تازہ ترین پوسٹس

اخلاق مہدوی_ عصر غیبت میں اہل ایمان کا اخلاق کیسا ہونا چاہیے؟

اخلاق مہدوی

عصر غیبت میں اہل ایمان کا اخلاق کیسا ہونا چاہیے؟
کیوں ظہور میں تاخیر ہو رہی ہے؟
قم المقدس میں مدرسہ امام کاظمؑ میں علماء اور طلاب سے خطاب

استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب


اما بعد فقال امام صادقؑ:
: مَنْ سَرَّهُ اَنْ يَكُونَ مِنْ اَصْحابِ الْقائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ، وَلْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحاسِنِ الاَْخْلاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا
“جو چاہتا ہے کہ اصحاب امام زمانہ(عج) میں شامل ہو اسے چاہیے کہ ظہور کا انتظار کرے اور پرہیزگار بنے اور اچھا اخلاق اختیار کرے۔”

 

ہم نے کل کے پروگرام میں ایک سلسلہء گفتگو آغاز کیا کہ موجودہ دور میں ہمارے اخلاق وہی وظائف منتظرین ہیں۔ آج چونکہ شب جمعہ بھی ہے اور شب اجابت دعا بھی ہے۔ یہ وہ رات اور وہ مہینہ ہے کہ جس میں انسان کا ہرعمل، ہر ذکر، ہر کلمہ اس کی سعادت اور اس کی مغفرت کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اس ماہ کو ماہ برکت و رحمت اور ماہ مغفرت قرار دے۔

یہ توفیق الہیٰ ہے کہ بالآخر ایسی محافل منعقد ہوتی ہیں کہ جہاں اپنی اصلاح اور تربیت پر گفتگو ہوتی ہے اور یقیناً مورد لطف پروردگار ہے۔ لیکن! بہت سارے لوگ ہیں کہ جو اس مہینے کو غفلت کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں اوریہ جو ہمیں کچھ نہ کچھ توجہ حاصل ہے۔ یہ بھی پروردگار کی خاص عنایت ہے ہم پر۔

جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص جو بہت زیادہ ذکر خدا کیا کرتا تھا تو اس کو شیطان نے کہا کہ تو جو اتنا ذکر کرتا ہےتو تو فضول پکار رہا ہے اور کوئی رب نہیں ہے۔ کائنات میں کچھ بھی نہیں ہے۔

جیسے بعض لوگ ایسے سوالات بھی اس قسم کے کرتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہے اتنا پکارتے ہیں پھر ہماری آوازیں اور عبادتیں کہاں جاتی ہیں

ابلیس نے کہا کہ تو جو اتنا ذکر کرتا ہے تو کیا کبھی اللہ نے بھی تجھے یاد کیا اور تجھ سےکوئی بات کی ہے؟ تو تو بس ایک طرفہ محبت اور ذکر کرتا ہے۔ اب یہ پریشان تو ہوا کہ ہے تو حقیقت یہ تو فقط میں ہی اللہ کا ذکر کرتا ہوں اور اس نے تو کبھی مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔

اب اس زمانے میں ظاہر ہے کہ کوئی ولی خدا یا پیغمبرؑ تھے کہ جن کے پاس یہ شخص گیا اور اپنا سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ فرما رہا ہے کہ یہ میرا ذکر جو تیری زبان پر جاری ہے اور تو مجھے یاد کرتا ہے تو یہ میں ہی تو ہوں جو تجھے یاد کرتا ہوں۔ ورنہ بہت سارے لوگ ہیں کہ جنہیں میں اجازت نہیں دیتا کہ میرا ذکر کریں۔ یہ جو تیری زبان پہ میرا ذکر جاری ہے درحقیقت یہ میں تجھ سے کلام کرتا ہوں۔ اور حقیقت بھی ایسی ہے۔
سبحان اللہ!

