امام زمان عج کی غیبت کےاسباب
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
درس 16: غیبت کے موضوع پر اہم سوالات کا جواب، کیا امام شہادت سے دوری اختیار کررہے ہیں؟ نیابت کا کیا فلسفہ ہے؟
موضوعِ سخن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ شریف کی غیبت کے حوالے سے کچھ سوالوں کا جواب
سوال: ایک سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ کہ پروردگار کی راہ میں شہادت بہت بڑی فضیلت ہے، امام ع اگر ظاہر ہوتے غائب نہ ہوتے تو زیادہ سے زیادہ اپنے آباؤ اجداد کی مانند اللّٰہ کی راہ میں شہید ہوجاتے۔ تو کیوں امام ع غائب رہ کر شہادت سے دوری اختیار کررہے ہیں ؟
جواب اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں اللہ کے جتنے بھی نیک بندے ہیں اور بالخصوص انبیاء، آئمہ ع سب کی آرزو شہادت ہے اور اس کے لیے لحظہ شماری کرتے ہیں۔ چونکہ اسے دینِ خدا کو استحکام ملتا ہے لیکن اگر خدا کسی کی زندگی کو چاہتا ہو اور ابھی نہیں چاہتا کہ وہ میری راہ میں موت کو گلے لگائے اور شہید ہو اور اس کی زندگی اتنی قیمتی ہو کہ اگر وہ زندگی شہادت میں بدل جائے تو وہ جو اہداف اللّٰہ اس کی زندگی سے لینا چاہتا ہے تو وہ سارے اہداف اور مقاصد ختم ہو جائیں گے۔ مثلاً امام مہدی صلوات اللہ علیہ اگر شہید ہوجائیں یعنی حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے سے پہلے اسی زمانے میں، تو اس کا مطلب کیا ہے یعنی جتنے انبیاء آدم ع سے لے کر خاتم ص تک اور ہمارے تمام ائمہ کی جو آرزوئیں تھیں سب ختم ہونگی اور دنیا کے مستضعفین جو انتظار کر رہے تھے کہ وہ حکومتِ عدل قائم ہو وہ سب آرزؤ سب حسرتیں ختم ۔ اس کے علاؤہ جتنی بشارتیں مختلف ادیان میں اور بالخصوص دین اسلام میں دی گئیں تو پھر وہ کیا وہ پھر کہاں جائیں ۔ جب اللہ نے طے یہ کیا تھا کہ امام قائم ع امام مہدی ع کے ذریعے وہ حکومت عدل حکومت الٰہیہ کو برقرار کرے گا تو خدا کیسے اپنے اس ارادے کو اور یہ خدا نے جو پیغامات دیئے تو کس طرح اس کے خلاف عمل کرسکتے ہیں۔لہذا امام ع کی غیبت درواقع ان کی زندگی کی بقا ہے تاکہ اس وقت تک مولا ع اپنی زندگی کو محفوظ رکھیں جب وہ وقتِ ظہور آئے پھر امام ع ظہور کریں اور دنیا میں اس حکومت کو برقرار کرے جس کا انتظار تمام انبیاء کرتے رہے، تمام صالحین کررہے ہیں، جس کی خاطر مولا علی ع نے 25 سال خانہ نشینی کو برداشت کیا۔ مولاحسن مجتبیٰ ع نے صلح کا زہریلا جام پیا اور امام حسین ع نے وہ مظلومانہ شہادت اور اپنے تمام دوستوں، عزیزوں احباب کے ساتھ اللّٰہ کی بارگاہ میں وہ جو جانیں دی ہیں وہ اسی لیے دی ہیں کہ جب بالآخر ہم سب اپنا حصہ ادا کریں تاکہ مہدی ع اس حکومت الٰہیہ کو بپا کرے چونکہ یہ سارے قیام یہ ساری چیزیں تسبیح کے دانوں کی طرح جڑی ہوئی ہیں اور یہ سب ختم ہوگا امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور ان کی حکومت میں
