جناب حجۃ الاسلام والمسلمین علی اکبر مہدی پور سے گفتگو
مترجم : آغا علی اصغر سیفی
سوال: آپ کا آیندہ کے حوالے سے کیا پروگرام ہے
جواب: آیندہ ہمارے دو اساسی کام ہیں کہ جو پہلے سے شروع ہوچکے ہیں معجم احادیث المھدی (ع) اور معجم الآثار الواردۃ فی المھدی (ع) کے عنوان سے ہم چاہتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں تمام تر احادیث کہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ ھدی (ع) سے نقل ہوئی ہیں، ان کو واضح اور روشن کرکے بتایا جائے کہ یہ حدیث پہلی بار کس جگہ نقل ہوئی کن کن لوگوں نے نقل کیا اس کی سند اور اس کے متن کی بھرپور جانچ پڑتال کی جائے بعد میں اعلان ہوا کہ کچھ لوگ معجم الاحادیث الامام المھدی (ع) پر کام کررہے ہیں اور یہ لکھی جارہی ہے ہم نے اپنا کام چھوڑ دیا کہ چونکہ ایک گروہ وسیع وسائل اور سہولیات کے ساتھ یہ کام کررہا تھا لیکن جب یہ کتاب سامنے آئی تو ہم نے دیکھا کہ بہت سے عالی ، بہترین مطالب اور نکات سے خالی ہے اور ان سے کہیں زیادہ ہم دو آدمیوں نے احادیث جمع کرلیں تھیں ،
لہذا ہم نے دوبارہ یہ کام شروع کردیا یہ کہ ہم نے یہ کام دو عناوین سے شروع کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اھل تشیع کی احادیث اھل سنت سے مخلوط ہوں، چونکہ شیعہ احادیث مستند تھیں اس کے مرجع و ماوی آئمہ معصومین علیھم السلام تھے جبکہ اھل سنت کی احادیث اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے نقل ہوئی تھیں ہم نے انہیں جدا رکھا تاکہ زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے، معجم احادیث الامام المھدی (ع) جو کہ شیعہ ماخذات سے نقل شدہ احادیث پر مشتمل ہے شاید یہ دس جلدوں کی صورت میں شائع ہو جبکہ دوسری یعنی اھل سنت کے ماخذات سے نقل شدہ احادیث کی معجم ۵جلدوں پر شائع ہوئی، جب ہم نے یہ کام کرلیا تو ہم نے دیکھا کہ جن نسخوں سے یہ احادیث نقل ہوئی ہیں وہ بھی کثرت اور باہمی اختلاف کی بنا پر زیادہ مورد اعتماد نہیں تھے، لہذا ہم نے دوسری بحث خود ان ماخذات پر شروع کردی یعنی مرجع و منبی کتابیں مثلا غیبت نعمانی ، شیخ طوسی ، کمال الدین ، شیخ صدوق وغیرہ کہ جو بہت محکم ماخذات شمار ہوتے ہیں ان پر کام کیا اس میں ہمیں بہت سے خطی نسخوں کا سامنا کرنا پڑا، کوشش کی ہے کہ اس خطی نسخہ سے یہ احادیث نقل ہوں کہ جو ہر لحاظ سے مورد اعتماد ہوں ۔
دوسرا ہمارا کام وہ کتاب ہے کہ جس میں ہم کئی سالوں سے مشغول ہیں وہ یہ کہ جب بھی کسی حدیث میں ہمیں امام کا نام یا کوئی لقب ملتا ہے تو اسے جمع کرلیتے ہیں تقریبا ہمارے پاس امام کے ہزار اسماء اور القاب جمع ہوئے ہیں کہ جو سب مستند ہیں، انشاء اللہ عنقریب ایک کتاب کی شکل میں شائع ہونے والی ہے اس کے علاوہ ہم جس کام میں مشغول ہیں وہ ان کتابوں کو دوبارہ تیار کرنا ہے جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ضائع ہوگئیں، مثلا غیبت ابن شاذان یا غیبت ابن عقدہ کہ اس سے نقل شدہ ۱۳۰ احادیث ہمیں ملی ہیں جبکہ اصل کتاب ہمیں نہیں مل رہی وہ ۳۳۳ہجری میں فوت ہوئے اور احادیث مستند اس سے نقل ہوئیں، یا کتاب غیبت علی بن حمزہ بطائنی کہ امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھا اور فرقہ واقفیہ کے سرداروں میں سے تھا اس سے بہت جاذب احادیث کتابوں میں نقل ہوئی ہیں لیکن اس کی اصل کتاب غیبت اب موجود نہیں ہے اگرچہ اس کتاب سے نقل شدہ بہت سی احادیث موجود ہیں کہ جو دوبارہ اس کتاب کی تیاری میں مدد کرسکتی ہیں۔
سوال:آپ نے اپنی زحمات اور کوششوں میں امام (عج) سے کیا برکات اور آثار کا مشاھدہ کیا؟
جواب:اگر دیکھا جائے تو ہماری زندگی ان کے وجود مقدس کی بنا پر قائم ہے یعنی اس جہان میں ہر جاندار حتی جمادات بھی اپنی بقا میں ان کے مقدس وجود کے وسیلے کا محتاج ہیں، بہرحال یہ ایک طبعی سی بات ہے کہ امام مہدی علیہ السلام جو بھی ان کے حوالے خدمت یا کوشش کرتے ہیں اور کام مخلصانہ اور صادق جذبوں کے ساتھ انجام دیتے ہیں ان پر خصوصی عنایت رکھتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے خود بھی فرمایا : انا غیر مھملین لمراعاتکم ولا ناسین لذکر کم، لہذا ہم نے ہر وقت ان کا لطف محسوس کیا اور الحمد للہ ان کے وجود کے طفیل زندہ ہیں اور انہی کے صدقہ سے زندگی باقی ہے۔
سوال: کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنی تمام تر کوششوں کو امام زمانہ (عج) کے موضوع پر ٹہرا لیاہے۔
جواب: ہم بعد میں متوجہ ہوئے کہ اس جہان میں امام زمانہ (عج) سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں ہے اس کی مثال واضح سی ہے کہ نیپلون بونا پارٹ پر ۱۰۰۰۰۰ کتابیں لکھی جاچکی ہیں یعنی ایسا فرد جو ایک مختصر سے دور میں آیا اور بہت سی انسانی جانوں سے کھیلا اور چلا گیا ،یوں ھیرو بنا صرف اپنے ملک کی وسعت کی خاطر کیا کیا گھناؤنے جرم کیے، وہ کسی بھی حوالے سے ماڈل اور نمونہ نہ تھا لیکن پھر بھی اسقدر کتابیں اس کے بارے لکھی گئیں، لیکن امام زمانہ(عج) جو کہ حجت خدا ہیں اور ہمارے عقیدہ کے مطابق یہ جہان ان کے وجود کے طفیل ہے وہ ایک ہی حجت الھی باقی ہے اور آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ تک تمام انبیاء کا تنہا جانشین ہے، اس پر حد اقل نیپلون بونا پارٹ جتنی توجہ بھی نہ دی گئی ہم ان پر چھپی ہوئی اور غیر شائع شدہ تمام کتابوں کو جمع کیا تو وہ تین ھزار سے نہ بڑھیں بعض سمجتھے ہیں سب کچھ لکھا جاچکا ہے، حالانکہ اگر تحقیق کی جائے تو دیکھا جائے گا ابھی تو بہت سے موضوع تشنہ ہیں بہت سے سوال ہیں کہ جن کا جواب نہیں ملا اور یہ موجودہ کتابیں جواب دہ نہیں ہیں، ہم نے سوچا کوئی کام تو کرنا ہے کیوں نہ اپنے ولی کے لئے کام کریں جس کے سائے تلے ہیں اور اس کے طفیل زندہ ہیں ، ہمارا ایک سید دوست جو پچھلے ہفتے ایک شہر سے ہمارے پاس آئے ایک بات کہی جو بہت توجہ کی حامل ہے، میں نے ۲۰سال پہلے خواب دیکھا (اگرچہ خواب حجت نہیں ہے لیکن رہنما ہوسکتا ہے کبھی زندگی میں نور داخل کردیتا ہے )کہ ایک دلیل پر حضرت حمزہ(ع) حضرت سید الشہداء(ع) اور مالک اشتر موجود ہیں اور خطیب حضرات کو نمبر دے رہے ہیں ان سے اوپر ایک دہلیز پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام موجود ہیں، چونکہ اس وقت جوان تھا خوب مطالعہ کرتا تھا بہت مفید تقریریں کرتا تھا لہذا مطمئن تھا کہ حد اقل ۹۰ نمبر ضرور ملیں گے جب نزدیک گیا تو حضرت حمزہ(ع) نے ۶۰ نمبر دئیے، تو حضرت حمزہ(ع) سے کچھ عرض نہ کیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں شکایت کی مجھے ۶۰ نمبر ملے ہیں تو فرمایا جاؤ ان سے پوچھو واپس آیا جناب حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں عرض کیا چچا جان مجھے کیوں کم نمبر دئیے ہیں ؟ تو فرمایا اگرچہ ھر حوالے سے اچھی تقریر کرتے ہو لیکن ایک اہم چیز کم ہے وہ یہ ہے کہ تو نے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہو، اس کے بعد تو میں نے عہد کرلیا کہ تقریر کا تیسرا حصہ ان کی ذات سے خاص کردوں گا اور ان بیس سالوں میں اسی طرح کیا لہذا اہم اصلی نکتہ سے غفلت نہیں کرنی چاہئے جیسا کہ اتنی روایات میں ہمیں حکم ہوا ہے کہ ایاک ان تنصب دون الحجۃ ، بہرحال تقریر کا وہ جملہ ہمارے لئے راہ گشا ثابت ہوا اسی فضل الہی میں کھنچے چلے گئے اور جتنا آگے قدم بڑھایا حضرت کی عنایات ہمارے شامل حال ہوئیں کہ ہم نے مزید سے مزید کوشش کی ۔