبت بڑھتی رہتی ہے۔
  • فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہے تو اس کی اپنی آخرت نیک ہو جاتی ہے اور اس کی اپنی راہیں اس پر آسان ہو جاتی ہیں ۔

یہ زندگی تو مختصر ہے لیکن عالم برزخ ، عالم محشر جہاں کئی ہزار سال کی زندگی ہے ۔ دنیاوی زندگی تو مختصر ہے۔

وہاں ایک طویل مدت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالم برزخ میں ہمارے لیے دشواریاں آسان ہو جائیں اور عالم برزخ ہمارے لیے بہشت بن جائے اور عالم محشر کی سختیاں ہمارے لیے آسان ہو جائیں تو نیکی کرو۔

  •  اگر ہم آج اس عالم میں دوسروں کے ساتھ نیکی کریں گے تو عالم برزخ میں ہمارے ساتھ خدا نیکی کرے گا۔
  •  اگر ہم دوسروں کے لیے راہیں آسان کریں گے تو کل عالم برزخ میں پروردگار عالم ہمارے لیے راہیں آسان فرمائے گا۔

ہمارے ہاں دو قسم کے افراد ہیں ایک وہ جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ااور دوسرے وہ جو دوسروں کے لیے راہیں تنگ کرتے ہیں ۔ مومن اور منافق کی یہی پہچان ہے۔

منافق راہیں دشوار کرتے ہیں ان کے لیے عذاب الیم ہے۔

مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ راہیں آسان کرتا ہے حتیٰ کہ دشمن کے لیے بھی ۔

ہمارے آئمہؑ کے قاتلین کو جب بھی ضرورت ہوتی تھی وہ امامؑ کی پناہ لیتے تھے ۔ اور آئمہ ؑ ان کی مدد کرتے تھے۔ ان کے حق میں نیکی کرتے تھے۔

معصوم فرماتے ہیں جس شخص کی نیکیاں دوسروں کے حق میں زیادہ ہو جائیں تو اسکے خدمت گزار اور مددگار زیادہ ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ دنیا میں تنہا نہیں رہتا۔ پروردگار عالم اس کے بہت سارے مددگار پیدا کرتا ہے۔

اس لیے آئمہؑ فرماتے ہیں کہ تو نیکی کر تاکہ لوگ تیرے غلام بنیں۔

غلام سے مراد یہ ہے کہ پھر تیری برائی نہیں کریں گے تیری خوبی بیان کریں گے اور ہمیشہ تیرے ممنون رہیں گے۔

اسی طرح فرماتے ہیں* کہ اگر تو نیکی کرے گا تو لوگوں کا امیر بن جائے گا۔ لوگ تیرا احترام کریں گے پھر فرماتے ہیں اگر کسی نے تیرے ساتھ نیکی کی ہے تو تو اس کے ساتھ بدی نہ کر کیونکہ پھر تیری یہ بدی کل تیرے حق میں ہونے والی نیکیوں کو ختم کر دے گی۔ نہ ہی دنیا میں لوگ تیرے حق میں نیکی کریں گے اور پھر تیرا رب بھی تجھ سے ناراض ہو گا۔

نیکی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی کو اپنے اوپر مقدم کرنا۔ ایثار سے کام لینا۔ جیسے غزوہ احد میں اصحاب رسول ؐ اللہ۔ وہ افواج جو پیغمبرؐ اور آئمہ ؑ معصومینؑ کے تربیت یافتہ تھے ایک دوسرے کے لیے ایثار کر رہے تھے ۔ پہلے نے زخمی ہونے کے باوجود پانی دوسرے کو دیا۔ دوسرے نے تیسرے کو تیسرے نے جب پانی چوتھے کو بھیجا وہ دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اسی طرح تمام زخمی شہید ہو گئے۔
معصومؑ فرماتے ہیں کہ وہ شخص سب سے زیادہ یہ شایستگی رکھتا ہے کہ دوسروں کے حق میں نیکی کرے جسے اللہ نے طاقت اور دولت رکھتا ہے۔ تو ایسا شخص اپنے مقام اور دولت کا غلط استعمال نہ کرے بلکہ لوگوں کے حق میں نیکی کرے ۔ لوگوں کے کام کرے ان کی مشکلات دور کرے اور ان کی زندگی کی گرہیں اپنی طاقت سے کھولے۔
واسلام۔

عالمی مرکز مہدویت قم۔

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید