امام زمان عج کی غیبت کےاسباب قسط 13
امام زمان عج کی غیبت کےاسباب قسط 13
امام زمان عج کی غیبت کےاسباب
درس 13: احادیث و روایات کی رو سے غیبت کے اسباب
دوسرا سبب جان کی حفاظت پر مزید احادیث
تیسرا سبب گذشتہ انبیاء کی سنت کا امام قائم عج میں جاری ہونا
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
ہماری گفتگو کا موضوع امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کا فلسفہ ہے۔
اس حوالے سے جو دوسرا سبب ہم نے بیان کیا احادیث اور روایات کی رو سے وہ امام زمانہ ع کی جان کی حفاظت ہے۔
اس حوالے سے احادیث اور روایات کافی ہیں ہم نے پچھلے درس میں امام صادق ؑ سے مفصل روایت آپ کی خدمت میں بیان کی۔ آج مزید اس موضوع پر روایات بیان ہونگے۔
امام صادق ؑ کی نقل کردہ حدیث
امام صادق ؑ نبی اکرم ﷺ سے حدیث نقل کرتے ہیں اور یہ حدیث بحار الانوار میں موجود یے۔ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ
لَابُدَّ لِلغُلَامِ مِن غَیبَةٍ. فَقِیلَ لَهُ: وَ لِمَ یَا رَسُولَ اللّٰهِ ، قَالَ: یَخَافُ الْقَتْل
ترجمہ: *وہ جوان(امام قائم ع) حتماً غائب ہونگے،پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کیوں غائب ہونگے فرمایا گیا کہ جان کا خوف ہوگا اس وجہ سے وہ غائب ہونگے،یعنی انہیں خوف ہوگا کہ قتل کیے جائیں گے۔*
امام باقر ؑ کی روایت
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام باقر ؑ سے جناب زرارہ نقل کرتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ *إِنَّ لِلْقَائِمِ غَيْبَةً قَبْلَ ظُهُورِهِ قُلْتُ وَ لِمَ قَالَ يَخَافُ وَ أَوْمَى بِيَدِهِ إِلَى بَطْنِهِ قَالَ زُرَارَةُ يَعْنِي اَلْقَتْلَ*
ترجمہ: *وہ جوان ظہور سے پہلے غیبت اختیار کرے گا، ہم نے پوچھا کیوں ایسا ہوگا، فرمایا کہ وہ خوف رکھیں گے۔اس کے بعد انہوں نے اشارہ کیا اپنے شکم کی طرف اپنے جسم کیطرف۔۔۔۔۔زُرارہ نے آگے سے تشریح کی اس اشارے کی کہ مولا ؑ کے اشارے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں قتل کا خوف ہوگا*.
ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ قتل کا خوف یا جان کا خوف یہ احادیث میں بیان ہوا ہے لیکن ہرگز اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ امام ؑ اللّٰہ کی راہ میں جان دینے سے ڈرتے تھے۔ نہیں یہ احتیاط اسی طرح کی ہے جس طرح نبی کریم ﷺ نے جب ہجرت کی اور پیچھے کفار کے دستے ان کی جان کے درپے کا تعاقب کررہے تھے تو نبی کریم ﷺ نے بھی جان کا خوف یا جان کو بچانے کے لیے غار میں پناہ لی۔غارِ ثور اور وہاں تین دن تک غیبت اختیار کی۔ یہ اسی طرح کا خوف ہے، نبی خدا ہو یا امام ع ہو یا کوئی بھی حجت ع وہ اللہ کی راہ میں تو جان دینے سے نہیں ڈرتے،لیکن جب خدا کی مصلحت یہ ہو کہ ابھی ان کی جان باقی رہے اور اللہ نے ان سے کام لینے ہوں تو پھر وہ اپنی جان کو بچاتے ہیں۔تاکہ خدا کی منشاء کو پورا کرے۔اس وقت قتل یا جان کا خوف اس لیے ہوتا ہے کہ زندگی مقدم ہوتی ہے ان کی وفات یا شہادت پر۔
اس طرح کی روایات اور بھی ہیں لیکن یہیں پر ہم اکتفاء کرتے ہیں اور آخر میں بہت بڑی ہستی مرحوم شیخ طوسی علیہ الرحمہ جو کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کے شاگردوں میں سے ہیں اور حوضہ علمیہ نجف اشرف کے بانی ہیں۔ وہ اپنی کتاب غیبتِ طوسی میں مولا امام زمانہ ؑ کی غیبت کا فلسفہ بیان کرتے ہیں ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ غیبت کی جو وجوہات یا حکمتیں ہیں ان میں جو بھی چیزیں بیان ہوئی ہیں جیسے شیعوں کا امتحان ہے مثلاً یہ ساری چیزیں بعنوانِ حکمت ہیں۔ اور یا ایک قسم کا یوں کہہ لیں فائدہ ہے غیبت کا لیکن فلسفہ یا سبب نہیں ۔۔۔۔فلسفہ اور سبب جو ہے وہ اگر ہم کسی چیز کو قرار دیں گے تو وہ یہی قتل ہونے کا خوف ہے۔ یعنی یہ جو دوسری وجہ ہم بیان کررہے ہیں اس کو شیخ طوسی علت یا حقیقی وجہ غیبت کی بیان کرتے ہیں۔کہ اس کو ہم حکمت نہیں کہیں گے اس کو ہم یعنی علت کہیں گے کہ اصل میں مولا کی غیبت کی وجہ یہ ہے۔ کیونکہ اللہ امام ؑ کی زندگی چاہتا ہے اور اگر امام ؑ اپنی حفاظت نہ کرے تو شہید ہوجاتے اور غیبت کے ذریعے انہوں نے اپنی حفاظت کی یعنی جو خوف تھا قتل ہونے کا اس کو انہوں نے غیبت کے ذریعے دور کیا۔