ہاں جب وہ ظہور فرما لیں اور حکومت کریں گے اس کے بعد اللہ جیسی موت چاہے گا ویسی ہی موت ہمیں حاصل ہوگی اور یقیناً ان ہستیوں کو اللہ بلند ترین مرتبے والی جو موت ہے یعنی شہادت اس سے نوازتا ہے۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ جب وہ اہداف ان کی زندگی کے حاصل ہونگے تو شہادت بھی مل جائےگی ۔
سوال : اس کے علاؤہ ایک سوال یہ ہے کہ غیبت میں جو نائبین ہیں امام ع کے، ان کے بارے میں کچھ وضاحت کیجیے؟
جواب سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نائبین کی جو تاریخ ہے وہ ہمارے دسویں اور گیارہویں امام ع کے زمانے سے شروع ہوچکی تھی، یعنی امام نقی علیہ السّلام اور امام عسکری علیہ السلام یہ دو ہستیاں ہمیشہ نظر بند رہی ہیں اور ظالم عباسی جو حکومت ہے ان کا اس زمانے میں آئمہ ع پر بہت زیادہ سختی کنٹرول اور حتیٰ شیعوں سے ملنے جلنے سے منع کیا ہوا تھا
خلاصہ یہ ہے کہ ایک قسم کا ان کا گھر جو ہے وہ قید خانہ تھا۔ اور اس کے علاؤہ قید خانوں میں بھی ڈالتے تھے، تو ہمارے آئمہ ع جو ہیں ان کا رابطہ شیعوں سے مکمل طور پر کٹ چکا تھا تو پھر شیعوں کے اندر وہ ہستیاں جو اہلِ علم تھیں اہلِ فضل اور اہل عدالت تھیں اور آئمہ ع کی مورد اعتماد تھیں اور پاکیزہ ہستیوں کو مولا ع نے بعنوانِ نائب چنا اور ان کو اپنے اور شیعوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیا۔ تاکہ لوگ نائبین کو اپنی مشکلات بیان کریں اور ان سے حل لیں اور نائبین بھی اماموں سے رابطہ کرتے تھے اور اکثر چیزوں کا تو وہ خود جواب دے دیتے تھے لیکن بعض جگہوں میں امام ع سے رہنمائی لے لیتے تھے۔ اور یہی چیز آگے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت میں بھی منتقل ہوئی۔
امام زمانہ ع کی زندگی کے تین حصے ہیں۔
👈ایک مولاع کا بچپن کا زمانہ جس سے ہم کہتے ہیں مخفی زمانہ
👈پھر پانچ سال کی عمر میں آپ نے امامت پر فائز ہوئے اور غیبت صغریٰ شروع ہوئی جو ستر سال تک جاری رہی
👈 اور اس کے بعد پھر غیبتِ کبریٰ
غیبت صغریٰ میں امام ع نے رسمی طور پر اپنے نائب معین کیے یہ چار جو نفر ہیں جنہیں ہم نائبِ خاص کہتے ہیں۔ جن میں سے سب سے پہلی ہستی بالترتیب۔۔۔۔
1️ جناب عثمان بن سعید عمری
2️⃣ جناب محمد بن عثمان بن سعید عمری
3️⃣ حسین ابن روح نوبختی
4️⃣ علی ابن محمد سمری
یہ چار ہستیاں بالترتیب نائب بنیں اور یہ امام ع اور لوگوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھیں۔ اور اس کے بعد جب علی بن محمد سمری رح کی وفات کا وقت آیا تو اس کے بعد غیبتِ کبریٰ کا اعلان ہوا۔ اب غیبتِ کبریٰ میں لوگ کیا کریں چونکہ نائبین خاص نہیں ہیں تو اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ غیبتِ صغریٰ میں ہی مولا ع نے غیبتِ کبریٰ کے اندر فقہی اور دینی مسائل میں رجوع کرنے کے لیے لوگوں کو بتا دیا تھا کہ وہ ہمارے احادیث کے جو راوی ہیں یعنی علماء اور فقہاء کہ جن کا کام ہی محمد و آل محمد ﷺ کے علوم کو حاصل کرنا اور اس کو نشر کرنا ہے ان کی طرف رجوع کریں اور اپنے مسائل کا حل ان سے پوچھیں اور وہ آپ پر حجت ہیں اور امام ع فرماتے ہیں کہ میں اِن پر حجت ہوں۔
