امام مہدی عج عقل و منطق کی رو سے قسط 1
امام مہدی عج عقل و منطق کی رو سے قسط 1
امام مہدی عج عقل و منطق کی رو سے قسط 1
موضوع :وجود امام اثنا عشریہ کی رو سے
استاد حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر سیفی
تمہیدی گفتگو:
ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ مکتب کو دوسرے مکاتب سے جو امتیاز حاصل ہے وہ بحث امامت ہے اور یہ بحث امامت اتنی اہم کیوں ہے۔ ہمارے ہاں عالم اسلام میں دو طرح کی بحث امامت ہوتی ہے ایک امامت عامہ ہے اور ایک خاصہ ہے۔
امامت عامہ :
یعنی امامت کی کلی ابحاث یعنی امام کی تعریف کیا ہے اور ان کی ضرورت کیا ہے ان کی صفات کیا ہونے چاہیے اور امام کے ہونے سے اسلامی معاشرے کو کیا فوائد حاصل ہوں گے۔
امامت خاصہ:
یعنی ایک خاص امام مثلاً امام علی ؑ کی امامت پرکیا دلائل ہیں ۔ اس حوالے سے مخالفین کیا کہتے ہیں یا ان کے بعد امام حسن ؑ کی امامت پر کیا دلائل ہیں۔
یعنی خاص خاص امام کی امامت کو موضوع بحث قرار دینا۔
مکتب تشیع میں دونو ں طرح کی ابحاث اور دلائل ہیں۔
اور اس طرح امام زمانؑ عج الشریف کی امامت پر بھی دلائل موجود ہیں ۔ جو دونوں شیعہ سنی کتابوں میں موجود ہیں۔ اہلسنتؔ بھی ہماری طرح امام زمانہؑ کی امامت کو تسلیم کرتے ہیں۔
اسی غرض کے پیش نظر حضرت حجت کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے چار تمہیدی ابحاث ذکر کرتے ہیں۔
👈 1۔ امام ؑ کے وجود کی ضرورت
👈2۔ امام کے اوصاف
👈3۔ برھان صبر و تقسیم منطقی کے ذریعے مصداق یعنی فرد کا معلوم کرنا
👈 4 ۔ حضرت حجت عج کا وجود۔
1۔۔ امام ؑ کے وجود کی ضرورت:
تمام اسلامی مکاتب فکر اس بات کو مانتے ہیں کہ امام کا ہونا ضروری ہے۔ جب اہلسنتؔ پر سقیفہ کے بارے میں اعتراض ہوتا ہے۔ کہ کیوں کچھ اصحاب جن میں خلیفہ اول و دوم بھی تھے۔ پیغمبر اکرم ؐ کے بدن اطہر کو غسل و کفن دینے سے پہلے آنحضرت ؐ کی جانشینی کے پر توجہ دی۔
تو جواب میں کہتے ہیں کہ امت کی ہدایت و رہبری کا مسئلہ پیغمبر ؐ کی تجہیز و تکفین سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔
اس کا مطلب وہ بھی سمجھتے ہیں کہ امام کا ہونا ضروری اور واجب ہے۔ لیکن وہ اس کے طریقے کار اور کیفیت وجود میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن اصل وجود امام پر تمام مکاتب متفق نظر رکھتے ہیں۔
ہم ابتدا میں شیعہ اور سنی فرقوں میں ہر ایک کی نظر بطور خلاصہ بیان کرتے ہیں:۔
🪶1۔ امامیہ اثنا عشریہ:
امامیہ یعنی ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت واجب ہے۔ اس حوالے سے ہمارے بہت بڑے عالم خواجہ نصیر الدین طوسی کے کلام کا ایک خوبصورت حصہ درج ذیل ہے۔
وہ فرماتے ہیں۔
ترجمہ:
امامیہ کہتے ہیں کہ امام کا منصوب کرنا لطف ہے کیونکہ امام لوگوں کو اطاعت کے قریب کرتا ہے اورمعصیت سے دور کرتا ہے اور لطف اللہ تعالیٰ پر واجب ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ و سنی دونوں امامت پر متفق ہے۔
شیعہ نظریہ ۔ وجوب کلامی ہے۔ اور سنی کے مطابق وجوب فقہی ہے۔
وجوب کالامی سے مراد یہ ہے کہ خداکی عدالت، حکمت، جود، رحمت یا اس کی دوسری صفات کمال کسی فعل کے انجام دئے جانے کا تقاضہ کرتی ہے۔ اور چونکہ ایسے افعال کے انجام نہ دینے سے ذات خدا میں نقص لازم آتا ہے لہذا اس کا ترک کرنا محال ہے اور جب ترک کرنا محال ہے تو ایسے افعال کا انجام دینا واجب اور ضروری ہے۔ البتہ اس مقام پر واضح رہے کہ کسی دوسری ذات نے اس فعل کو خدا پر واجب قرار نہیں دیا بلکہ ذات خدا نے اپنی صفات کمال اور جمال کے تقاضہ پر اس فعل کو اپنے آپ پر لازم قرار دیا ہے۔ جیساکہ ارشاد الہیٰ ہے۔
” کتب ربکم علی نفسہ الرحمتہ: خدا نے اپنے اوپر رحمت کو واجب قرار دیا۔
” ان علینا للھدیٰ” ہم پر واجب ہے ہدایت دینا۔
پس امامیہ کا یہ نظریہ کہ خدا کی حکمت اور لطف الہی ٰ امامت کا تقاضا کرتی ہے کہ خدا امام ؑ کونصب کرے ۔ کیونکہ خدا ہماری ہدایت چاہتا ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور میں امام ہو۔