اسی سے ملتا جلتا ایک قصہ ہے۔ ایران میں ایک بہت بڑی ہستی اور ایک بہت بڑے واعظ گذرے ہیں۔ جناب کافیؒ یہ اوائل انقلاب اور انقلاب سے قبل بہت بڑے واعظ تھے۔ ان کی مجالس چھپی ہوئی بھی موجود ہے اور نیٹ پر بھی موجود ہیں۔ ان کا بھی ایک واقعہ ہے۔

عزیزان،
بعض مرتبہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا کوئی کمال ہے۔ لیکن! درحقیقت یہ لطف پروردگار ہوتا ہے ۔ لطف ولیؑ ہوتا ہے۔

جناب کافیؒ کہتے ہیں کہ جب میں مجالس پڑھنے جاتا تھا تو کبھی کبھی لوگ مجھے مال امامؑ ، خمس وغیرہ دے دیتے تھے کہ آپ تو جگہ جگہ جاتے ہیں اگر آپ کو کوئی مومن یا مستحق نظر آئے تو آپ اسے آگے دے دیجئے گا۔

تو انہوں نے اپنی عبا قبا کی ایک جیب اس کام کے لیے مخصوص کر لی اور جب کوئی مستحق نظر آتا تھا تو اس کو دے دیتے تھے۔

اب ظاہر ہے کہ کوئی شخصیت عالم بھی ہو اور دینے والی بھی ہو تو وہ زیادہ مورد توجہ قرار پائے اور بہت زیادہ لوگ ان کی جانب آنے لگے یعنی دینے والے بھی اور لینے والے بھی۔ یعنی وہ جو لینا چاہتے تھے وہ مشکلات کا شکار تھے۔ لیکن! ایسا شخص جسے پروردگار منتخب کرتا ہے کہ وہ ایسا کام کرے تو پھر اسے زحمتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔

اب ان کے لیے شب و روز نہ رہے۔ بسا اوقات، رات کو یا آدھی رات کو مومنین آجاتے تھے کہ قبلہ ہمیں ضرورت ہے۔ کوئی لطف کریں۔ وہ کہتے ہیں ایک رات میں سفر سے لوٹا تو آدھی رات کسی نے زور سے دروازے پر دستک دی۔ میں نے مشکل سے اٹھ کر دیکھا کہ کون ہے۔

آدمی نے کہا: آغا میں بڑے دور سے آیا ہوں میرے گھر میں مصیبت ہے اگر آپ کے پاس کوئی مالِ امامؑ ہے تو مجھے لطف کر دیں۔ تو اٹھے اور وہاں گئے اور قبا سے پیسے نکالے اور جاتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے چونکہ تھکے ہوئے تھے۔ اور اسی وقت ان کی آنکھ بھی لگی تھی۔ سوچنے لگے کہ یہ کیا کام میں نے اپنے ذمہ لے لیے ہے نہ تو میرے لیے دن رہا نہ ہی رات رہی۔ بس اسی حالت میں جا رہے تھے اور دروازے پر جا کر اسے دے دیا۔

واپس جب بستر پر لیٹے اور آنکھ لگی تو زندگی میں وہ پہلی رات تھی کہ حضرت بقیۃ اللہ الشریفؑ عج کی زیارت ہوئی۔

اللہم صلی علی محمدؐﷺ وآل محمدﷺ و عجل فرجھم

پہلی بار مولاؑ کی زیارت ہوئی۔ مولاؑ عج نے مسکرا کر کہا کہ لگتا ہے کافی تھک گئے ہو۔ ہم نے ایک ذمہ داری تمھیں سونپی تھی کہ تم خدمت مومنین انجام دو۔ لیکن! آج لگ رہا ہے کہ تم تھک گئے ہو۔ ٹھیک ہے آج کے بعد ہم آپ کو زحمت نہیں دیں گے۔ بس یہی سننا تھا کہ ان کی آنکھ کھل گئی اور اس کے بعد اتنا گریہ کیا کہ مولاؑ عج مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ امور آپؑ عج کی جانب سے ہیں۔