تیسری وجہ گزشتہ انبیاء کی سنت کو امام زمانہ ؑ میں جاری کرنا
تیسری وجہ جو ہماری روایات میں بیان ہوئی ہے اور یہ بھی بعنوانِ حکمت ہم بیان کرتے ہیں۔ وہ ہیغمبرانِ گزشتہ یعنی گزشتہ جو ہمارے نبی ہیں ان کی سنت کا حجتِ خدا امام زماں ؑ میں جاری ہونا ہے۔
ہم نے اس سے پہلے بھی بیان کیا کہ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کوئی پہلی غیبت نہیں ہے اس سے پہلے بھی انبیاء غائب ہوتے رہے،جیسے ابھی ہم نے نبی کریم ﷺ کی تین روزہ غیبت بیان کی غارِ ثور میں۔ اس سے پہلے بھی نبی غائب ہوتے رہے کوئی کچھ مہینوں کے لیے کوئی کچھ سالوں کے لیے ۔۔۔۔۔
حتیٰ کچھ نبی بڑا طولانی عرصہ جیسے حضرت عیسیٰ ابنِ مریم ابھی تک غائب ہے۔ بعض نبی دو مرتبہ غائب ہوئے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں ذکر ہے وہ دو مرتبہ غائب ہوئے۔ حضرت یوسف ؑ، حضرت ابرہیم ؑ بہت سارے انبیاء کا نامہے جنہوں نے غیبت کو اختیار کیا۔۔۔۔ کیوں ؟ وجہ یہی تھی کہ ان کی بالآخر اہم ذمہ داریاں تھیں اور ایک زمہ داری یہ بھی تھی کہ اپنی جان کو بچائیں تاکہ حقائق اور دینِ خدا اور فرامین الہی لوگوں تک پہنچائیں۔تو انہوں نے اپنی جانوں کو غیبت کے ذریعے اگرچہ کچھ دنوں کی ہو کچھ مہینوں کی ہو، کچھ سالوں کی ہو اس کے ذریعے محفوظ کیا ۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کو خطرہ ہوا تو اللہ نے اٹھا لیا آسمانوں میں اب وہ بھی غائب ہیں لیکن ابھی ان کی بعنوانِ پیغمبر ذمہ داریاں پوری نہیں ہوئیں اب جب امام زمان ع ظہور کریں گے تو وہ بھی نازل ہونگے اور باقی ماندہ ذمہ داریاں پوری کریں گے ۔
امام صادق علیہ السلام کی روایت
اس حوالے سے بھی روایت موجود ہے۔ جو جناب سدیر نے امام صادق ؑ سے نقل کیا جناب سدیر کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق ؑ سے یہ سنا کہ فرما رہے تھے *إِنَّ لِلْقَائِمِ مِنَّا غَيْبَةً يَطُولُ أَمَدُهَا فَقُلْتُ لَهُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ لِمَ ذَالِك قَالَ لِاَنَّ اللَّه عَزَّ وَ جَلَّ أَبَى إِلَّا أَنْ تَجْرِيَ فِيهِ سُنَنُ الْأَنْبِيَاء (ع) فِي غَيْبَاتِهِمْ
ترجمہ: *ہمارے قائم کے لیے ایک طولانی غیبت ہے یعنی جس کی مدت طولانی ہے، میں نے سوال کیا کہ اے فرزندِ رسول کیوں ایسا ہے یعنی امام قائم ؑ غائب ہوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ امام قائم ؑ میں انبیاء کی سنتیں جو ان کی غیبت کے حوالے سے تھیں وہ امام قائم ع میں جاری ہوں، یعنی جس طرح اس سے پہلے نبی غائب ہوتے رہے اور کچھ عرصہ غائب رہے اور اس کے بعد انہوں نے اپنی ذمہ داری کو آکر ادا کیا اسی طرح کی سنت امام قائم ؑ میں بھی جاری ہو۔*
اب آپ دیکھیں ہمارے بارہ اماموں میں پہلے گیارہ امام غائب نہیں ہوئے۔ بارہویں امام کے حوالے سے یہ فرمان ہے کہ ان کے اندر گزشتہ تمام انبیاء کی سنتیں جاری ہونگی اور ایک سنت انبیاء کی یہ تھی کہ جب مصلحت ہوتی تھی تو غائب ہوجاتے تھے کچھ عرصہ کے لیے یا لمبا عرصہ کے لیے تو وہی سنت امام قائم ؑ میں بھی جاری ہوگی اور اللہ یہ چاہتا ہے کہ قائم ؑ گزشتہ انبیاء کی سنتیں بھی ان کے وجود میں جاری ہوں ۔ یہ روایت شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی کتاب کمال الدین میں موجود ہے۔
اسی طرح اور بھی وجوہات ہیں اس غیبت کے لیے ان شاءاللہ بالترتیب بیان ہونگی۔
پرودگار کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو مولا امام زمان عجل اللہ فرجہ شریف کے حوالے سے صحیح معنوں میں معرفت حاصل کرنے کی اور اپنے اردگرد جو لوگ ہیں ان کے سوالوں کا صحیح جواب دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین، تاکہ مولا ؑ کی معرفت سب کے لیے حاصل ہو سب ناصر اور خادم بنیں امام کے اور ان کے ظہور کے لیے راہ ہموار کریں۔
ترتیب و پیشکش: نازش بنگش