مولا ع کا مشہور فرمان ہے کہ جو جناب عثمان بن سعید کے ذریعے صادر ہوا جس میں مولا ع فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔
أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةَ اللّٰه عَلَيْهِم
ترجمہ:جو بھی تمہیں مشکلات پیش آئیں اپنی زندگی میں دینی فقہی اس میں ہمارے احادیث کے جو راوی ہیں یعنی یہی علماء ان کی طرف رجوع کریں یہ میری طرف سے آپ پر حجت ہیں اور میں ان پر اللہ کی طرف سے حجت ہوں) ۔
اب ظاہر ہے کہ یہ جو ہستیاں ہیں یعنی علماء ان میں غور کرنا چاہئیے ہر قسم کا عالم یا ہر قسم کا فقیہہ اس کی طرف ہم رجوع نہیں کرسکتے صرف اس کی طرف رجوع کریں گے کہ جس کے اندر شرائط ہوں، جیسے ہم امام عسکری علیہ السلام کے فرمان میں دیکھتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔( وہ فقہیہ جو اپنے نفس کا محافظ ہو اپنے نفس کو کنٹرول کرے اور انحرافات سے اسے محفوظ رکھے اور اہلِ صبر تحمل ہو اور دین کا محافظ ہو دین میں کسی قسم کا یعنی انحراف نہ ہونے دے اور اپنی خواہشات کا مخالف ہو اور اپنے امام ع کا مطیع ہو تو عوام پر ضروری ہے کہ اس فقہیہ کی تقلید کرے اور یہاں سے تقلید شروع ہوئی۔
تو غیبت صغریٰ میں جو نائبین تھے وہ مولا ع اور لوگوں کے درمیان تمام امور کے اندر رابطے کا ذریعہ تھے۔ غیبتِ کبریٰ چونکہ طولانی ہے غیبتِ صغریٰ محدود تھی تو غیبتِ کبریٰ کے اندر مولا ع نے شرائط بیان کر دی ہیں کہ علم و فضل کے ساتھ کس طرح کی شرائط ہوں تو پھر آپ دینی مسائل میں صرف ان سے رجوع کریں اور ان سے محمد و آل محمد ﷺ کی رو سے دینی رائے ان سے لیں اور اس صورت میں یہ نائب کہلاتے ہیں ۔۔۔۔۔ البتہ یہ نائبِ عام ہیں غیبت کبریٰ میں چونکہ یہاں کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا، بطورِ کلی شرائط بیان کی گئی کہ جو ان شرائط پر صادق آتا ہے وہ نائب ہے۔ لیکن غیبتِ صغریٰ میں مختصر دور تھا وہاں مولا ع باقائدہ نام لیتے تھے کہ فلاں ابنِ فلاں میری طرف سے نائب ہے۔
تو الحمد للّٰہ آج ہم غیبت کبریٰ میں براہِ راست امام زمانہ علیہ السلام کی سرپرستی میں ان کی نائبین سے استفادہ کررہے ہیں ان نائبین کا اہم کام یہ بھی ہے کہ لوگوں کی دینی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کو ظہور کے لیے تیار کریں اور جب مولا ع کا ظہور ہوگا تو یہ سب لوگ ہر اول دستہ ہونگے ان شاءاللہ ۔
پرودگار ہم سب کو اپنے زمانے کے امام ع کا فکری ،علمی اور عملی ہر حوالے سے مدافع سرباز بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
ترتیب و پیشکش: نازش بنگش