مقبول ترین
درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_گوھر شاہی سے آشنائی- درس10
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_درس 8_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
دروس لقاءاللہ_ اللہ کے خالص بندوں کے مقامات
کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچہ 14 _ موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ

اخلاق منتظرین – قرآن مجید کی تلاوت اور قرآن بعنوان معلم و مربی اخلاق

استاد مہدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ :

پروردگار عالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں دو طرح کی حجتوں سے نوازا۔

ایک حجت صامت ہے جو قرآن کریم ہے اور ایک حجت ناطق ہے جوکہ امام ؑ زمانہ ؑ عج الشریف ہیں ۔

اہل انتظار دونوں الہیٰ حجتوں سے فیض لیتے ہیں۔قرآن کتاب ہدایت ہے اور امام عج ھادی ہیں ۔ قرآن کتاب ہے اور امام اسکے مفسر ہیں ۔
سبحان اللہ !

قرآن وحی ہے اور امام اس کے محافظ ہیں۔ ہر دور میں دو حجت ہمیشہ رہیں ہیں۔ جس طرح کہ رسول ؐ اللہ نے فرمایا:
کہ میں تمھارے لیے دو گرااں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قرآن اور ایک اہلبیتؑ ۔

تو ہر دور میں قرآن بھی رہا ہے اور رسولؐ اللہ کے اہلبیتؑ میں سے بھی ایک ہستی جو امامؑ ہیں ہماری ہدایت کا سامان فراہم کرتے رہے۔

ویسے تو قرآن مجید کی توصیف کئی انداز سے ہوئی اس کی عظمت کے بارے میں پروردگار عالم نے خود اشارہ کیا۔
سورہ یونس آیت نمبر 57 میں رب العزت فرماتا ہے۔
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَـةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَـآءٌ لِّمَا فِى الصُّدُوْرِۙ وَهُدًى وَّرَحْـمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ

اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے، اور ایمان داروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

یہاں  بیماریوں سے مراد ہماری بد اخلاقیاں اور ہمارے عقائد سے متعلق گمراہی مثلاً شرک ہے۔ اور *قرآن سینوں کے اندر کی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔* اور پھر قرآن فرما رہا ہے کہ: یہ مومنین کے لیے ہدایت ہے۔

خود احادیث نبویؐ و آئمہ ؑ میں قرآن کی کیا اہمیت بیان ہوئی
اس میں کوئی شک نہیں قرآن ایک کتاب انتظار ہے ۔ قرآن ایک زندہ و جاوداں کتاب ہے۔جو ہر دور کی حجت اور اس زمانے کی امت کے درمیان ہدایت کا کام کرتی ہے اور ہر دور کے لوگوں کو اس زمانے کی حجت سےمتمسک ہونے کی دعوت دیتی ہے۔

یہ قیامت تک ہر دور کے لوگوںں کے لیے کتاب ہے۔ اس میں قیامت تک کے لوگوں کے مسائل کا حل ہے۔

قرآن کریم میں جو صالحین بیان ہوئے وہ منتظرین ہیں
آج اگر ہم اس کی آیات کو پڑھیں تو یہ اہل انتظار کے لیے ایات ہیں۔ اب یہ قرآن آج کے لوگوں کے لیے ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے والے لوگ دنیا سے چلے گئے۔

جب خدا یہ فرماتا ہے کہ: اے لوگوں!  تو اس سے مراد ہم ہی ہیں۔

اور جب فرما رہا ہے کہ: یہ مومنین کے لیے ہدایت ہے تو یہاں مومنین سے مراد آج کے دور کے اہل انتظار ہیں۔ جو ولایت امام زمانہؑ سے متمسک ہیں۔ اور امام زمانہ ؑ پر ایمان رکھتے ہیں۔

رسول ؐ اللہ نے فرمایا:
اپنے گھروں کو قرآن کی تلاوت سے روشن کریں ۔ جس گھر میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے اس گھر سے شیاطین بھاگ جاتے ہیں اور وہ گھر نورانی ہو جاتا ہے۔

اب تلاوت کے حوالے سے روایات مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

1.سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کس حوالے سے کرنی چاہیے۔

تو رسولؐ اللہ کا فرمان ہے کہ
“جب بھی قرآن کی قرات کریں تو عربی تجوید سے کریں”۔
فرماتے ہیں:

کہ گناہگار اور فاسق لوگوں کے غنا والے انداز سے نہ پڑھیں ۔ یعنی شعروں اور موسیقی کے انداز میں نہ پڑھیں۔

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ممبروں سے شعر اور گانے کی دھن پر قرآن پڑھا جاتا ہے جو کہ منع کیا گیا ہے۔ بلکہ عربی لب و لحجہ میں پڑھیں۔
اسلیئے کہا گیا ہے کہ معلمین قرآن سے قرآن پڑھنا سیکھیں۔

2.دوسرا سوال جو قرآن کی قرات کے حوالے سے پوچھا جاتا ہے کہ روزانہ کتنا قرآن پڑھیں۔

اس حوالے سے امام صادق ؑ فرماتے ہیں کہ :
” قرآن جو ہے وہ پروردگار عالم کا اپنے بندوں کے ساتھ ایک عہد و پیمان ہے۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جو بھی تم عمل کرو گے میں اس کے مطابق تمھیں سزا اور جزا دوں گا۔

پھر امام صادق ؑ فرماتے ہیں۔
” بس ایک مسلمان شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ عہد و پیمان پروردگار کی جانب غور کرے اور روزانہ 50 آیات کی تلاوت کرے۔”

