عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

حدیث شریف معراج – تیرھواں حصہ

حدیث شریف معراج
مہدی مضامین و مقالات

حدیث شریف معراج – تیرھواں حصہ

 حدیث شریف معراج
تیرھواں حصہ
ثُمَّ قالَ: یا أَحْمَدُ! عَلَیْکَ بِالوَرَعِ! فَإِنَّ الوَرَعَ رَأْسُ الدّینِ وَ وَسَطُ الدّینِ وَآخِرُ الدّینِ، إِنَّ الوَرَعَ یُقَرِّبُ إِلَى اللهِ تَعالى.

پھر کہا اے احمد تم پر ضروری ہے ورع پیدا کرو ( ورع تقوی کی بلند ترین کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان حرام سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ ہر اس چیز سے بھی پرہیز کرتا ہے کہ جہاں حرام کا شبہ ہو) ورع دین کا سر ہے دین کا پیکر ہے اور دین کی انتہا ہے اور بے شک ورع ہی اللہ تعالی کے قریب کرنے والا وسیلہ ہے۔
یا أَحْمَدُ! إِنَّ الوَرَعَ زَیْنُ المُؤْمِنِ وَعِمادُ الدّینِ، وَإِنَّ الوَرَعَ مَثَلُهُ کَمَثَلِ السَّفینَةِ، کَما أَنَّ فِى البَحْرِ لا یَنْجُو إِلاّ مَنْ کانَ فیها، کَذلِکَ لا یَنْجُو الزّاهِدُ مِنَ الدُّنْیا إِلاّ بِالْوَرَعِ.
ورع مومن کی زینت ہے اور دین کا ستون ہے اور ورع کی مثال کشتی کی مانند ہے جس طرح سمندر میں صرف وہی نجات پاتا ہے جو کشتی میں ہے، اسی طرح دنیا سے وہی زاہد نجات پائے گا جو ورع کے ساتھ ہے۔
یا أَحْمَدُ! إِنَّ الوَرَعَ یَفْتَحُ عَلَى الْعَبْدِ أَبْوابَ العِبادَةِ [خ ل: أَبْوابَ السَّمآءِ کَما یُفْتَحُ لِلْمَلائِکَةِ] ، فَیُکْرَمُ بِهِ الْعَبْدُ عِنْدَ الخَلْقِ، وَیَصِلُ بِهِ إِلَى اللهِ ـ عزّوجلّ۔
اے احمد! ورع عبد پر عبادت کے دروازے کھولتا ہے جس طرح اسماں کے دروازے فرشتوں پر کھلتے ہیں ورع کے ذریعے انسان لوگوں میں عزت پاتا ہے اور اسکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے۔
یا أَحْمَدُ! ما عَرَفَنی عَبْدٌ إِلاّ خَشَعَ لی، وَما خَشَعَ لی عَبْدٌ إِلاّ خَشَعَ لَهُ کُلُّ شَىْء.
اے احمد ! کسی عبد نے مجھے اس وقت تک نہیں پہچانا جب تک میرے لیے خاشع( اللہ کے مقابلے میں تواضع و جھکنا) نہیں ہوا، کوئی ایسا عبد نہیں جو میرے لیے خاشع ہوا ہو اور میں نے اسکے لیے ساری چیزوں کو خاشع نہیں کیا ہو،( یعنی جو اللہ کے لیے جھکا اللہ نے سب کائنات کو اسکے لیے جھکایا)۔
یا أَحْمَدُ! عَلَیْکَ بِالصَّمْتِ! فَإِنَّ أَعْمَرَ القُلُوبِ قُلُوبُ الصّالِحینَ وَالصّامِتینَ، وَإِنَّ أَخْرَبَ القُلُوبِ قُلُوبُ المُتَکَلِّمینَ بِما لا یَعْنیهِمْ.
اے احمد ! تم پر (حکیمانہ) سکوت و خاموشی کی رعایت ضروری ہے، بلاشبہ سب سے زیادہ آباد دل ، صالحین اور اہل سکوت کے ہیں اور سب سے زیادہ ویران و خراب دل فضول باتیں کرنے والوں کے ہیں۔
جاری ہے

ترجمہ و تشریح: استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاه خود را اینجا قرار دهید