بسا اوقات ہم تبلیغ کے لیے جاتے ہیں ، بسا اوقات لوگوں کے بہت سے مسائل کو حل کر رہے ہوتے ہیں۔ تو وہاں ہمیں فخر سے پھولے نہیں سمانا چاہیے کہ پتہ نہیں ہم کیا بن گئے ہیں۔ بلکہ! بارگاہ پروردگار میں تشکر کرنا چاہیے کہ بالآخر اس کے ولیؑ عج کی نگاہ میں آگیا ہوں اور ان کی نظر کرم ہے مجھ پر۔

کل عرض کیا تھا کہ امام ؑ صادقؑ کا فرمان ہے کہ جس نے امام کے اصحاب میں سے شمار ہونا ہے وہ صاحب ورع بنے۔

مقام ورع بہت بلند مقام ہے۔
اس کا سادہ سا معنیٰ یہ ہے کہ متقی محرمات سے پرہیز کرتا ہے۔ صاحب ورع جہاں شبہہ حرمت ہو وہاں سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ یعنی مولاؑ عج اپنے اصحاب کو سب سے پاکیزہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔

فرمایا کہ تمام حُسن اخلاق اس کے وجود میں عیاں ہوں۔ 
اللہ اکبر!

کیوں اتنی زیادہ تاکید ہے ان چیزوں کی؟
کیونکہ بالآخر جب قیام ہونا ہے تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے حکومت کرنی ہے۔

آئمہؑ سے یہ پوچھا گیا کہ جب ہر نبیؑ آتا تھا اور وہ اپنی ملت کو خود تیار کرتا تھا۔ پھر کیوں ضروری ہے کہ قائم کے آنے سے پہلے لوگ تیار ہوں؟؟

اس لیے کیونکہ قائمؑ عج کے قیام کا آغاز حکومت الہیٰ کا قیام ہے۔ اور اُس وقت ملت کو تیار کرنے کا وقت نہیں۔ ملت کو پہلے تیار ہونا ہے کیونکہ سب کچھ بتایا جا چکا ہے۔

313 انصار امام زمانؑ کی صفات موجود ہیں اگر ہم ابھی اپنے موبائل پر اتنا لکھیں کہ انصار امام زمانؑ عج تو ایک فہرست ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ ہم خود اس وادی میں قدم نہیں رکھ رہے اور محض انتظار کر رہے ہیں جبکہ یہ انتظار بھی نہیں ہے۔

بعض لوگ شکایت بھی کرتے ہیں کہ مولاؑ عج کیوں نہیں آرہے۔ جبکہ مولاؑ عج ہماری تیاری پر آئیں گے۔ ہمیں دیکھ کر آئیں گے کہ ہم تیار ہیں۔

لیکن! یہ سارا سلسلہ تب ہو گا جب سپاہ تیار ہوگی۔
کل ہمدلی کا تذکرہ ہوا اب
ہمدلی کو لیں ہم خود ہمدلی کی جانب نہیں آرہے کیونکہ اپنے نفس سے جنگ ہے۔ اور ہم اپنی انا اور اکڑ میں ہیں۔

قائمؑ عج کے انصار دلی طور پر ہمدل ہیں۔ ایک دوسرے کا احساس کرنے والے ہیں۔

استاد محترم فرماتے ہیں کہ ” اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ امامؑ عج کی حکومت کا آغاز کب ہوگا۔ یعنی جب ہمارے اندر تولیٰ پیدا ہوگا۔ اور جب ہمارے اندر فقط اہل ایمان کی محبت ہوگی اور اہل ایمان کا کوئی کینہ اور بغض نہیں ہوگا۔ ”