یعنی تقریباً قرآن کے 6 صفحے بن جاتے ہیں۔ تو ضروری ہے کہ منتظر امام زمانہؑ کے لیے لازم ہے کہ فرمان امام صادق کے مطابق 6 صحفوں کی تلاوت کرے۔

پھر امام صادق ؑ سے پوچھا گیا
کہ آیا ہم قرآن کو حفظ کی شکل میں تلاوت کریں یا قرآن کو کھول کر اس کی زیارت کرتے ہوئے تلاوت کریں تو امامؑ نے فرمایا کہ:

” بہتر یہی ہے کہ آپ قرآن مجید کو کھولیں اور اپنے سامنے نگاہ کریں اور تلاوت کریں ۔ پھر فرمایا آیا تو نہیں جانتا کہ قرآن کی جانب دیکھنا عبادت ہے۔
اگر چہ حفظ قرآن بہت بڑی فضیلت لیکن اگر ہم اہل انتظار ہیں اور ہم نے روززانہ 6 صفحات کی تلاوت کرنی ہے تو پھر ہم دیکھ کر پڑھیں ۔

اس میں مذید مولا ؑ ایک اور نصحیت فرماتے ہیں کہ:

جب بھی آپ قرآن مجید کی تلاوت کریں تو جلدی نہ کریں اور ٹھہر ٹھہر کر کریں اور جب بھی دوران تلاوت ایسی آیت پر پہنچو کہ جہاں اللہ نے جنت کا ذکر کیا ہے۔ تو وہاں ٹھہر جاؤ اور وہاں پروردگار عالم سے جنت مانگو۔ یہ دوران تلاوت مقام دعا ہے۔ کیونکہ جب انسان تلاوت قرآن کرتا ہے تو پروردگار عالم اسے نظر رحمت سے دیکھتا ہے۔

اور پھر فرماتے ہیں کہ جب تم تلاوت کرتے ہوئے کسی ایسی آیت پر پہنچو کہ جہاںں جہنم کا ذکر ہے تو پھر ٹھہر جاؤ اور پروردگار سےدعا کرو کہ وہ تمھیں جہنم سے پناہ دے۔

اور کہوکہ اے اللہ مجھے اہل جہنم سے قرار نہ دے۔

یہ سارے آداب ہمیں آئمہؑ نے بیان کئے۔

فرماتے ہیں کہ:
جب بھی قرآن کی تلاوت کرو تو حزن کے ساتھ کرو۔ غمگین آواز سے تلاوت کریں۔

پھر فرماتے ہیں۔

“قرآن کی تلاوت ہر روز کریں اور پروردگار عالم اس دل کو عذاب نہیں دے گا جو قرآن کو اپنے اندر لیتا ہے۔

جب ایک انسان تلاوت قرآن ہر روز کرتا ہے تو نورانیت اس کے اندر داخل ہو گی۔

فرماتے ہیں :
پروردگار عالم ایسے شخص کو عذاب نہیں کرے گا۔

امیرالمونین علیؑ ابن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ:

مومنین کی یہی نشانی ہے کہ وہ قرآن کو سکون کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اور اپنے دلوں کو محزون کرتے ہیں۔

پھر ایک مقام پر فرماتے ہیں۔
قرآن کو اچھے انداز سے پڑھیں ۔ قرآن مجید کے اندر جو مختلف امتوں کی داستانیں ہیں وہ تمھارے لیے بہت مفید ہیں۔
اللہ نے جو گذشتہ امتوں سے وعدے کئے وہ پورے کئے۔ اللہ ہم سے بھی قرآن میں وعدہ فرما رہا ہے جسے وہ پورا فرمائے گا۔ جس کی مثال صالحین کی حکومت کا بپا ہونا ہے اور جس ہستی کے ذریعے یہ حکومت بپا ہونی ہے وہ موجود ہیں جو ہمارے مولا امام زمانہؑ ہیں ۔ اور اللہ نے قرآن میں 200 کے قریب آیات میں اس عظیم وعدے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جو صالحین کی حکومت ہے۔

آج ہم اسی دور میں ہیں کہ جو امام زمانہؑ عج کا دور ہے اور امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ اُس دور میں قرآن کی حکومت ہوگی۔
اسی لیے امام مہدیؑ کی حکومت کو دولت قرآن اور حکومت قرآن بھی کہتے ہیں۔ اور مولا ؑ فرماتے ہیں کہ اس دور میں مومنین جگہ جگہ خیمے نصب کریں گے اور قرآن کا درس دییں گے ۔ اور اس طرح تعلیم قرآن دیں گے کہ جس طرح قرآن نازل ہوا۔

یعنی اس دور میں سب اہل قرآن ہونگے اور قرآن ہمارے وجود اور ہماریی زندگیوں پر حکومت کرے گا۔ اور یہ قرآن کی ہدایت اس ھادیؑ کے ذریعے پوری دنیا میں بپا ہو گی اور پوری دنیا کا نظام بنے گی۔

اور اس زمانے میں قرآن مردوں پر پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ گرچہ اس کی تلاوت کا ثواب میت کو ملتا ہے لیکن ھدایت سے محروم ہے ۔ جو قوانین اللہ نے قرآن میں بھیجے اب اس کا فائدہ میت کو نہیں ہوتا۔ ۔ لیکن زمانہ ظہور میں قرآن زندوں کی کتاب ہو گی۔ اور پھر قرآن تاقیامت حاکم ہو گا۔ انشاءاللہ۔
پروردگار عالم ہمیں قرآن کریم اور امام زمانہؑ کا وہ دور دکھائے آمین۔ اور اس دور میں ہم اپنی زندگی کے تمام اصول قرآن سے لیں گے۔

والسلام ۔

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید