حدیث شریف معراج
آٹھواں درس
یا أَحْمَدُ! إِنَّ أَهْلَ الآخِرَةِ رَقیقَةٌ وُجُوهُهُمْ، کَثیرٌ حَیاؤُهُمْ، قَلیلٌ حُمْقُهُمْ، کَثیرٌ نَفْعُهُمْ، قَلیلٌ مَکْرُهُمْ، أَلنّاسُ مِنْهُمْ فى راحَةٍ، وَ أَنْفُسُهُمْ مِنْهُمْ فى تَعَبٍ، کَلامُهُمْ مَوْزُونٌ، مُحاسِبینَ لِأَنْفُسِهِمْ مُتْعِبینَ لَها، تَنامُ أَعْیُنُهُمْ وَ لا تَنامُ قُلُوبُهُمْ، أَعْیُنُهُمْ باکِیَةٌ،وَ قُلُوبُهُمْ ذاکِرَةٌ؛ وَ إِذا کُتِبَ النّاسُ مِنَ الغافِلینَ، کُتِبُوا مِنَ الذّاکِرینَ،فی أَوَّلِ النِّعْمَةِ یَحْمَدُونَ، وَ فى آخِرِها یَشْکُرُونَ،دُعاؤُهُهْم عِنْدَ اللهِ مَرْفُوعٌ، وَ کَلامُهُمْ عِنْدَهُ مَسْمُوعٌ، تَفْرَحُ بِهِمُ المَلائِکَةُ، یَدُورُ دُعاؤُهُم تَحْتَ الحُجُبِ، یُحِبُّ الرَّبُّ أَنْ یَسْمَعَ کَلامَهُمْ، کَما تُحِبُّ الوالِدَةُ وَلَدَها؛ لا یَشْغَلُهُمْ عَنِ اللهِ شَىْءٌ طَرْفَةَ عَیْنٍ، وَ لا یُریدُونَ کَثْرَةَ الطَّعامِ وَ لا کَثْرَةَ الکَلامِ وَ لا کَثْرَةَ اللِّباسِ؛ أَلنّاسُ عِنْدَهُمْ مَوْتى، وَ اللهُ عِنْدَهُمْ حَىٌّ کَریمٌ لا یَمُوتُ؛ یَدْعُونَ المُدْبِرینَ کَرَماً، وَ یَزیدُونَ المُقْبِلینَ تَلَطُّفاً؛ قَدْ صارَتِ الدُّنْیا وَ الآخِرَةُ عِنْدَهُمْ واحِدَةً؛ یَمُوتُ النّاسُ مَرَّةً، وَ یَمُوتُ أَحَدُهُمْ فى کُلِّ یَوْمٍ سَبْعینَ مَرَّةً مِنْ مُجاهَدَةِ أَنْفُسِهِمْ وَ هواهُمْ وَ الشَّیْطانِ الَّذى یَجْری فى عُرُوقِهِمْ؛ لَوْ تَحَرَّکَتْ ریحٌ لَزَعْزَعَتْهُ، وَ إِنْ قامَ بَیْنَ یَدَىَّ فَکَأَنَّهُ بُنْیانٌ مَرْصُوصٌ، لا أَرَى فی قَلْبِهِ شُغْلاً بِمَخْلُوقٍ. فَوَعِزَّتی وَ جَلالی، لَأُحْیِیَنَّهُ حَیاةً طَیِّبَةً، حَتَّى إِذا فارَقَ رُوحُهُ جَسَدَهُ، لا اُسَلِّطُ عَلَیْهِ مَلَکَ المَوْتِ، وَ لا یَلی قَبْضَ رُوحِهِ غَیْری، وَ لَأَفْتَحَنَّ لِرُوحِهِ أَبْوابَ السَّماءِ کُلَّها، وَ لَأَرْفَعَنَّ الحُجُبَ کُلَّها دُونی، وَ لَآمُرَنَّ الجِنانَ فَلْتَزَیَّنَنَّ، وَ الحُورَ العینَ فَلْتُشْرِقَنَّ، وَ المَلائِکَةَ فَلْتُصْلِبَنَّ، وَ الأَشْجارَ فَلْتُثْمِرَنَّ، وَ ثِمارَ الجَنَّةِ فَتَدَلَّیَنَّ، وَ لَآمُرَنَّ ریحاً مِنَ الرِّیاحِ الَّتی تَحْتَ العَرْشِ فَلْتَحْمِلَنَّ جبالاً مِنَ الکافُورِ وَ المِسْکِ الأَذْفَرِ فَلْتَضْرَمَنَّ وَقوداً مِنْ غَیْرِ نارٍ فَلْتَدْخُنَنَّ؛وَ لا یَکُونُ بَیْنی وَ بَیْنَ رُوحِهِ سَتْرٌ، وَ أَقُولُ لَهُ عِنْدَ قَبْضِ رُوحِهِ: مَرْحَباً وَ أَهْلاً بِقُدُومِکَ عَلَىَّ! أَسْعِدْ بِالکَرامَةِ وَ البُشْرَى بِالرَّحْمَةِ وَ الرِّضْوانِ وَ جَنّاتٍ لَهُمْ فیها نَعیمٌ مُقیمٌ خالِدینَ فیها أَبَداً، إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظیمٌ.فَلَوْ رَأَیْتَ المَلائِکَةَ کَیْفَ یَأْخُذُها واحِدٌ وَ یُعْطیهَا الآخَرَ!
اے احمد؛ اہل آخرت کے دل بہت نرم ، انکی شرم و حیاء بہت زیادہ ، نافہمی کم (اگر حماقت کریں تو بہت کم ایسی صورت حال پیش آتی ہے), انکا نفع و فائدہ (دوسروں کو) بہت زیادہ، (دوسروں کے ساتھ ) مکر و فریب نہایت کم ہے
لوگوں کو ان سے سہولت اور آسائش ملتی ہے لیکن انہیں لوگوں سے رنج و زحمت ملتی ہے، انکی گفتگو اچھی اور سنجیدہ ہے، اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اسے سختی و زحمت میں رکھتے ہیں، انکی آنکھیں (رات کو) سوتی ہیں لیکن انکے دل ہمیشہ بیدار رہتے ہیں ، آنسو بھری آنکھوں سے دل میں اللہ کی یاد زندہ رکھتے ہیں۔
جب باقی لوگوں کا نام اللہ سے غفلت کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے تو انکا نام اللہ کو یاد کرنے والوں لکھا جاتا ہے، نعمت ملتے ہی شروع میں اللہ کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، انکی دعا اللہ کی بارگاہ میں بلند ہوتی اور مستجاب ہوتی ہے انکی بات کو اللہ مانتا ہے ، فرشتے ان سے راضی ہیں ، انکی دعائیں( اللہ کی بارگاہ میں پہنچنے سے پہلے ) نوری حجابوں کے نیچے حرکت کرتی ہیں ، خدا کو انکی کلام سننا اسی طرح پسند ہے جس طرح ماں کو اپنے بچے کی بات کرنا پسند ہے۔
اللہ کی یاد سے وہ ایک پلک جھپکنے کا لحظہ بھی غافل نہیں ہیں، وہ کبھی بھی زیادہ کھانے زیادہ بولنے اور زیادہ لباس پہننے کا شوق نہیں رکھتے،ان کے نزدیک لوگ (اپنی حیوانی زندگی میں غرق ہونے کی وجہ سے گویا کہ) مر چکے ہیں صرف پروردگار ہے جو حی و کریم(بہت بڑا زندہ اور کرم و بخشش والا ہے) کہ جسے موت نہیں ہے ، حق سے دور ہونے والوں کو اپنے کرم و بزرگی کی وجہ سے بلاتے ہیں ، اپنی طرف آنے والوں کا محبت و خوش اخلاقی سے استقبال کرتے ہیں،ان کی نگاہ میں دنیا اور اخرت ایک ہے،لوگ زندگی میں ایک بار مرتے ہیں لیکن یہ روزانہ اللہ کی راہ میں اپنے نفس، خواہشات نفسانی اور شیطان سے بہت زیادہ اور شدت سے جہاد کرنے کی وجہ سے 70 مرتبہ مرتے ہیں۔
بظاہر ان کا بدن ضعیف اور کمزور کہ ایک ہوا کا جھونکا بھی اسے لرزا دیتا ہے،لیکن جب میری بارگاہ میں نماز اور راز و نیاز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں،تو ایک مضبوط اور مستحکم چٹان کی مانند ہوتے ہیں،میں ان کے دلوں میں مخلوق سے کسی قسم کا تعلق اور وابستگی نہیں پاتا،مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں انہیں حیات طیبہ سے سرفراز رکھتا ہوں
جب ان کی روح کے جسم سے جدائی کا ٹائم اتا ہے تو میں فرشتہ موت کو ان کی طرف نہیں بھیجتا میرے علاوہ کوئی بھی ان کی جان کو قبض نہیں کرتا، آسمان کے تمام دروازے ان کی ارواح کے لیے کھولتا ہوں اور اپنے اور ان کے درمیان جتنے حجاب ہیں سب اٹھا لیتا ہوں،حکم دیتا ہوں کہ جنت ان کے لیے اپنے اپ کو سجائے اور ان پر ہر طرف سے حور العین استقبال کے لیے آئیں ، فرشتے ان کی خدمت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں جنتی درخت اپنے میوے دیتے ہیں اور یہ جنتی میوے ان کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں،عرش کے نیچے جتنی نسیم بھری ہوائیں ہے ان میں سے کسی ایک باد نسیم کو حکم دیتا ہوں جاؤ مشک و کافور کے پہاڑوں سے خوشبو اٹھاؤ اور میرے ان بندوں کے گرد ماحول کو خوشبودار کرو خوشبو جلے لیکن آگ سے نہیں، میرے اور ان کی روح کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو،جب ان کی جان لیتا ہوں تو کہتا ہوں اہلا وسہلا محبت بھرے قدموں سے آنے کی مبارکباد دیتا ہوں،کرم بھری سعادت اسے عطا ہوتی ہے،رحمت، رضوان اور بہشت کی خوشخبری دیتا ہوں کہ جس کی نعمتوں میں وہ ہمیشہ کی ابدی زندگی گزاریں گے،ان کے لیے ختم نہ ہونے والا سب سے بڑا اجر اللہ کی بارگاہ میں ہے،کاش تو دیکھتا فرشتے کیسے اسے اپنی اغوش میں لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے اغوش میں دیتے ہیں۔
جاری ہے
ترجمہ: استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
عالمی مرکز مہدویت قم