پھر ہم ساری چیزیں ٹھیک ہوتی دیکھیں گے ۔

پھر ہم یہ ساری تنظیمیں لوگوں کو تقسیم نہیں کریں گی بلکہ لوگوں کے کام تقسیم کریں گی۔ خود تسبیح کے دانوں کی طرح اکھٹی ہونگی۔

آج تو لوگ تقسیم ہو رہے ہیں۔

چند دن قبل ایک شخص نے سوال بھیجا:
کہا: کیا وجہ ہے کہ لبنان میں سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت پیدا ہوئی ، ایران میں اتنے عظیم رہبر پیدا ہوئے ۔ پھر کیوں پاکستان میں ایسے رہبران نظر نہیں آرہے جو قوم کو اکھٹا کریں۔ ؟؟

جواب :
استاد محترم نے فرمایا: کہ ہم سید حسن نصراللہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں کہ حوزہ میں انہوں نے کس طرح کی زندگی گذاری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بیش ترین وقت علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب نفس پر صرف کیا ہے اور اپنے نفس سے لڑیں ہیں۔

اس لیے اخلاقی مباحث کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ کیونکہ ہماری زندگی کے زیادہ مسائل شب و روز، اخلاقیات کے گرد گھوم رہے ہیں۔ لیکن! اس کے لیے درس ہفتے میں ایک دن ہے جب کہ اخلاقی مباحث ہر روز ہونی چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ادارے انتظام کرے ہمیں خود ہر روزکوئی نہ کوئی اخلاقی کتاب کو اپنے مطالعہ میں شامل کرنا چاہیے۔ اس میں انبیاؑء ، آئمہؑ، شہداء، اساتذہ، عرفاء کے واقعات ہیں۔ یہ وہ رزق ہے جو ہر روز ملنا چاہیے پھر ہم تھوڑی سی شائستگی پیدا کریں گے اور اس نفس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں یہ جو سارے مسائل ہیں یہ اس نفس کے تماشے ہیں۔

ان شخصیات نے سب سے زیادہ کام اپنی تربیت پر کیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنے ممالک میں قوم کے امور سنبھالے تو یہ اب اہل ہو چکے تھے۔ کیونکہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں فقط انکے تحمل اور برداشت میں تھے یہ دنیا کے بڑے بڑے مسائل کو دیکھ رہے تھے ان کی دید اور ان کی نگاہ کا افق وسیع ہو چکا تھا۔ اور یہ میں اور آپ کے مسائل میں نہیں پڑتے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر علمائے کرام یہاں سے پڑھ کر جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر قوم کو تقسیم کر دیتے ہیں۔

عرض خدمت یہ ہے کہ امام زمانؑ عج کے ناصران کوئی عام سی ملت نہیں ہے ۔ ان کے لیے بہت سا کام درکار ہے۔ یہ تو میرے مولاؑ عج ہیں کہ جن کی غیبت طولانی ہو رہی ہے۔ بارہ سو سال ہو گئے ہیں۔ ہماری تو زندگیاں مختصر ہیں لیکن! ملتیں آرہی ہیں، جارہی ہیں۔ لیکن! مہدیؑ کو 313 ناصر نہیں مل رہے ہیں وہ دس ہزار جوان نہیں مل رہے ہیں۔

یہ کہاں سے شروع ہوں گے یہیں سے اور انہیں جگہوں سے شروع ہونگے۔

امام کے یاران 313 اور دس ہزار جوانوں کی خصوصیات موجود ہیں۔

شیخ مفیدؒ کا وہ فرمان کہ جس میں امامؑ عج نے شکوہ کیا کہ:
کاش ہمارے شیعہ کہ اللہ ان کو توفیق دے اگر وہ ہم دل ہوتے تو ہمارے ظہور میں تاخیر نہ ہوتی۔

آج امام زمانؑ عج کے اس شکوے کو ایک ہزار سال ہو گئے ہیں۔ اور ہم نے کہاں مولاؑ کے اس شکوے کو پورا کیا۔ ہم نہیں کر سکے۔ یہ ہماری کوتاہی ہے۔

