تفسیر سورہ حدید
14 درس آیت (19)
آیت کا ترجمہ و تفسیر ، اہل ایمان و انتظار کا درجہ صدیق اور درجہ شہید ، صدیق و شہید کا معنی و فضیلت ، امام باقر علیہ السلام کا اہل انتظار کے لیے فرمان
حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
خلاصہ
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرُسُلِـهٖ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ۖ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ لَـهُـمْ اَجْرُهُـمْ وَنُـوْرُهُـمْ ۖ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ الْجَحِـيْمِ (19)
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، ان کے لیے ان کا اجر اور ان کی روشنی ملے گی، اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا یہی لوگ دوزخی ہیں۔
اس آیت مجیدہ میں پروردگار عالم دو قسم کے لوگوں کا ذکر کر رہا ہے۔
1۔ اہل ایمان
اہل ایمان کے درجے ہیں
درجہ اول صدیق
صدیق وہ ہے جس کا دل ، زبان اور عمل ایک ہو جو سچائی پر مشتمل ہو۔ صداقت ہمیشہ انسان کے اخلاق سے ظاہر ہوتی ہے۔
قرآن مجید یہ لقب مختلف انبیاءؑ کے بارے میں بھی بیان کرتا ہے۔ جیسے حضرت ادریس، حضرت ابراھیم، حضرت یوسف، اور حضرت مریمؑ جن کو قرآن مجید نے صدیق کہا۔
مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں کہا
انَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
بے شک وہ سچا نبی تھا۔
اور اسی طرح کی تعبیر بھی حضرت ادریس اور مادرِ حضرت عیسیٰ جناب مریمؑ کے بارے میں بھی آئی۔
اور قرآن کی بعض آیات کے اندر صدیقین ،انبیاء کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں یعنی انبیاء کے بعد دوسرا بڑا مقام صدیقین کا ہے۔
سورہ نساء
وَمَنْ يُّطِعِ اللّـٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمَ اللّـٰهُ عَلَيْـهِـمْ مِّنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصَّالِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا (69)
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہو تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں میں سے ہیں، اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں۔
وہ ہستیاں جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں تمام کیں ان میں سب سے پہلا درجہ انبیاء کا ہے پھر صدیقین، پھر شہداء اور پھر صالحین۔
اور پھر پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ جو روز قیامت ان کے ساتھ ہمنشین ہو گا تو یہ بہترین دوست ہیں۔
درجہ دوم شہید
علمی اعتبار سے شہداء شہید کی جمع ہے یعنی گواہ۔
شہید اسے کہتے ہیں جو اعمال پر گواہ ہو۔
شہید یعنی جس کے اعمال اللہ کی ربوبیت اور ولی خدا کی اطاعت پہ گواہ ہوں۔
شہید کے مختلف مصداق ہیں۔ جنکا مختلف افراد پر اطلاق ہوتا ہے۔
وہ لوگ جو میدان جنگ میں اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں اور ایسے لوگ جو خدا کی اطاعت اور عبودیت کی راہ میں نیز جو لوگ ولی زمان ؑ کی اطاعت کی راہ میں چاہے بستر پر ہی کیوں نہ مرجائیں وہ بھی شہید ہیں۔
روایت امام محمد باقرعلیہ السلام۔
اس روایت سے ہمیں معلوم ہو گا کہ شہادت کے اندر اور کتنے پہلو ہیں۔
جو بھی تم میں سے عقیدہ ولایت اور معرفت رکھتا ہو اور مہدی عج حق کے انتظار میں ہو اور اپنے آپ کو اس راہ میں اس نے تیار کیا ہو (منتظر)
تو امام باقرؑ فرماتے ہیں؛
یہ اس شخص کی مانند ہے جو امام مھدی عج کی اطاعت میں جہاد کر رہا ہو۔ بلکہ خدا کی قسم! اس کا مقام اس شخص کی مانند ہے جو رسولؐ اللہ کے ہمراہ میدان جنگ میں جہاد کر رہا ہو۔ بلکہ خدا کی قسم! کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس نے رسول ؐ اللہ کی رکاب میں شہادت پائی ہو۔
پھر مولاؑ نے یہی آیت مجیدہ تلاوت فرمائی
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرُسُلِـهٖ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ۖ وَالشُّهَدَآءُ
روای نے پوچھا:
یہ جو آیت مجیدہ ہے یہ کن کے بارے میں ہے :
فرمایا: یہ تمھارے بارے میں ہے جو اہل ایمان اہل انتظار ہیں ۔ یہ آپ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے یہ مقام صدیق اور مقام شہید آپ لوگوں کا ہے۔
شہید لازمی نہیں کہ میدان جنگ میں قتل ہو ۔
منتظر بھی شہید ہے۔
روایات میں منتظر کا مقام میدان جنگ میں خون سے لت پت شہید کی مانند ہے۔
*جو بھی عملی میدان اور فکری میدان میں اللہ کی راہ میں دنیا سے جائے وہ شہید ہے۔*
اہل انتظار::
صدیق اور شہید ہیں
صدیق اس اعتبار سے کہ ان کا عمل ان کے قول و فعل کا آئینہ ہے۔
شہید اس اعتبار سے یہ ہمیشہ زندگی کے ہر موڑ پر خدا کے عبادت گذار بھی ہیں اور زمانے کے ولی کے اطاعت گذار بھی ہیں اور امام زمان عج کے لیے کوشش کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے
2۔ کفر کرنے والے لوگ
اس آیت میں بطور خاص ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو آیات پروردگار کو جھٹلاتے ہیں۔ اور یہ جہنمی ہیں۔
یہ لوگ اہل انتظار کے مد مقابل ہیں ، اللہ نے ان کو اتنی نعمات دیں لیکن انہوں نے حق کو جھٹلایا ہے ۔ تو یہ جہنم میں جائیں گے اور اصحاب جہیم کا درجہ پائیں گے۔
تحریر و پیشکش سعدیہ شہباز