تفسیر سورہ حدید
13 درس آیت (17,18)
آیات کا ترجمہ و تفسیر ، زمین اور زمین والے کیسے زندہ ہوتے ہیں ، امام مہدی عج کی عدالت سے زمین زندہ ہوگی ، صدقہ دینے کا دنیا و آخرت میں ثمرہ ،اللہ کو قرض دینے کا اجر
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ :
اِعْلَمُوٓا اَنَّ اللّـٰهَ يُحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِـهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ (17
اور جان لو کہ اللہ ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے، ہم نے تو تمہارے لیے کھول کھول کر نشانیاں بیان کر دی ہیں تاکہ تم سمجھو۔
اہم نکات:
آیت 16 میں پروردگار عالم نے دلوں میں خشوع و خصوع کی بات کی
آیت نمبر 17 میں پروردگار زمین کے مرنے کے بعد زمین کے زندہ ہونے کی بات کر رہا ہے۔ یعنی تعقل اور غور و فکر کی بات کر رہا ہے۔
زمین کا مرنے بعد زندہ ہونے سے مراد خزاں میں زمین میں مردگی چھاتی ہے لیکن بہار میں شادمانی ہوتی ہے۔ سرسبزی ، اور بیماریاں چلی جاتی ہیں اور تازہ ہوا کا آنا۔ خود لوگوں کے چہروں پر رونق آتی ہے۔ لیکن اس سے ایک اہم نکتہ مراد ہے۔
یعنی وہ زمین جو ظلم و جور کی وجہ سے مر چکی ہو گی۔ یعنی زمین پر رہنے والے لوگوں کی روح انسانیت کثرت گناہ کی وجہ سے مر چکی ہو گی۔
جب امام زمانہؑ عج ظہور فرمائیں گے اور جب حکومت بپا کریں گے عدالت ہوگی ۔ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو گا انشاءاللہ تو وہی روح انسانیت دوبارہ زندہ ہو گی۔ یعنی لوگ بعنوان انسان زندہ ہوںگے اور ان میں سے حیوانیت دب جائے گی۔
آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ زندگی فقط زمین پر ہے۔
آج سائنس اپنی ترقی کے باوجود دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کر رہی ہے لیکن دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار نہیں ملے۔
یہ زندگی ہےجو ہوا، پانی کے ذریعے زمین پر قائم ہے، یہاں تک کہ زمین کے اندر بھی بہت کچھ ہے۔ کچھ چیزیں جو نظر بھی نہیں آسکتی اور خاص آلات کی مدد سے دیکھی جا سکتی ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ یعنی اس کائنات کے اندر زندگی فقط زمین پر ہے۔
اور اصل زندگی کا مرکز اللہ تعالیٰ ہے۔
اِنَّ الْمُصَّدِّقِيْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاَقْرَضُوا اللّـٰهَ قَرْضًا حَسَنًا يُّضَاعَفُ لَـهُـمْ وَلَـهُـمْ اَجْرٌ كَرِيْـمٌ (18)
بے شک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا ان کے لیے دگنا کیا جائے گا اور انہیں عمدہ بدلہ ملے گا۔
اہم نکات:
آیت نمبر 16:دل کی بات ہے
آیت نمبر17:غور و فکر کی بات ہے
آیت نمبر 18: انسان کے کردار کی بات ہے۔
اللہ کی راہ میں سب سے بڑا عمل خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے یعنی محروم و نادار لوگوں کی مدد کو اللہ اجر کریم کے ساتھ انشاءاللہ اس کا ثواب اور معاوضہ ہمیں دے گا اور فرماتا ہے کہ دنیا میں تمھارا مال کم نہ ہو گا۔
انسان اگر چاہتا ہے کہ اگر لطف الہیٰ کو حاصل کرے تو اللہ کی راہ میں دے۔ یعنی قرضہ حسنہ۔
پروردگار عالم فرماتا ہے کہ جب تم لوگوں کو دیتے ہو تو گویا تم نے خدا کو دیا ۔ اور دنیا کی مشکلات میں مرد و زن دونوں یہ نیک کام کر سکتے ہیں اگر مدد نہیں کر سکتے تو قرضہ حسنہ ہی دے دیں۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں روز محشر ان کی توقع سے بڑھ کر اجر کریم ہو گا۔ یعنی جنت، اور خوبصورت زندگی۔
ایک موحد اور منتظر ایسے کام کر کے اپنے ولی زمانؑ اور پروردگار عالم کی توجہ حاصل کرتا ہے اور بہترین کام یہی ہے کہ معاشرے کے محروم طبقات کی مدد کرنا ہے۔
یہی کام ولی ؑ خدا بھی کرتے ہیں اور ایک ناصر امامؑ بھی اپنے مولا کی اتباع میں یہی کام کرتا ہے۔ اور اپنے پروردگار کی رضا کو حاصل کرتا ہے۔
تحریر و پیشکش
سعدیہ شہباز