اسی لیے عالم ربانی خواجہ نصیر الدین طوسیؒ نے بالآخر جب تمام مباحثِ مہدویت کو پڑھا اور جب غیبت کو پڑھا تو جو نتیجہ انہوں نے نکالا وہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے۔
غیبتہ منا۔۔۔۔۔
مہدیؑ عج کی غیبت کا باعث شیعہ یعنی ہم خود ہیں۔ ہمارا رویہ ہمارا اپنا طرز عمل ہے ہم خود تیار نہیں۔

اب وہ جو عہد تھا اس کے حوالے سے اشارہ کرتے ہیں۔ کہ
انا علی الھد میں کیا نکات تھے۔
1۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
2۔ اہل ایمان کے ساتھ تعاون۔ (لوگوں کی مدد، تعاون)
3۔ ذکر امام زمانؑ عج میں وسعت ہے۔

اور اگر دیکھا جائے تو ابھی تک کوئی بھی چیز شروع نہیں ہوئی ہے۔

روایت:
معصوؑم فرماتے ہیں
مہدیؑ کے ناصرین کو کبھی بھی نمازوں سے نہ ڈھونڈنا۔
راوی نے پوچھا: مولاؑ پھر کیسے ڈھونڈیں۔
فرمایا: اگر ان کو ڈھونڈنا ہے تو ان کو سخاوت و ایثار اور لوگوں کی خیرخواہی سے ڈھونڈو۔

معصومؑ فرماتے ہیں کہ اگر ان کو ڈھونڈنا ہے تو ان کے قلوب سے ڈھونڈو۔ ان کے قلوب، قلب ابراہیم کی طرح روشن ہونگے۔ توحید سے بھرے ہوئے ہوں گے۔

امیرالمومنینؑ نے قائمؑ عج کے ناصرین کی بہت زیادہ تعریف کی۔ اور بہترین جملے جو مولاؑ کے ناصرین کے لیے کہے گئے ہیں وہ مولا علیؑ کی جانب سے ہیں۔

فرمایا کہ :

یہ وہ ملت ہوگی کہ جو پروردگار کی اس طرح معرفت رکھتی ہو گی کہ جس طرح معرفت رکھنے کا حق ہے۔ جس طرح حق ہے توحید رکھنے کا اس طرح ان کے اندر توحید معجزن ہوگی۔

استاد محترم فرماتے ہیں:
میں نے ایک مرتبہ ایک استاد سے پوچھا۔ کہ حق توحید کیا ہے؟ یہ تو مولاؑ کو پتہ ہے لیکن! ایک مناسب حد تک اگر ایک طالب علم نے اپنے اندر توحید پیدا کرنی ہے تو اسے کتنا مطالعہ کرنا چاییے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہزار گھنٹہ پڑھنا چاہیے۔ پھر وہ مناسب حد تک وہ اپنے اندر توحید پیدا کر سکے گا اور پھر واقعاً توحید اس کی گفتگو اور اس کے اخلاق اور عمل میں بھی توحید کے جلوے نظر آئیں گے۔

یعنی! اس طرح وہ توحید کا مطالعہ کرے کہ روزانہ آیات توحید، تفاسیر توحید، روایات توحید اس قدر پڑھے ، اس طرح علماء کی کتابیں جیسے توحید مفضلؒ ، توحید صدوقؒ پڑھے آئمہؑ کے مناظرے پڑھے جو توحید پر ہوئے۔ یہ تمام چیزیں ہمارے پڑھنے کے لیے ہیں۔

یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں سے یہ یاران مہدی یہ عظیم ترین ملت تیار ہونی ہے۔

پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم وہ ملت بنیں کہ جس سے مہدیؑ عج کا انتظار ہو۔
آمین!
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *